تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     21-02-2023

سول سروس اصلاحات

اس وقت ملک سیاسی افراتفری‘ معاشی ابتری اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ان حالات میں مستقل نوعیت کی تبدیلیوں کے بارے میں سوچنا اور بنیادی اصلاحات کی بات کرنا کچھ حیران کن سا لگتا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال جب بھی وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہیں‘ مستقبل کو سنوارنے اور خوش گوار بنانے کے بارے میں نئے نئے خیالات پیش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کے آئیڈیاز کو برگ و بار لانے کے لیے جتنی مدت یا مہلت درکار ہوتی ہے‘ اس سے پہلے ہی ان کی حکومت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ ان کی وزارت کے انگریزی نام کا اردو میں ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے: وزارت منصوبہ بندی‘ ترقی و افکارِ تازہ۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
ہم باقی سارے کام کرتے ہیں مگر افکارِ تازہ والا کام نہیں کرتے۔ بہرحال اب احسن اقبال صاحب نے بیورو کریسی کے نظام اور اعلیٰ ملازمتوں کے امتحان کے لیے بہت سی مثبت تجاویز پیش کی ہیں۔ ہر حکومت بیورو کریسی میں نئی تبدیلیاں لانے اور اسے پبلک فرینڈلی بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرتی رہتی ہے۔ پی ٹی آئی نے تو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد ہی ان اصلاحات پر رکھی تھی۔ جناب عمران خان نے نظام انصاف میں بنیادی اصلاحات لانے‘ نوکر شاہی کو خادمِ خلق بنانے اور پولیس کے سٹرکچر کو یکسر بدل دینے کی ببانگ دہل بات کی تھی۔ انہوں نے وہی وعدے کیے جن کی تمنا لوگوں کے دلوں میں تھی۔ اسی لیے انہوں نے عوام کے دل جیت لیے؛ تاہم وہ بوجوہ ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہ کر سکے۔
اب وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے 2017-18ء میں ترتیب دی گئی اپنی ایک سی ایس ایس ریفارمز پالیسی کو جھاڑ پھونک کر دوبارہ مختلف شعبوں کے سیکرٹریوں‘ بیورو کریسی کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں اور کئی حکومتی سربراہوں کے ایک اجلاس میں پیش کیا ہے۔ ان اصلاحات میں نمایاں ترین تین چار نکات ہیں۔ پہلی انقلابی تجویز تو انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ آئندہ سی ایس ایس کے امتحان میں آپشن دیا جائے گا کہ جو چاہے وہ امتحان اردو میں دے اور جو چاہے وہ انگریزی میں دے۔ یہ پاکستانی عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ 75برس بعد ہی سہی‘ اس کا کسی نے کھل کر نام تو لیا۔ دیکھیے قطرے کے گہر ہونے تک اور اس تجویز کی تنفیذ تک اس پر کیا گزرتی ہے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ امتحان کے لیے 16برس کی تعلیم کو بنیادی شرط قرار دیا جائے اب عملاً سی ایس ایس کا امتحان دینے والا ہر طالب علم 16 برس تک تعلیم حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ ایف ایس سی یا ایف اے تک بارہ سال اور پھر بی ایس کے چار برس‘ یوں ملا کے 16 برس ہو جاتے ہیں۔ دو سال والا بی اے اب معدوم ہو چکا ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں کے ایک ہی ڈھانچے کے بجائے اسے تین گروپوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پہلا جنرل گروپ‘ دوسرا فنانس اور اکانومی گروپ اور تیسرا انفارمیشن گروپ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں‘ ان گروپوں کے علیحدہ علیحدہ امتحانات ہوں گے تاکہ ہر شعبے کے لیے گوہرِ قابل دستیاب ہو سکے۔ ان گروپوں کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ آگے چل کر کامرس‘ ڈپلومیسی‘ انجینئرنگ اور میڈیکل وغیرہ کے شعبوں کے سربراہ لگانے کے لیے ان منتخب اور تربیت یافتہ لوگوں کو ترجیح دی جائے گی جن کا متعلقہ شعبے میں اختصاص ہوگا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب ان سے ملتی جلتی تجاویز عشرت حسین صاحب نے مختلف حکومتوں کے مشیر ہونے کی حیثیت سے دی تھیں تو بیورو کریسی نے ان کی مخالفت کی تھی۔ بہرحال احسن اقبال صاحب نے اچھا کیا کہ اس ''مخالفت‘‘ کی پہلے سے ہی پیش بندی کرتے ہوئے بیورو کریسی کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ ان گروپوں میں ایک سب سے اہم گروپ تو موجود ہی نہیں۔ وہ گروپ ہے تعلیم اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کا۔ ہمارا سب سے بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے۔ ہمارے ہاں ملازمتوں کی پبلک‘ پرائیویٹ سیکٹر اور بیرونِ ملک دستیابی کی کسی منصوبہ بندی کے بغیر نوجوانوں کو بی اے‘ ایم اے کرا دیا جاتا ہے اور پھر وہ سرکاری ملازمتوں کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر افسران کے ایک گروپ کا بنیادی کام ہی ملازمتوں کے امکانات اور پرائیویٹ بزنس کے سمال سائز منصوبوں کا پروگرام ہوگا تو ملک میں معاشی و سماجی انقلاب آ سکتا ہے۔ معیشت اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زراعت ہو یا صنعت‘ آئی ٹی کا شعبہ ہو یا سائنسی ترقی و کمال کا میدان‘ ہر جگہ بنیادی شرط تعلیمی منصوبہ بندی کی ہے۔ میں زیادہ ملکوں کی مثالیں نہیں دیتا‘ وگرنہ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ چین اور سنگاپور وغیرہ نے کیا کیا انقلاب نہیں برپا کیا۔ میں یہاں صرف جرمنی کے نظام تعلیم کی مثال دوں گا۔
جرمنی کے ہر سکول میں مڈل درجے ہی میں ہر بچے اور بچی کے ذہنی میلان و رحجان کا جائزہ لیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ طالب علم کا میلانِ طبع کس شعبے کی طرف ہے۔ مڈل کے بعد کی تعلیم کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک تو خالصتاً اکیڈمک گروپ جس میں سائنسی شعبے میں تخلیقی صلاحیتوں کو جلا دینے والی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کا نمبر آتا ہے۔ دوسرا گروپ ٹیکنیکل تعلیم کا ہے۔ اس شعبے میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے نوجوان فنی ماہرین بن کر اداروں سے باہر نکلتے ہیں۔ انہیں زراعت‘ انڈسٹری‘ انرجی اور مختلف شعبوں میں استعمال ہونے والی مشینری اور ہوائی جہازوں کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کے اچھی اجرتوں والے کام بہ آسانی مل جاتے ہیں۔
اب ذرا سی ایس ایس کے امتحانات کے نتائج کا ایک آئینہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں‘ جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ 2014ء سے لے کر 2019ء تک سی ایس ایس کے سالانہ امتحانات کا نتیجہ تین اور ساڑھے تین فیصد کے درمیان رہا۔ 2021ء میں یہ رزلٹ بمشکل دو فیصد رہا۔ جی ہاں! دو فیصد۔ اس آئینے میں آپ اپنی سرکاری و پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے معیارِ تعلیم کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ 2021ء میں 18553طلبہ نے سی ایس ایس کا امتحان دیا جن میں سے صرف 376کو کامیابی ملی۔ ان میں سے انٹرویو کے بعد 221امیدوار منتخب کیے گئے۔
جنابِ احسن اقبال کے سارے دلکش فسانے میں تلاشِ بسیار کے باوجود ہمیں بنیادی نوعیت کی دو چیزیں نہیں ملیں جن کی ہمیں تمنا تھی۔ ان کی نئی منصوبہ بندی میں پروفیشنل ٹریننگ کورسز اور نیشنل یونیورسٹی آف پبلک ایڈمنسٹریشن کا ذکر تو موجود ہے مگر کہیں اس تربیت کا کوئی ذکر نہیں کہ جس سے ایک افسر خادمِ خلق بنے گا۔ موجودہ ''پبلک سرونٹ‘‘ ضلعی مقامات پر تیس تیس‘ چالیس چالیس کنال کی وسیع و عریض کوٹھیوں میں رہائش پذیر ہوتا ہے۔ یہاں درجنوں کے حساب سے نوکر چاکر افسر کی خدمت کے لیے دست بستہ حاضر ہوتے ہیں۔ یہ افسران دفتروں یا رہائش گاہوں میں عوام الناس اور سائلین کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس کلچر کی تبدیلی کا بھی کوئی واضح روڈ میپ ہونا چاہیے تھا جو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ قابلیت اور کردار کے وہ کیا اوصاف ہیں جن کے لیے امیدواروں کا امتحان اور انٹرویو لیا جاتا ہے؟ اس سروس میں ابھی تک وہی انگریزوں کے زمانے والا مائنڈ سیٹ ہے کہ اوپر والوں کو یس سر کہنا ہے اور عوام کے لیے آسانیاں نہیں‘ سرخ فیتے کی پیچیدگیاں پیدا کرنی ہیں۔
بہرحال جناب احسن اقبال کا سول سروس کے امتحان و نظام بالخصوص اردو میں امتحان لینے کا فیصلہ نہایت مستحسن ہے۔ وہ افسروں کے مائنڈ سیٹ اور کلچر میں تبدیلی لانے کا بھی کوئی واضح پروگرام قوم کے سامنے پیش کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved