بحیثیت کالم نگار‘ کیا مجھے مذہبی و سماجی موضوعات تک محدود رہنا چاہیے؟ عصری سیاست پر قلم اٹھانا‘ کیا میری اخلاقی ساخت کو مشتبہ بناتا ہے؟ معاصر اہلِ سیاست کے بارے میں کوئی مثبت یا منفی رائے بیان کرنا‘ کیا اس امر کو لازم کرتا ہے کہ لکھنے والا کسی مادی یا دنیاوی مفاد کی خاطر ایسا کرتا ہے؟
اس کالم کو پڑھنے والا ایک طبقہ‘ یہ رائے رکھتا ہے کہ میرا اصل میدان چونکہ مذہب اور سماج ہے‘ اس لیے مجھے انہی موضوعات تک محدود رہنا چاہیے۔ میں جب عصری سیاست پر قلم اٹھاتا ہوں تو میری رائے وقیع نہیں رہتی۔ میری حیثیتِ عرفی پر سوال اٹھتا ہے اور اس کے ساتھ میرے فہمِ سیاست کے بارے میں بھی کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ یہ موقف ان لوگوں کا ہے جنہیں میری سیاسی آرا سے اتفاق نہیں۔ میں نے ان کے نقطۂ نظر کو اپنے اسلوب میں بیان کیا ہے۔ یہ کرم فرما‘ جن الفاظ میں اپنی بات کہتے ہیں‘ میرا قلم انہیں دہرانے کی سکت نہیں رکھتا۔ آج مجھے اس ضمن میں کچھ کہنا ہے کہ فرداً فرداً سب کو مخاطب کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
یہ بات درست ہے کہ میرا اصل میدان عصری سیاست نہیں ہے۔ میں افکار و نظریات کا طالب علم ہوں اور سماج کو بنیاد مان کر مذہب و سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ علمِ سیاسیات میرا خاص موضوع ہے۔ یہ مباحث اپنے جوہر میں اصولی ہیں؛ تاہم ان کا ایک پہلو اطلاقی ہے۔ اصولی موقف کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ اسی وقت ہوتا ہے جب ہم سیاسی افکار کو عصری سیاست پر منطبق کرتے ہیں۔ یہ وہ مجبوری ہے جس کے باعث ایک اخبار کا کالم نگار روزمرہ کے سیاسی واقعات اور عصری سیاسی شخصیات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
عرفِ عام میں جسے پیشہ صحافت کہتے ہیں‘ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک محدود عرصے کے لیے یہ تعلق قائم ہوا مگر باقی نہ رہ سکا۔ میرا کسی سیاست دان سے ملنا جلنا نہیں۔ نواز شریف صاحب اور عمران خان صاحب سے میری آخری ملاقاتیں 2013ء میں ہوئیں۔ اس کے بعد ایک آدھ دفعہ آمنا سامنا ہوا اور بس۔ میں کبھی جاتی امرا نہیں گیا۔ 2012ء میں پہلی اور تادمِ تحریر‘ آخری بار بنی گالا گیا۔ آصف زرداری صاحب سے میں اس وقت ملا جب وہ ملک کے صدر تھے۔ کسی بھی وزیراعظم کے ساتھ‘ کالم نگاروں یا میڈیا سے متعلق خواتین و حضرات کی کسی ملاقات میں مجھے مدعو نہیں کیا جاتا اور نہ میں نے خود کبھی ان سے ملنے کی خواہش یا کوشش کی۔
یہ داستان صرف یہ بتانے کے لیے سنائی ہے کہ عصری سیاست میری دلچسپی کا میدان نہیں ہے اور نہ ہی میرے کسی سیاسی راہ نما کے ساتھ شخصی تعلقات ہیں۔ ذاتی حیثیت میں انہیں میری ضرورت ہے اور نہ مجھے ان کی۔ عصری سیاست یا سیاست دان اگر زیرِ بحث آتے ہیں تو ایک ناگزیر ضرورت کے باعث۔ سیاست کے بارے میں‘ ماورائے زمان و مکان‘ میری ایک رائے ہے‘ جس میں مجھے کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ میں یہاں اس کا اعادہ کر رہا ہوں۔
سیاست سے ہماری مراد 'اقتدار کی سیاست‘ (Power Politics) ہے۔ یہ سیاست ہمیشہ زمینی حقائق کی اساس پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ان اخلاقیات کی پابند نہیں ہوتی جو کتابوں میں بیان ہوتے ہیں۔ اس لیے اقتدار کی سیاست میں مسیحا اور ولی نہیں ہوتے۔ اقتدار کی سیاست میں‘ اس حقیقت کو مان کر قدم رکھا جاتا ہے؛ تاہم سیاست میں بعض لوگ نسبتاً زیادہ اچھے ہوتے ہیں اور بعض نسبتاً زیادہ برے۔ جو اپنی سیاست کو سر تا پا اخلاقیات کا پابند بناتا ہے‘ وہ کبھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا جو اس سیاست کی منزلِ مراد ہے۔ میں 'عصری سیاست‘ کو اسی نظر سے دیکھتا اور پھر اہلِ سیاست میں سے کسی کو نسبتاً بہتر قرار دیتا ہوں۔
عمران خان صاحب پر اگر میں تنقید کرتا ہوں تو اس کے بہت سے اسباب ہے۔ سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ 'پاپولزم‘ کی سیاست کرتے ہیں۔ یہ سیاست کی وہ قسم ہے جس میں لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ مسائل کا ضرورت سے زیادہ سادہ حل پیش کیا جاتا ہے جو ناقابلِ عمل ہوتا ہے۔ پاپولسٹ پر یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے لیکن اس کا مقصد صرف جذبات کا استحصال ہوتا ہے۔ یہ سیاست نہ صرف عوام کو گمراہ کرتی ہے بلکہ ان میں سطحی اندازِ فکر پیدا کرتی ہے۔ یہ سیاست کبھی سماج کے مسائل حل نہیں کر پاتی۔ اسے دو انتہاؤں میں تقسیم کرتی ہے اور فکری اور عملی انتشار میں مبتلا کر کے‘ معاشرے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔
'پاپولزم‘ میں لیڈر ایک کلٹ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ سیاست زمینی حقائق سے الگ ہو کر‘ ایک رومانوی تصور بن جاتی ہے۔ پھر سیاسی راہنما معیارِ حق ہوتا ہے۔ ذہنی غلامی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ اس کے ہر تضاد اور اخلاق سے ماورا اقدام کی توجیہ پیش کی جاتی ہے یا واضح شواہد کے باوجود‘ واقعات کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح سیاسی تجزیے‘ عقل اور منطق جیسے لوازم سے بے نیاز ہو کر ایک واہمے کو حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ پاپولزم‘ سماج کا سنجیدہ تجزیہ کرنے کے بجائے‘ اس کے تضادات کو ابھارتا اور یوں عوام میں موجود نظام کے بارے میں نفرت پیدا کرتے ہوئے‘ سماج کو انتشار اور اخلاقی زوال کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ عمران خان صاحب نے کیسے سماج کی اخلاقی بُنت کو ادھیڑ ڈالا‘ میں اس کے مختلف پہلوؤں پر لکھتا رہا ہوں۔
اس کے مدِ مقابل روایتی سیاست ہے۔ اس کی اپنی خرابیاں ہیں؛ تاہم میرے نزدیک اس کی خرابیاں‘ پاپولزم سے بہت کم ہیں۔ روایتی سیاست‘ سیاست کے حقیقی مفہوم سے قریب تر ہے۔ یہ معاشرے کو کسی بڑے اضطراب میں مبتلا کیے بغیر راستہ نکالنے کا نام ہے۔ یہ سماج کو انتہا پسندی سے روکتی اور ہمیشہ مکالمے کا دروازہ کھلا رکھتی ہے۔ اس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ میں اس کی خرابیوں سے آگاہ ہوں۔ اس پر لکھتا رہتا ہوں؛ تاہم میرا خیال ہے کہ اگر جمہوری عمل جاری رہے تو روایتی سیاست بہتر نتائج دے سکتی ہے۔
پاکستان کی حالیہ سیاست کے حوالے سے میری رائے ہے کہ 2014ء سے اس قوم کے ساتھ جوکھلواڑ شروع ہوا‘ اس کی کوئی نظیر ہماری تاریخ میں موجود نہیں۔ میرے نزدیک نواز شریف صاحب کو بالخصوص بدترین ریاستی ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے لیے اداروں کی حرمت کو پامال کیاگیا۔ اس کا نتیجہ صرف ایک فرد یا ایک خاندان نہیں‘ پورا ملک مسلسل بھگت رہا ہے۔ آج ریاستی ادارے تنقید کی زد میں ہیں اور 2014ء میں جس پروجیکٹ کا آغاز ہوا‘ اس نے سماج اور ریاست کی چولیں ہلا دیں۔ عمران خان اس کا حصہ تھے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نواز شریف صاحب کا سیاسی ماضی یا حال آلودگیوں سے پاک ہے۔ میں جب نواز شریف اور عمران خان کا موازنہ کرتا ہوں تو میرے نزدیک نواز شریف نے خیر اور عمران خان نے شر کی طرف پیش قدمی کی ہے۔
ایک کالم نگار اگر اصولی سیاست پر لکھے گا تو وہ اس کے اطلاقی پہلو یا عصری سیاست سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ میرے سیاسی تجزیے جن مقدمات پر قائم ہیں‘ ان کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے۔ یہ پڑھنے والوں پر ہے کہ وہ سیاسی کالموں کے لیے اسے میرا عذر سمجھیں یا جواز۔ بطور کالم نگار‘ یہ میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ میں جسے صحیح سمجھتا ہوں‘ اسے بیان کروں۔ گالیاں کھا کر خاموش رہنا میرے لیے بھی آسان نہیں۔ میں اس خاموشی کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق کا طلب گار رہتا ہوں۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اخبار کے اکثر قارئین‘ سیاسی مباحث ہی کے لیے اخبار پڑھتے ہیں۔ اس لیے ان موضاعات پر لکھنا‘ میری مجبوری بھی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved