خوف اور خواہش کے درمیان پینڈولم بنی مسلم لیگ (ن) 25اپریل کو مقبولیت اور پذیرائی کے جس مقام پر تھی آج صورتحال یکسر مختلف ہی نہیں بلکہ بازی اُلٹ چکی ہے۔ عمران خان نے تو قومی اسمبلی تحلیل کر کے انہیں پورا موقع فراہم کیا تھا کہ الیکشن میں جائیں اور بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر اقتدار میں آجائیں لیکن سزاؤں کا خوف اور اقتدار کی خواہش کا ایسا سنگم بنا کہ مت ہی ماری گئی۔ زرداری صاحب کی بچھائی ہوئی بساط ہو اور کوئی شہ مات سے بچ کر نکل جائے؟حریفوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ حلیفوں کو کہاں اور کس مقام پر رکھنا ہے اس ہنر میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن میں جانے کے بجائے کورٹ سے رجوع اور پھر اسمبلی بحالی کے بعد اقتدار کا طوق گلے میں ڈالنا ‘ ان سبھی چالوں کے ماسٹر مائنڈ زرداری صاحب ہی تو ہیں۔ شہباز شریف پر بھی بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح میرے اور میرے بیٹوں کے کیسز ختم ہو جائیں۔ کیسز ختم کرواتے کرواتے اس مقام پر آگئے ہیں کہ سیاست کے ساتھ ساتھ آپشنز بھی ختم ہوتے چلے جارہے ہیں۔
خوف اور خواہش میں کیے گئے فیصلوں کے انڈے بچے تو نکل آئے ہیں لیکن بچ نکلنے کے راستے ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شوقِ حکمرانی اس قدر مہنگا پڑتا چلا جا رہا ہے کہ پورے ملک میں مہنگائی کا جن دندناتا پھر رہا ہے۔ گزرتا ہوا ایک ایک دن برابر باور کروائے چلا جا رہا ہے کہ 25اپریل کے بعد کیے گئے سبھی فیصلے خسارے کا سودا بنتے چلے جا رہے ہیں۔ معاملہ منیر نیازیؔ کے شعر سے بہت آگے نکل چکا ہے‘ انہیں تو ایک اور دریا کا سامنا تھا جبکہ شہباز شریف کو یکے بعد دیگرے کئی دریاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ دن دور نہیں کہ پی ڈی ایم کے ماسٹر مائنڈ اور بادشاہ گر اِن دریاؤں کے کنارے بیٹھ کر سبھی ڈوبنے والوں کا نظارہ کرتے نظر آئیں ۔
نااہل ہونے کے بعد نواز شریف کی جدوجہد ہو یا قید و بند کی صعوبتیں‘ شریکِ حیات کی جان لیوا بیماری کے باوجود دربدر کی ٹھوکریں اور بیانیے سمیت سبھی ریاضتیں بھی برباد ہوتی نظر آرہی ہیں۔ یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہوگا کہ شہباز شریف کی خواہش اور خوف نے وہ سبھی کچھ گنوا ڈالا جو نوازشریف نے کیسے کیسے جتن اور جان جوکھوں میں ڈال کر بنایا تھا۔ اس تھیوری سے اختلاف رکھنے والوں کو برابر یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ مہنگے کیسوں میں سستے چھوٹنے والے سبھی کسی مغالطے میں ہیں۔ کلین چٹ کے باوجود یہ سارے کیسز آنے والے دنوں میں مزید مہنگے پڑنے والے ہیں۔ بادشاہ گر کے پاس تو گنوانے کے لیے پہلے ہی کچھ نہیں تھا‘ سندھ پر راج تو 15سالوں سے پہلے ہی جاری ہے‘ تختِ پنجاب میں نقب لگانے کے لیے بچھائی گئی بساط پر چالیں بھی برابر جاری ہیں‘ تاہم کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نہ ہونے کے باوجود اس تھیوری کو نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے پاس تو پنجاب میں کھونے کے لیے تو پہلے ہی کچھ نہیں تھا‘ البتہ مسلم لیگ(ن) بہت کچھ کھوتی ضرور نظر آرہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے پیروں سے زمین نکال کر اس پر قدم کیونکر جما پاتے ہیں۔ ایک طرف مسلم لیگ(ن) مقبولیت کے پہاڑ سے لڑھکتی ہوئی گہری کھائیوں کی طرف جا رہی ہے‘ دوسری طرف عدالتِ عالیہ نے نئے نیب قوانین پر شدید تحفظات اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے تحفظات آنے کے بعد عین ممکن ہے کہ نئے نیب قوانین پر انصاف بھی حرکت میں آجائے‘ ایسی صورت میں تو یہی کہتے پھریں گے کہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ مل بانٹ کر کھانے والوں نے جہاں اقتدار سے لیکر وسائل کے بٹوارے کا فارمولا بنایا ہے وہاں 50کروڑ سے کم مالیت کی کرپشن کو نیب کے دائرہ اختیار سے بھی باہر کرنے کا قانون بنا ڈالا ہے‘ گویا 50کروڑ سے کم مالیت کی جتنی چاہے وارداتیں ڈالو... نیب کچھ بگاڑ نہیں پائے گا۔
اسی طرح انصاف سرکار میں عمران خان کے ایک مشیر بھی احتساب کے عمل کو متنازع بنانے کے علاوہ بہت سی بدعتوں کو دوام بخشتے رہے‘ بڑے بزنس ٹائیکون کے جہاز پر سیر سپاٹے اور شہرِ لاہور سمیت نجانے کہاں کہاں ان کی میزبانی سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے جبکہ انصاف سرکار میں شریکِ اقتدار کئی دانے احتساب کی چکی میں پسنے سے برابر بچاتے بھی رہے ۔ ان کے بنائے ہوئے سبھی کیسوں میں سارے اسیر سستے چھوٹتے چلے گئے۔ عدالتِ عظمیٰ کے بارہا نوٹس کے باوجود احتساب عدالتوں اور ججز کی تعداد پوری کرنے سے گریز بھی جاری رہا جبکہ جس احتساب عدالت میں شہباز شریف کے کیسز زیرِ سماعت تھے وہ عدالت ایک عرصے تک جج صاحب کی تقرری کی منتظر ہی رہی۔ اس تناظر میں عمران خان کے مشیر احتساب کا کردار اور طرزِ حکمرانی بھی قابلِ احتساب ہے۔ احتساب کے نام پر مخالفین کو زیرِ عتاب رکھنے کی بدعت‘ جو نواز شریف نے شروع کی تھی‘ وہ ہر دور میں کئی اضافوں کے ساتھ برابر جاری رہی۔ پرویز مشرف بھی اس میں تڑکا لگا کر چوہدری برادران سمیت نجانے کتنوں کو ''کنگ پارٹی‘‘ میں شامل کرنے کے لیے وہ سبھی حربے استعمال کرتے رہے۔
یوں لگ رہا ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے مطالبوں اور فرمائشوں کا پریشر آنے والے دنوں میں شراکت کی ہنڈیا کو پریشر کُکر بنانے والا ہے اور پریشر اسی طرح بڑھتا رہا تو یہ کُکر پھٹ بھی سکتا ہے۔ ایسی صورت ایک دوسرے پر واری واری جانے والے بند کمرے کے راز و نیاز وائٹ پیپر بنانے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔ 2008ء کا الیکشن مل کر لڑنے والے چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی بن کر ایک دوسرے کے منہ میں نوالے ڈالنے والے نواز شریف اور زرداری نے اقتدار اور وسائل کا بٹوارا کرنے کے بعد ایک دوسرے کو چور ڈاکو اور لٹیرا کہنے کے علاوہ سڑکوں پر گھسیٹنے کی جوباتیں کیں وہ زیادہ پرانی نہیں ہیں۔
ادھر تختِ پنجاب میں روایتی تبادلوں کی بہار نے گورننس کی خزاں میں اضافہ اور اُجاڑے بڑھا ڈالے ہیں جبکہ اگلے دو ماہ میں الیکشن کے اثرات دور دور تک نہیں ‘ الیکشن کمیشن اور دیگر انتظامی اداروں کی طرف سے آنے والے عذر اور توجیہات سیاسی درجہ حرارت کو سوا نیزے پر لے جاتی نظر آرہی ہیں۔ تحریکِ انصاف نے پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر کے اگلے تین مہینے میں انتخابات کے لیے جو حکمتِ عملی بنائی تھی وہ بیک فائر کرتی نظر آرہی ہے۔ انتخابات سے فرار یا گریز افراتفری اور انتشار میں مزید اضافے کا باعث ہوگی‘ تین ماہ کے اندر انتخابات نہ ہونے کی صورت میں آئینی پیچیدگیاں کیا رنگ لائیں گی‘ اس بارے میں دور کی کوڑی لانے والے ہوں یا اندر کی خبر نکالنے والے‘ سبھی جانتے ہیں کہ آنے والے حالات تر نوالہ ہرگز نہیں ہوں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کو جہاں نئے نیب قوانین اور انتظامی تبادلوں پر تحفظات ہیں وہاں تین مہینے کی آئینی مدت میں انتخابات نہ ہونے کی صورت میں یہ تحفظات مزیدبڑھ سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اعلیٰ عدلیہ سے استدعا کرنی چاہیے کہ اگر الیکشن کمیشن انتخابات کروانے سے قاصر ہے تو آئینی بحران اور انتشار سے کہیں بہتر ہے کہ اسمبلیاں بحال کر کے معاملات عوامی نمائندوں کے سپرد کر دیے جائیں۔ ہم نے اسمبلیاں آئین کے مطابق انتخابات کروانے کے لیے تحلیل کی تھیں‘ آئینی بحران اور افراتفری کے لیے نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved