پاکستان‘ ایک طرف معاشی بحران سے دوچار ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ میں اپنے حالیہ کالموں میں اس خدشے کا اظہار کرتا رہا ہوں۔ جمعہ کی رات کراچی پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے نے سکیورٹی کے بڑے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ عوام یہ سوچنے لگے ہیں کہ سکیورٹی ہائی الرٹ ہونے کے باوجود بھی اگر کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ ہو سکتا ہے تو عام شہری کس طرح محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت بہت فخر سے بتاتے رہے کہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے اور عمارت کلیئر کروا دی گئی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب کیسے ہوا؟ پاکستانیوں نے بہت قربانیاں دے کر ملک میں امن قائم کیا ہے۔ ماضی میں بھی ایسے ہی سکیورٹی اداروں‘ مساجد اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے وہ تاریک دور واپس لوٹ رہا ہے۔ ملک میں پہلے ہی بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملکی سرمایہ کار بھی جلد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث کاروباری طبقہ پریشان ہے۔ آئی ایم ایف مشن تقریباً دس روز پاکستان میں رہا اور پاکستان سے گئے بھی انہیں تقریباً نو روز گزر چکے لیکن ابھی تک سٹاف لیول معاہدہ بھی نہ ہو سکا ہے اور نہ ہی ادارے کی جانب سے کوئی حوصلہ افزا بیان سامنے آیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کیوں نہیں دے رہا اور پاکستان کے حوالے سے کوئی مثبت بیان کیوں جاری نہیں کیا گیا؟ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عدم اعتماد روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور وہ پاکستان کے کسی بھی وعدے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پہلے ڈاکٹر حفیظ شیخ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کر سکے‘ پھر شوکت ترین نے بھی وعدہ خلافی کی۔ مفتاح اسماعیل نے جو وعدے کیے‘ اسحاق ڈار صاحب نے ان پر عملدرآمد نہیں کیا۔ وعدہ خلافی کی وجہ سے پہلے ساتواں جائزہ اجلاس تاخیر کا شکار ہوا اور اب نواں جائزہ اجلاس میں بھی چار ماہ تاخیر ہو چکی ہے لیکن ابھی تک تین سال پہلے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے پچھلے سال ستمبر میں آئی ایم ایف کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ اضافہ نہیں کیا گیا۔
اسحاق ڈار صاحب نے فرماتے ہیں کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے جو وعدہ خلافی کی‘اس وجہ سے اعتماد کا فقدان پیدا ہوا۔ میرے مطابق اسحاق ڈار صاحب خود وعدہ خلافی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پاکستان پر عدم اعتماد کی ایک وجہ دوست ممالک کا پیچھے ہٹنا بھی ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف قرض ملنے سے پہلے ہی چین پاکستان کو قرض دیتا رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب چین کو بھی پاکستانی معیشت پر اعتماد نہیں رہا۔ خلیجی ممالک کے حوالے سے بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ پہلے معیشت ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات کریں پھر قرض ملے گا۔ اس وقت پاکستان کی معیشت دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ ایک بجٹ مالی خسارہ اور دوسرا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ ان دونوں خساروں کو کم کرنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان کو قرض جاری کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جب سے آئی ایم ایف مشن پاکستان سے واپس گیا ہے‘ ڈالر ریٹ پھر سے کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ڈالر ریٹ کو پھر سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ جس پر آئی ایم ایف کو اعتراض ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات کب تک طے پاتے ہیں‘ اس بارے کچھ بھی مکمل یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ فی الحال منی بجٹ کے حوالے سے اجلاس پیر کو ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر یکم مارچ تک مکمل عملدرآمد کرنا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط اور اس سے حاصل ہونیوالے قرض سے متعلق کافی لکھا جا چکا ہے لیکن پاکستان میں عوامی سطح پر اس ادارے سے متعلق زیادہ آگاہی نہیں ہے۔ آئیے ایک نظر اس پر بھی ڈالتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے 1944ء میں آئی ایم ایف کی بنیاد رکھی تھی جس کا ابتدائی مقصد یورپی ممالک کی معیشت کی بحالی تھا۔ اس کے بعد دائرہ کار وسیع ہوا تو اس کے مقاصد میں معاشی عدم استحکام کے شکار ممالک کی مدد کرنا بھی شامل ہو گیا۔ چاہے ان کا تعلق دنیا کے کسی خطے سے بھی ہو۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کی تعداد 190ہے اور آئی ایم ایف کے پاس ادھار دینے کے لیے ہر وقت تقریباً ایک ٹریلین ڈالرز کا بجٹ موجود ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کمرشل بینک نہیں ہے لیکن اس کا قرض ادا نہ کرنے والا ملک ڈیفالٹ کر جاتا ہے۔ اس کا قرض نہ تو رول اوور ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی ادائیگی معطل ہو سکتی ہے۔ البتہ قرض لینے والے ممالک کو گریس پیریڈ دیا جاتا ہے جیسا کہ پاکستان کو ملا ہوا ہے۔ پاکستان نے 2014-16ء کے دوران تقریباً 6ارب 70کروڑ ڈالرز کا جو پروگرام مکمل کیا تھا‘ اس کا گریس پیریڈ اگلے سال ختم ہو جائے گا اور پاکستان کو ہر سال تقریباً ایک ارب ڈالرز آئی ایم ایف کو قرض بمعہ سود واپس کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کے قرض رول اوور ہو جاتے ہیں اور ان کی عدم ادائیگی پر ملک ڈیفالٹ بھی نہیں ہوتے۔ 2014ء میں آئی ایم ایف قرض کی شرح سود تقریباً 2فیصد تھی جبکہ 2019ء میں ملنے والے قرض کی شرح سود تقریباً سوا تین فیصد ہے۔ یہ پروگرام ختم ہونے کے بعد پاکستان کو نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہوگا اور اس کی شرح سود ماضی کی نسبت اور زیادہ ہوگی۔ آئی ایم ایف کی شرح سود کمرشل بینکوں سے کم اور ملٹی لیٹرل بینکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ڈونر ممالک سے فنڈز لیتا ہے اور غریب ممبر ممالک کو قرض دیتا ہے۔ اس سے حاصل شدہ آمدن ادارے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اسے ایک این جی او بھی کہا جا سکتا ہے جس کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ مدد کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ملکوں کی مدد کرنا بھی ہوتا ہے جبکہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں ترقیاتی منصوبے لگانے کے لیے فنڈز مہیا کرنا ہے۔ تینوں ادارے اقوام متحدہ کے قائم کیے ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کم شرح سود پر قرض دیتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کی شرح سود دونوں بینکوں سے زیادہ اور کمرشل بینکوں سے کم ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اپنے منافع میں سے ممبر ممالک کو حصہ نہیں دیتا بلکہ منافع کی رقم سے محفوظ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اس کے ایس او پیز کے مطابق انتہائی کم آمدن والے ممالک کو زیرو ریٹ پر بھی قرض دیے جا سکتے ہیں لیکن وہ چھوٹے قرض ہوتے ہیں۔ اس کی شرح سود مستقل نہیں ہے۔ یہ ہر ملک کے لیے مختلف ہوتی ہے لیکن جو شرح سود طے ہو جائے‘ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عمومی طور پر تمام بڑے قرضوں اور شرح سود کا فیصلہ ایگزیکٹو بورڈ کرتا ہے لیکن کچھ قرض ایسے بھی ہیں جن کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آئی ایم ایف کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ کمزور معاشی ممالک کی مدد کرنا ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی فنڈ نہیں ہوتا۔ سب کچھ ڈونر ممالک نے دیا ہوتا ہے جس میں امریکہ کا شیئر سب سے زیادہ ہے۔ جب کسی ملک کو دنیا کے دیگر بینک اور ادارے قرض دینے سے معذرت کر لیتے ہیں تو آئی ایم ایف قرض دیتا ہے لیکن اس کیساتھ آمدن بڑھانے کے لیے اقدامات بھی کرواتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے آئی ایم ایف ایک نعمت ہے۔ اس کی وجہ سے ملکی آمدن بڑھ رہی ہے۔ وہ اصلاحات‘ جوہمیں خود کرنی چاہئیں‘ وہ آئی ایم ایف کروا رہا ہے۔ خراب ہوئے نظام کو درست کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور سخت فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن ان کا اصل فائدہ اس وقت ہوگا جب نظام کو بنیادوں سے ٹھیک کیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved