پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کو 14اور 18جنوری کو تحلیل کیا گیا تھا۔ 1973ء کے آئین کی رُو سے ان کے انتخابات تحلیل ہونے کے نوے روز کے اندر اندرمنعقد ہونا لازمی ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت اورپاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں مقررہ وقت کے اندر انتخابات کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ پنجاب اور کے پی میں انتخابی نتائج ان کے خلاف آئیں گے۔ وہ اپنے موقف کے حق میں ہر استدلا ل پیش کررہے ہیں کہ قومی اسمبلی اور دیگر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے خاتمے تک پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ملتوی کردیے جائیں۔حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا ایک دھڑا پہلے ہی اصرار کررہا ہے کہ ایک آئینی شق کا استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے انتخابات غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر ایک سال کیلئے ملتوی کر دیے جائیں ۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو یہ الیکشن کم از کم 2023ء میں تو نہیں ہو سکتے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز ‘ وفاقی حکومت اور اپنی سیاسی جماعتوں کی ہدایات کے مطابق کام کررہے ہیں ‘جو دونوں صوبوں میں جلد الیکشن کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ اس طرزِ عمل سے گورنر کی غیر سیاسی حیثیت کمپرو مائز ہوتی ہے جو اس امر کی متقاضی ہے کہ گورنر کو صوبے کے سیاسی امورایک سیاسی مدبر کے طورپر آئین کی روح کے مطابق انجام دینے چاہئیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے 10فروری کو یہ فیصلہ سنایا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے الیکشن اس کی تحلیل کے نوے روز کے اندر اندر منعقد کرائے جائیں اور الیکشن کمیشن مقررہ آئینی مدت کے اندر الیکشن کرانے کے لیے ضروری انتظامات کرے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس فیصلے کے خلاف انٹر اکورٹ اپیل کی جائے گی؛ چنانچہ الیکشن کے انعقاد کے حتمی فیصلے میں تاخیر کا امکان ہے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان تحلیل شدہ اسمبلیوں کے الیکشن کرانے میں اپنا آئینی کردار ادا کرنے سے گریز کررہا ہے۔وہ مقررہ آئینی مدت میں الیکشن کرانے کی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح کی ایگزیکٹو اتھارٹیز کی طرف دیکھ رہا ہے ۔بجائے اس کے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کے لیے کسی ایگزیکٹو یا عدالتی اتھارٹیز کے فیصلے کا انتظار کرے‘ اسے چاہئے کہ وہ 1988‘ 1990‘ 1993'1997‘2008ء میں ہونے والے انتخابات میں الیکشن کی تاریخ کے تعین کے تاریخی ریکارڈ کو چیک کرلے ۔ پہلے چارو ں کیسز میں قومی او رصوبائی اسمبلیوں کو ان کی آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے ہی تحلیل کر دیا گیا تھا۔سوال یہ ہے کہ اُس وقت الیکشن کی تاریخ کس نے مقرر کی تھی؟ الیکشن کمیشن کو آئین کی شق 220کو بروئے کار لانا چاہئے جو وفاقی او رصوبائی لیول کی ایگزیکٹو اتھارٹیز کو پابند کرتی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر او رالیکشن کمیشن کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں معاونت فراہم کریں ۔الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ایگزیکٹو اتھارٹیز کو ہدایا ت جاری کرے کہ وہ الیکشن کے انعقاد کے انتظاما ت کریں نہ کہ وہ ایگزیکٹو کے فیصلے کا انتظار کرے کہ کیا اس کے پاس الیکشن کرانے کے لیے وقت اور وسائل دستیا ب ہیں یا نہیں۔
گزشتہ دو ہفتوں کی سیاسی پیش رفت سے تو یہ لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن مقررہ آئینی مدت کے دوران انتخابات کرانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرنے سے گریز کر رہا ہے؛ چنانچہ اس قسم کاتاثر پیدا ہو رہا ہے کہ ملک میں غیر معمولی سیاسی ‘انتظامی اور معاشی صورتحال کے پیش نظر انتخابات میں نوے روز سے زائد بھی تاخیر کی جاسکتی ہے۔یہ تو ''نظریۂ ضرورت ‘‘کے احیا کی نئی صورت لگتی ہے جس کے تحت غیر معمولی حالات میں آئینی شقوں پر عمل سے استثنیٰ لیا جا سکتا ہے۔الیکشن کے مسئلے پر (ن) لیگ کی حکومت او راپوزیشن جماعت پی ٹی آئی میں شدید محاذآرائی پیدا ہو چکی ہے۔دونوں فریق ایک دوسرے کے خلا ف روایتی سیاسی الز ام تراشی اور جوابی الزام تراشی کاطوفان برپا کیے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت (ن) لیگ کی قیادت کے خلاف کرپشن ‘ریاستی وسائل کے بے جا استعمال اور ناقص گورننس کے الزامات عائد کرتی ہے جبکہ (ن) لیگ کے لیڈروں کا مؤقف ہے کہ عمرا ن خان کا دورِ حکومت پاکستان میں گورننس ‘سیاسی اور معاشی مینجمنٹ کے اعتبار سے بدترین دور تھا۔وہ ان پر ریاستی وسائل کے غلط استعمال کا الزام عائد کرتے ہیں۔ عمران خان اس وقت پاکستان کی تاریخ کے کسی بھی سابق وزیراعظم کے مقابلے میں سب سے زیادہ عدالتی مقدمات ‘تحقیقات اور ایف آئی آرز کا سامنا کررہے ہیں۔اس محاذ آرائی نے ملک کی سیاسی فضا کو اس حد تک مکدر کر دیا ہے کہ وفاقی حکومت او راپوزیشن نئے انتخابات سمیت تمام سیاسی مسائل کے باہم قابلِ قبول حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر بھی آماد ہ نہیں۔
پارلیمانی جمہورت کامعیاری اصول یہ ہے کہ اگر سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہو جائے یا سیاسی امور کی انجام دہی میں کوئی تعطل پیدا ہو جائے تو وزیر اعظم او روزرائے اعلیٰ اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے بالترتیب قومی او رصوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ایسے بے یقینی کے حالات میں جمہوری نظام عوام کے تازہ مینڈیٹ کے حصول کو ترجیح دیتا ہے۔اس جمہوری اصول کی دستور پاکستان کے آرٹیکل 224میں بھرپورعکاسی ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ اگر کوئی اسمبلی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کرلیتی ہے تو اگلے ساٹھ روز کے اندر اندر نئے الیکشن منعقد کرائے جائیں گے۔ اگر مقررہ آئینی مدت پوری ہونے سے قبل اسمبلی کو تحلیل کردیا جائے تو اس کے نوے روز کے اندر اندر انتخابا ت کا انعقاد لازمی ہے۔الیکشن منعقد کرانے کے ضمن میں آئین کا یہ آرٹیکل بالکل واضح ہے مگر وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتیں سیاسی ‘انتظامی اور آئینی جواز کی آڑ میں مقررہ وقت پر الیکشن نہ کرانے کا استدلا ل پیش کررہی ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت او رآئین پسندی کو عدم تسلسل کا سامنا رہا ہے‘ سیاسی رہنمائوں کو کسی ایسی سیاسی کج فہمی کا مظاہر ہ نہیں کرنا چاہئے تاکہ ان کا شمار ان عناصر میں نہ کیا جائے جو پاکستان میں جمہوری اور آئینی عمل کے تسلسل میں رکاوٹ کا باعث بنتے رہے ہیں۔اگر انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو میدانِ سیاست سے خارج کرنے کا وتیرہ جاری رکھا اور اپنے سیاسی مخالفین پر بغاوت او ر ریاست مخالف ہونے کے الزامات لگاتے رہے تو جمہوریت ‘منظم سیاسی انقلاب اور معاشی بحالی کا ہدف ناقابلِ حصول ہو جائے گا۔ سیاسی رہنمائوں او رسیاسی عمل کی بقا جمہوریت اور آئین پسندی کی پیروی میں ہے‘ جیسا کہ ا ٓئین کے متن‘ پارلیمانی جمہوری روایات او رکنونشنز میں بیان ہے۔ان حالات میں تو سیاسی اور آئینی مسائل پر مشترکہ او رمتفقہ اپروچ او ربھی ناگزیر ہو جاتی ہے جب پندرہ فروری کو ایک ایسے منی بجٹ کا بھی اعلان کیا گیا ہو جس نے ان عام شہریوں کی مشکلات میں شدید اضافہ کر دیا ہو جو پہلے ہی پاکستان کی اشرافیہ نواز سیاست سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی مسلسل محاذ آرائی نے حکمران طبقے کے لیے پاکستان کو معاشی زبوں حالی اور سیاسی بے یقینی کی فضا سے باہر نکالنا مشکل بنا دیا ہے۔اس سے عام شہریوں کی مغائرت میں مزید شدت پیدا ہوگی اور پاکستان میں لبرل دستور پسندی اور جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی میں مزید اضافہ ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved