خیبر سے لے کر کراچی تک پولیس انڈر اٹیک ہے۔ پولیس پر ہونے والے پے در پے حملوں نے ہمارے سکیورٹی سسٹم کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ سکیورٹی اداروں کی کمزور منصوبہ بندی کے تذکرے کھلے عام ہونے لگے ہیں۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد دوسرے واقعے کا انتظار کیا گیا مگر دہشت گردی کے سدباب کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ روایتی مذمتی بیان جاری کرنے سے ہم کبھی بھی انتہا پسندی کے چیلنج پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ پچھلے ایک سال کے دوران پولیس پر دہشت گردی کے متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس ان حملوں کی زیادہ نشانہ بنی ہے۔ پشاور‘ لکی مروت‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر شہروں کی پولیس چوکیوں و تھانوں پر درجنوں حملوں میں سینکڑوں پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں‘ جن کی تفصیل کے لیے کئی صفحات چاہئیں۔ پولیس کو تحفظ فراہم کرنا درج ذیل وجوہ کی بنا پر ضروری ہے۔
٭ پولیس عوام کی محافظ ہے‘ پولیس کے غیرمحفوظ ہونے کی صورت میں 22 کروڑ سے زائد عوام غیرمحفوظ ہو جائیں گے۔
٭ پولیس دہشت گردی کے خلاف صفِ اوّل کا کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف صفِ اوّل کا دستہ کمزور ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف ہماری پوری جنگ اور حکمت عملی کمزور متصور ہو گی۔
٭ پولیس کو جدید اسلحہ و ٹیکنالوجی سے لیس کرکے اسے تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کی ریاستی ذمہ داری پوری نہ کی گئی تو پولیس دہشت گردوں کا آسان ٹارگٹ بنی رہے گی۔
٭ پولیس اہلکار عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ قوم کو پولیس کی قربانیوں پر بلاشبہ فخر ہے؛ تاہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پولیس اہلکار بھی ریاست کے شہری اور ہماری طرح انسان ہیں۔ انہیں بھی اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کسی دوسرے انسان کو ہو سکتی ہے۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پولیس اہلکاروں کے یتیم بچے‘ بیوگان‘ مائیں‘ بہنیں اور خاندان کے آنسو یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کے لختِ جگر کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟
پولیس کے فرائض داخلی سطح پر معمولی نوعیت کے واقعات پر قابو پانے سے متعلق ہوتے ہیں۔ چوری‘ ڈکیتی اور عوام کو لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھنے کے لیے پولیس کی تربیت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے پولیس اہلکاروں کو گن تک دستیاب نہیں؛ تاہم پچھلی دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی نے پولیس کی روایتی تربیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ انٹیلی جنس بیسڈ کارروائی کرکے انتہاپسندوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی سکواڈ بنائے گئے۔ انہیں خصوصی فنڈز بھی جاری کیے گئے۔ بقول وزیراعظم شہباز شریف خیبرپختونخوا کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دس برس کے دوران 417 ارب روپے جاری کیے گئے مگر نتائج یہ ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کارکردگی میں دیگر صوبوں سے بہت پیچھے ہیں‘ ایسا کیوں ہوا؟ دہشت گردوں کے مقابلے میں سکیورٹی اداروں کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی نیا ادارہ تشکیل دیا جاتا ہے تو نئی بھرتیاں کرکے اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے پرانے اداروں سے افسران و اہلکاروں کو پروموٹ کرکے نیا نام دے کر کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد پرانے ڈھب پہ کام ہونے لگتا ہے۔ انسدادِ دہشت گردی سکواڈ کی تربیت کا اندازہ ان کے دفاتر سے لگایا جا سکتا ہے جس طرح تھانے کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں‘ اسی طرح انسدادِ دہشت گردی اداروں کے دفاتر بھی ناکارہ عمارتوں میں قائم کیے گئے ہیں۔ دسمبر 2022ء کو بنوں کینٹ میں واقع سی ٹی ڈی کے ریجنل ہیڈ کوارٹر میں پیشی پر آئے دہشت گردوں نے اہلکار سے گن چھین کر عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یہ غیرمعمولی واقعہ تھا جب اس کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ سی ٹی ڈی کا ریجنل ہیڈ آفس کینٹ میں ایک کرائے کی عمارت میں قائم کیا گیا ہے۔ ایک سے ڈیڑھ کنال کے رقبے پر چھ کمروں پر مشتمل یہ آفس دہشت گردوں کے لیے آسان ٹارگٹ ثابت ہوا۔ شاہراہ فیصل کراچی پولیس آفس کی عمارت پر ہونے والے حملے میں بھی کمزور سکیورٹی بندوبست دیکھنے کو ملا ہے کہ دہشت گرد اطراف سے فائرنگ کرتے اور دستی بم پھینکتے ہوئے عمارت میں داخل ہو گئے۔ پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ اگر جدید کیمرے اور دفتر کی چھت کے اوپر شوٹر موجود ہوتے تو دہشت گرد عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ پولیس آفس میں سکیورٹی بندوبست اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ تین چار مسلح افراد کے حملے کا سامنا نہ کر سکے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی پولیس آفس اور جناح ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کے لیے مشترکہ کاوشوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے کے لیے پوری ریاستی قوت اور اشتراکِ عمل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ آرمی چیف خوشحال مستقبل کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری سمجھتے ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ انہوں نے جن مشترکہ کاوشوں اور اشتراکِ عمل کی طرف اشارہ کیا ہے‘ کیا اہلِ سیاست اور اقتدار کے تمام شراکت دار ملکی مفاد کی خاطر ان اجتماعی کوششوں کے لیے اشتراکِ عمل پر تیار ہو جائیں گے؟ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سکیورٹی اداروں کو جدید ٹیکناجی سے ہم آہنگ کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ واضح پالیسی تشکیل دی جائے۔ آرمی چیف نے دراصل اسی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہم جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘ وہ ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے حوالے سے الگ الگ پالیسی رکھتی ہیں۔ تحریک انصاف نے دس برس تک خیبرپختونخوا میں انتہا پسندوں کے حوالے سے جو پالیسی اپنائے رکھی ہے‘ اب اس پر کھل کر بات ہونے لگی ہے لیکن قارئین یاد کر سکیں تو ہم اپنے کالموں کے ذریعے تواتر کے ساتھ انتہا پسندی کے چیلنج کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف الگ الگ مؤقف رکھتی ہیں تو اجتماعی کاوشوں کے منصوبے پر کیسے عمل ہو سکے گا؟
تحریک انصاف جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے‘ وہ دہشت گردی کے چیلنج پر اتحادی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ خان صاحب ان حالات میں جیل بھرو تحریک کا شیڈول جاری کر چکے ہیں۔ کارکنان سے جیل بھرو تحریک پر حلف لیا جا رہا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچئے‘ اگر ہماری پولیس جیل بھرو تحریک میں مصروف ہو جائے گی تو پولیس کے لیے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا کتنا مشکل ہو جائے گا۔ خان صاحب نے اس سے قبل جو سیاسی بیانیے پیش کیے تھے‘ وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں‘ اب جیل بھرو تحریک کو وہ نئے بیانیے کے طور پر لانچ کر چکے ہیں۔ خان صاحب کا جیل بھرو تحریک کا اقدام ان اجتماعی کوششوں کے بھی خلاف ہے جن کی موجودہ حالات میں ضرورت ہے۔ افواجِ پاکستان اور انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کوششیں کر رہی ہیں‘ پولیس کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔ سکیورٹی ادارے اپنے فرائض تندہی کے ساتھ پورے کر رہے ہیں؛ تاہم اہلِ سیاست کی طرف سے جن اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے‘ وہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved