مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز کے اس بیان پر کہ موجودہ حکومت ان کی نہیں اور اس کے کسی فعل کی وہ ذمہ دار نہیں ‘ کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہوگا۔حالانکہ دیکھا جائے تو وزیراعظم اُن کے چچا ہوں اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی اُن کے رشتہ دار ہوں جو اُن کے والدِ محترم میاں نواز شریف کی اجازت اور رضا مندی سے اس عہدے پر فائز ہوئے ہوں تو حکومتی اعمال کی ذمہ داریوں سے بریت کیونکر ممکن ہے؟عوام اتنے بھی سادے نہیں کہ انہیں کچھ یاد ہی نہ ہو۔ ابھی کل تک محترمہ عوام کو خوش خبریاں دیتے ہوئے یہی ایک بات دہرارہی تھیں کہ آپ جلد ہی دیکھیں گے کہ اسحاق ڈار جیسے بلند اقبال ماہر معاشیات عمران خان حکومت کی اپنے دور میں تباہ کی گئی ملکی معیشت کو پھر سے اپنے پائوں پر اس طرح کھڑا کر دکھائیں گے کہ عوام کی سب تکلیفیں اور پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ اسحاق ڈار میاں نواز شریف کی اگلی صف کے وہ سپاہی ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی جادوگری سے کرشمے کر دکھائے ہیں لیکن اُنہوں ماہر معاشیات بالکل تصور نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ ایک اکائونٹنٹ ہیں۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کی خوشخبریاں اس طرح سنائی جا رہی تھیں جیسے اسحاق ڈار جونہی پاکستان میں قدم رکھیں گے‘ ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دینے لگے گا۔ دور نہ جائیں‘ اسحاق ڈار کے لندن سے پرواز کرنے سے پہلے ہی حکومت کے حامی بڑھکیں مار رہے تھے کہ ابھی تو شیرکی آمد ہے اور پاکستان میں ڈالر کانپنا شروع ہو گیا ہے تو سوچئے جب ڈار صاحب پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھیں گے تو ڈالر کی کیا حالت ہو جائے گی۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی موجود ہیں کہ جب حکومت نے وہاں کے عوام کے سروں اورکندھوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھانے کے لیے روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو اس ملک کی زندہ قوموں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے اس طرح سڑکوں اور بازاروں میں نکل کر احتجاج کیا کہ حکومت کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئیں۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ برازیل میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہوتے ہی برازیل کی سڑکوں پر انسانی سروں کا ایک ایسا سمندر امڈ آیا کہ سب کے اوسان خطا ہو گئے لیکن نہ جانے پاکستان کیسا ملک ہے‘ اس کے شہری اور عوام کس مٹی سے بنائے گئے ہیں کہ جیسے ہی یہ خبر اڑتی ہے کہ پٹرول کی قیمت تیس چالیس روپے فی لٹر بڑھائی جا رہی ہے تو بجائے احتجاج کرنے کے پٹرول پمپوں پر کئی کئی فرلانگ لمبی قطاریں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری کسی بھی حکومت کا جب جی چاہا‘ اشیائے ضروریہ و اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو آسمان پر چڑھا دیا کیونکہ یہ حکومتیں جانتی ہیں کہ ان کی رعایا احتجاج تو دور کی بات ہے‘ ہلکی سی آواز بھی نکالنے کی روادار نہیں۔ ان کی تو سوچ ہی یہ ہے کہ جتنی مرضی مہنگائی کر دیں‘ بس انہیں ہر شے بلاتعطل ملتی رہنی چاہیے۔
بات تو بہت پرانی ہے‘ جس کا عمران خان کی حکومت میں درجنوں صحافی بھائی بڑی کثرت سے اپنی تحریروں اور پروگراموں میں حوالے دیا کرتے تھے لیکن آج کل یہ سب حضرات خاموش ہیں‘ لگتا ہے کہ یا تو انہیں وہ مثال یا کہانی بھول گئی ہے یا موجودہ حالات کے تناظر اور ملک میں مہنگائی کے طوفانی سمندر میں عوام کو غوطے کھاتا دیکھتے ہوئے وہ کچھ کہنے سے شرماتے اور جھجکتے ہیں۔ اس لیے ان کی بار بار لکھی گئی وہی کہانی دہراتے ہوئے ان سب مہربانوں کو یاد دلانے کی ناکام ہی سہی لیکن ایک کوشش کر دیکھتے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ عمران خان کی حکومت میں جب پٹرول اور دوسری اشیائے ضروریہ مہنگی ہونے لگیں تو میرے کچھ صحافی بھائیوں نے تسلسل سے اپنے مضامین میں یہ واقعہ لکھنا شروع کر دیا جس کے مطابق ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلا کر پوچھا کہ کیا بات ہے‘ میری رعایا کوئی فریاد لے کر کیوں نہیں آرہی؟ جس پر وزیر با تدبیر نے عرض کیا کہ حضور کا اقبال بلند ہو‘ رعایا اتنی خوشحال ہے کہ اسے اپنے بادشاہ سے کوئی شکایت ہی نہیں۔ بادشاہ کو جب اپنے وزیر کی زبانی پتا چلا کہ اس کی رعایا کو اس سے کوئی شکایت ہی نہیں تو اس نے حکم دیا کہ کل سے پل سے گزر کر شہرِ پناہ میں داخل ہونیوالے ہر شخص کو اس کے سپاہی پانچ جوتے مارا کریں گے۔ بادشاہ کے حکم کی دیر تھی‘ اگلی صبح ہی بادشاہ کے سپاہی پل پر کھڑے ہو گئے اور وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کو ایک چبوترے پر الٹا لٹا کر پانچ جوتے مارنے کے بعد ہی شہر میں داخلے کی اجا زت دیتے۔
بادشاہ کے اس حکم کی تعمیل میں کئی ہفتے گزر گئے لیکن بادشاہ حیران تھا کہ ابھی تک کسی نے شکایت ہی نہیں کی کیونکہ وہ جب محل کی چھت پر ملکہ کے ساتھ ٹہلنے کیلئے جاتا تو لوگوں پر برسنے والے جوتوں سے چیخوں اور ہائے ہائے کی آوازیں سنائی دیتیں۔ ایک دن وزیر نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ شہر کے معززین کا ایک وفد دربار میں اپنی کچھ عرضداشت پیش کرنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ بادشاہ نے سوچا کہ اب یہ لازمی ان جوتوں کی تکلیف سے تنگ آ کر اس سے درخواست کریں گے کہ جوتے مارنے کا حکم واپس لیا جائے۔ بادشاہ نے سوچ رکھا تھا کہ ان کے رونے پیٹنے پر وہ پانچ کے بجائے ایک جوتا مارنے کا حکم دے گا اور اگر ایک بار پھر یہ فریاد لے کر آئے تو پھر اس حکم کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ شہریوں کا وفد‘ جس میں تاجروں اور صنعت کاروں کے علاوہ عام افراد بھی شامل تھے‘ بادشاہ کے حضور پیش ہوا تو وزیر نے پوچھا کہ ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کیلئے تم لوگوں نے بادشاہِ وقت کے آرام و سکون میں خلل ڈالا ہے؟ وفد نے دونوں ہاتھ جوڑ کر وزیر اور بادشاہ کے سامنے جھکتے ہوئے کہا: حضور کا اقبال بلند ہو‘ شہرِ پناہ میں داخلے کیلئے جو سپاہی آپ نے جوتے مارنے کیلئے مقرر کیے ہیں‘ ان کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہمیں کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے‘ ہماری آپ سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے تاکہ لوگوں کا نہ تو وقت ضائع ہو اور نہ ہی گھنٹوں قطاروں میں لگ کر انتظار کرنا پڑے۔ اگر بادشاہ یہ حکم جاری کر دے تو رعایا اپنے بادشاہ سلامت کو دعائیں دے گی۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں رہنے والے عوام کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ گیس‘ بجلی‘ پٹرول اور ایک نو مولود بچے سے لے کر ہر عمر کے مرد و عورت کے جسم اور پیٹ کی ضروریات کے علا وہ ہر گھر میں استعمال ہونے والی دس روپے سے کروڑوں روپے تک کی کسی بھی قسم کی اور کسی بھی قیمت کی اشیا پر اٹھارہ سے پچیس فیصد ٹیکس نافذکر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرول‘ ڈیزل اور ایل پی جی کے سلنڈرز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے حکومت کی غریب کش پالیسی واضح ہے۔ حکمرانوں نے عوام کی شہہ رگ پر مہنگائی کا بھاری بوجھ ڈال کر اس پر ایسی اچھل کود شروع کر دی ہے کہ سانسیں بند ہونے کو ہیں۔ انہی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی 48سال کی بلند ترین پر پہنچ چکی ہے۔ شاید کسی کو شک ہے کہ ان پچکے اور کچلے ہوئے ڈھانچوں میں اب بھی کچھ جان باقی ہے۔ لیکن مسلم لیگ نواز کی رہنما کے اس بیان پر کیا کہا جائے کہ آج ان کی حکومت نہیں‘ اس لیے یہ مہنگائی وہ نہیں کر رہیں۔ ان کی حکومت اس وقت ہو گی جب میاں نواز شریف حکمران ہوں گے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved