حالات سنگین ہیں۔ یہ بات بتانے کی ضرورت ہے؟ شاید نہیں۔ شاید کیوں‘ یقینا نہیں۔ لوگوں کو جو کچھ بتایا جارہا ہے اسے تو وہ پہلے ہی سے جھیل رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر یہ بات تواتر سے دہرائی جارہی ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘ حالات انتہائی خرابی کی طرف جارہے ہیں اور ہمیں بھی لے جارہے ہیں۔ معیشت کا حال سب سے برا ہے۔ معیشت کا کوئی ایک شعبہ بھی قابو میں نہیں۔ اور منظم بھی نہیں۔ ہر معاملے کو مافیا نے کنٹرول کر لیا ہے۔ علم الاقتصاد کے اصول دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اب شدید نوعیت کے منفی بیانیے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ جو کچھ اہلِ سیاست بول رہے ہیں‘ وہ ذرائع ابلاغ پر پوری شرح و بسط سے بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ دل دہلا دینے والا اور حوصلہ شکن ہے۔ بیشتر ذرائع ابلاغ صرف خرابی کی بات کر رہے ہیں۔ عام آدمی کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ اس کی زندگی شدید نوعیت کے خطرات میں گھری ہوئی ہے؟ اسے اس بات سے کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں اور جیسے ہیں‘ ویسے کیوں ہیں۔ وہ اس بات کو یکسر پسند نہیں کرتا کہ مسائل کو خوب توضیح کیساتھ بیان کیا جائے۔ ایسا کرنے کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مسائل کتنے اور کیسے ہیں۔ ہر طبقہ اپنے مسائل کے حل سے متعلق بات سننا چاہتا ہے۔ فی زمانہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسائل کا حل پیش کیا جائے۔ اہل سیاست و معیشت کا فرض ہے کہ عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کے آداب سکھانے پر متوجہ ہوں مگر اس سے قبل اشرافیہ اپنے اطوار درست کرے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی خواہش یا ہوس کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ بالکل گیا گزرا ہے۔ دنیا بھر میں ناکام معاشرے موجود ہیں۔ ان معاشروں میں کوئی بھی معاملہ ٹھکانے پر دکھائی نہیں دیتا۔ سسٹم مکمل بیٹھ چکا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ بہت کچھ ہے جو اب تک برقرار ہے‘ سلامت ہے۔ خرابیاں ہیں اور ان کے باعث مایوسی فطری معاملہ ہے۔ حالات کی خرابی مایوسی کی طرف دھکیلتی ہے مگر ہر معاملے میں مایوس ہو رہنے کا اب بھی کوئی جواز موجود نہیں۔ مشکلات اپنی جگہ اور حوصلہ اپنی جگہ۔ حالات کی خرابی حواس باختہ کیے دیتی ہے مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ ہم حالات کا بہت زیادہ اثر قبول کر رہے ہیں۔ عام آدمی کی قوتِ خرید روز بروز گرتی جارہی ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں مگر پھر بھی اتنا تو سوچنا ہی چاہیے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سمیت ہر خرابی انسان کو کسی نہ کسی بات کی تحریک بھی تو دیتی ہی ہے۔ جب انسان اپنی آمدنی میں ڈھنگ سے گزارا نہیں کر پاتا تو سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آمدنی میں اضافے کے طریقے سوچے جاتے ہیں۔ ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہر گھر کے افراد بڑھتے جاتے ہیں‘ ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے مگر آمدنی نہیں بڑھتی۔ یہ کیفیت انسان کو شدید بدحواس کرتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بدحواسی کا سبب بھی بالکل سامنے کا معاملہ ہوتا ہے مگر انسان سمجھ کر بھی نہیں سمجھتا۔
کیا حالات سے محض ڈرنا چاہیے؟ حالات کی سنگینی سے خوف کھانا فطری امر ہے اور اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں‘ محض ڈرتے رہنے کی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی یہ طے کر لے کہ محض ڈرتا رہے گا تو پھر کبھی سکون اس کی زندگی کا حصہ نہیں بن سکے گا۔ دنیا بھر میں معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر معاشی خرابیاں زیادہ ہیں تو یہ افسوسناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ دنیا بھر میں لوگ معاشی معاملات میں الجھنوں کا شکار ہیں اور اپنے معاشی حالات درست کرنے کے لیے تگ و دَو میں مصروف ہیں۔ مہنگائی ہر معاشرے کا حصہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا فضول ہے کہ زمانے بھر کے دکھ صرف ہمارے نصیب میں لکھے ہوئے ہیں۔ ہم پریشان ہیں‘ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے مگر یہ سوچنا محض سادہ لوحی ہے کہ صرف ہم پریشان ہیں۔ پریشانی چونکہ سبھی کے حصے میں ہے‘ اس لیے اسے اب زندگی کا ایک بنیادی پہلو سمجھ کر قبول کیا جائے اور اس سے نپٹنے کے معقول طریقوں کے بارے میں سوچا جائے۔ ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ حالات کی خرابی کو زیادہ سے زیادہ ہولناک انداز سے بیان کرنے والوں کی کمی نہیں۔ سیاسی و معاشی امور کے تجزیہ کار دن رات عوام کو خوفزدہ کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاست دان جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ بھی محض ڈرانے والا ہے۔ اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ تو اور بھی ڈرانے والا ہے۔ اہل دانش کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے آگے آنا اور قوم کو راستہ دکھانا چاہیے مگر وہ بھی صرف کمانے کھانے میں مصروف ہیں۔ انہیں بھی بظاہر اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ کون کس طور جی رہا ہے اور کب تک اس طور جی سکے گا۔ سب اپنی اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔
یہ وقت محض ڈرانے کا نہیں‘ راستہ دکھانے کا ہے۔ کسی بھی طبقے یا معاشرے کو ڈرانا کوئی کمال کی بات نہیں۔ حالات کی خرابی کا رونا رو رو کر کسی کو بھی خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا کرنے کی کچھ خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ میڈیا کے ذریعے بہت سے بزرجمہر یہ کام خواہ مخواہ کر رہے ہیں۔ اب ان کے ڈراوے بھی کسی کام کے نہیں کیونکہ لوگ پہلے ہی بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہوا۔ قوم کو امید کی ضرورت ہے۔ حالات دل دہلا دینے والے ہیں۔ تمام زمینی حقیقتیں حوصلہ شکن ثابت ہو رہی ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کو دلاسا دینے کی‘ اس کی ڈھارس بندھانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اول تو حکومتی سطح پر ہونا چاہیے۔ ایسی منصوبہ سازی کی جانی چاہیے جس سے عام آدمی کے لیے امید کا سامان ہو۔ وہ حالات کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے۔ ایسے میں اس کی حوصلہ افزائی ناگزیر ہے۔
ہم دوسری بہت سی چیزوں کی طرح جدید ذرائع ابلاغ کے دور میں بھی جی رہے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو ان کے ذریعے تبدیل کیا جارہا ہے۔ ان کی طاقت سے انکار ممکن نہیں۔ اس طاقت کے واضح اثرات سبھی پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ ان جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے عام آدمی کو رجائیت پسندی کی طرف جانے کی راہ ملے۔ اس وقت ہمارے ہاں ذرائع ابلاغ محض مایوسی پھیلانے والی باتیں کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کی مجموعی آواز یہ ہے کہ حالات بہت خراب ہیں اور مزید خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ حالات کی خرابی تو سبھی پر واضح ہے۔ یہ کوئی بتانے والی بات ہے ہی نہیں۔ بتانے والی بات تو یہ ہے کہ برے یا خراب حالات سے کس طور نپٹا جائے۔ لوگوں کو امکانات کے بارے میں سوچنا سکھایا جائے۔ انہیں پرامید رہنا سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھلائی کا کام ہے جو کیا ہی جانا چاہیے۔ آج عام پاکستانی اپنے حالات کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ نے پوری کردی ہے۔ مایوسی پھیلانے والے بیانات مزید ہولناک انداز سے بیان کیے جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کی آپس کی لڑائی نے معاملات کو انتہائی خرابی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سب کرسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ کوئی بھی ملک و قوم کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ معاشرے کو سنبھالنا جن کی ذمہ داری ہے‘ وہی معاشرے کو ٹھکانے لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے والوں کی اشد ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ اہلِ دانش اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور وہ سب کچھ کر گزریں جو کیا جانا چاہیے۔ یہ سوچ ذہنوں سے کھرچ کر پھینک دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ عمارت سلامت ہے۔ اسے رنگ و روغن کی ضرورت ہے۔ ڈھنگ سے مرمت اور تزئینِ نو ہو جائے تو یہ عمارت پھر قابلِ استعمال ہو جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved