نبی اکرمﷺ کو بعثت کے آغاز ہی میں حکم ہوا: ''قُمْ فَاَنْذِر‘‘ یعنی کمرِ ہمت باندھو اور لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائو (سورۃ المدثر: 2)۔ اس حکم کی تعمیل میں آپﷺ نے آغازِ نبوت ہی سے مکہ میں داخل ہونے والے قبائل و وفود اور حجاج و زائرین تک دعوتِ حق پہنچانے کا کام شروع کردیا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا‘ آنحضورﷺ کی اس دعوت نے مختلف قبائل میں اپنے اثرات پھیلانا شروع کردیے۔ طائف کا سفر بھی بنو ثقیف تک حق کا پیغام پہنچانے کی خاطر کیا تھا مگر ان لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ جو سلوک کیا‘ وہ تاریخِ عرب ہی نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔
اس طرح کی منزلیں دعوتِ حق کے راستے میں داعیانِ حق کو پیش آتی رہتی ہیں مگر ان کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں اور حضور پاکﷺ کی ہمت و جرأت کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتا۔ جو قرآنِ مجید پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا‘ وہ آپﷺ کے قلب مصفّٰی و معلّٰی پر اتارا گیا تھا۔ طائف سے واپسی پر آپﷺ نے دعوت کا کام چھوڑ نہیں دیا بلکہ اسے اور زیادہ ذوق و شوق سے شروع کر دیا۔
دعوتی مہمات میں حضرت ابوبکرصدیقؓ عموماً آپﷺ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ جناب ابوبکر صدیقؓ ماہرِ انساب تھے۔ عربوں میں قبائل کے حسب نسب کو جاننے والا شخص بڑا معتبر اور معزز سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسا ماہرِ انساب عربوں کو زیادہ متاثر کر سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب آپ اپنے مخاطب سے بطور ایک انجان اور اجنبی شخص کے بات کریں گے تو وہ زیادہ توجہ سے نہیں سنے گا۔ جب آپ اس کے خاندان کے تعارف اور توصیف کے ساتھ اسے مخاطب کریں گے تو وہ متوجہ ہو جائے گا اور ایک لحاظ سے اپنائیت محسوس کرے گا۔ عربوں کے ہاں تو اس بات کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی کہ کوئی شخص ان کے آبائواجداد کے ناموں سے متعارف ہو۔ اس میں ان کو اپنے خاندانی تفاخر کے لیے ایک طمانیت کا سامان فراہم ہو جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ دعوت دینے والوں کے بارے میں غیریت و اجنبیت کے بجائے اپنائیت و مانوسیت کے جذبات سے سرشار ہو جاتے تھے۔ یہ ایک فطری امر ہے‘ جس کا جب بھی داعیانِ حق اہتمام کریں تو اس کے نتائج دیکھنے میں آتے ہیں؛ چنانچہ اس دعوتی مہم میں سیدناابوبکرؓ کے اس علمِ انساب کا بھی ایک کردار ہے۔ یوں نبی اکرمﷺ اپنی دعوت کا کام کیے جارہے تھے اور آپﷺ کے مخالفین بھی اپنی شیطانی حرکتوں میں نت نئے حربے استعمال کررہے تھے۔ حق و باطل اور بندگانِ رحمان وغلامانِ شیطان اپنا اپنا زور لگا رہے تھے۔
اس پُرآشوب دور کے واقعات کا تذکرہ کتبِ احادیث و سیرت میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ ایک شخص ربیعہ بن عباد‘ جو قبیلہ بنو دیل میں سے تھا‘ بیان کرتا ہے کہ میں قبولِ اسلام سے قبل اپنے والد کے ساتھ مکہ آیا تو ذوالمجاز کے بازار میں ایک شخص کو دیکھا۔ وہ کہہ رہا تھا اے لوگو! لاالہ الا اللہ کہو اور فلاح کے مستحق بن جاؤ۔ اس کی آواز میں اتنی شیرینی اور شخصیت میں اس قدر کشش تھی کہ لوگ اس کے گرد جمع ہورہے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ اچانک ایک بھینگا شخص جس کا رنگ سرخ وسفید تھا‘ وہاں نمودار ہوا اور اس نے کہنا شروع کیا: لوگو! اس کی بات نہ سننا‘ یہ گمراہ اور جھوٹا ہے۔ جو بھی اس کی بات مانے گا‘ وہ اس کے جادو سے گمراہ ہو جائے گا۔ ساتھ ہی وہ اس دعوت دینے والے پر خاک پھینکنے کی بھی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
ربیعہ بن عباد مزید کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے پوچھا: ''یہ دعوت دینے والا کون ہے؟‘‘ تو انہوں نے بتایا کہ یہ عبدالمطلب کے پوتے محمد بن عبداللہ (ﷺ)ہیں۔ پھر پوچھا کہ ان کی مخالفت کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ ان کا حقیقی چچا ابولہب بن عبدالمطلب ہے۔ ربیعہ نے دیکھا کہ اگرچہ وہ بھینگا شخص اپنے بھتیجے پر بازاری انداز میں آوازے کسنے کے ساتھ ساتھ مٹی بھی پھینکتا جارہا تھا مگر آنحضورﷺ اس سے تعرض کیے بغیر پورے وقار اور متانت کے ساتھ اپنا کام کیے جارہے تھے۔ اس منظرکو دیکھ کر ربیعہ آنحضورﷺ سے بہت متاثر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ربیعہؓ کے دل میں اسلام کی محبت پیدا کردی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ حضرت ربیعہؓ کے ساتھ ان کے قبیلے کا دوسرا شخص زید بن اسلم بھی اس وقت موجود تھا۔ اس نے بھی یہ سارا منظر دیکھا اور وہ بھی مسلمان ہوگیا۔ یوں اس قبیلے میں بھی دو فرزندانِ توحید کی بدولت اسلام کی شمع روشن ہو گئی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، ص: 539 تا 540، سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص: 422 تا 423)
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ قبیلہ بنوکندہ کی رہائش گاہوں پر آئے تو ان کا سردار ملیح بھی وہاں موجود تھا۔ آپﷺ نے انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور دین اسلام کا تعارف کرایا‘ مگر انہوں نے آنحضورﷺ کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ حضور اکرمﷺ مکہ کے قرب و جوار میں سفر کرتے اور دور و نزدیک کے قبائل کے پاس جاکر سردارانِ قوم کو بھی اور عام لوگوں کو بھی اسلام کی طرف بلاتے۔ عموماً لوگ آپ کی تردید کرتے لیکن کچھ سلیم الفطرت روحیں قبول اسلام کے لیے بھی آمادہ ہوجاتیں۔
آنحضورﷺ کبھی حالات کی سنگینی سے دل برداشتہ ہوکر مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ آپﷺ کا یہ اسوہ ہر دور میں داعیانِ حق کے لیے بہترین مثال ہے۔ داعیٔ حق کو اللہ کے توکل پر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت آپﷺ قبیلہ بنوکندہ، بنوکلاب، بنوحنیفہ اور دیگر قبائل میں دعوت کے لیے جایا کرتے تھے۔ لوگوں کے انکار کے بعد کسی شخص یا قبیلے کو آپﷺ نے مرفوع القلم قرار دے کر اس سے ترکِ تعلق نہیں کیا تھا۔ اس دوران کئی لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے ان کا تذکرہ حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔
دعوتِ اسلام کے اس ابتدائی دور میں جن لوگوں سے آپﷺ کی ملاقاتیں رہیں ان میں سے سُوَید بن صامت کا تذکرہ بڑا یادگار اور دلچسپ ہے۔ یہ مدینہ کے قبیلۂ اوس میں سے تھے جبکہ ان کی والدہ قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار میں سے تھیں۔ ان کی والدہ نجاریہ بنت عمرو اور جناب عبدالمطلب کی والدہ سلمیٰ بنت عمرو آپس میں بہنیں تھیں۔ اس طرح سُوَید جنابِ عبدالمطلب کے خالہ زاد لگتے تھے۔ ان کی قوم ان کو ان کے علم وحکمت اور جرأت وبہادری کی وجہ سے ''کامل‘‘ کے نام سے پکارتی تھی۔ جب یہ مردِ دانا ایک بار مکہ آئے تو آنحضورﷺ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ وہ اپنی قوم میں تو اپنی شجاعت وبہادری، فیاضی وسخاوت اور علم وحکمت کی وجہ سے بہت مشہور او ر معزز تھے ہی‘ مگر دیگر قبائل میں بھی معروف تھے۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور کئی شعرا نے ان کی شان میں قصیدے بھی لکھے تھے۔ یہ حج کے لیے آئے تو آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ملے۔ آپﷺ نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی۔
آپﷺ کی دعوت سُوَید بن صامت نے بڑے غور اور دلچسپی سے سنی‘ پھر کہا: میرے پاس بہت عظیم چیزیں ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا وہ کیا ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے پاس صحیفۂ لقمان یعنی لقمان کی حکمت بھری تعلیمات ہیں۔ پھر اس میں سے انہوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ سنایا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ ایک اچھی چیز ہے، لیکن میرے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر چیز ہے۔ سُوَید نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل فرمایا ہے۔ یہ مکمل نور اور ہدایت ہے۔ پھر آپﷺ نے قرآن پاک کی چند آیات پڑھ کر سنائیں۔ سُوَید نے نہایت غور وفکر کے ساتھ یہ آیات سنیں اور کہا: بلاشبہ یہ کلام اس کلام سے بہتر ہے جو میرے پاس ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، ص: 544، سیرۃ ابن ہشام، ص: 426 تا 427)
حافظ ابن کثیر کے نزدیک ایک روایت کے مطابق سُوَید مسلمان ہو گئے تھے۔ انہوں نے البدایۃ والنہایۃ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ان کے قبولِ اسلام کا اظہار زیادہ واضح نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو مدینہ واپسی کے بعد زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی تعریف تو کی تھی مگر باقاعدہ دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ جب یہ واپس مدینہ پہنچے تو قبائلی تنازع میں جنگِ بعاث کے اندر بنوخزرج کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔
سوید بن صامت کے قبیلے کے لوگوں کی زبانی بیان ہوا ہے کہ وہ قتل ہونے سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے؛ چونکہ ان کو آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے بعد زیاہ عرصہ زندہ رہنے کا موقع نہیں ملا اس لیے ان کے قبولِ اسلام کی وضاحت وصراحت نہیں ملتی۔ البتہ ہماری رائے میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کی گفتگو سے یہی نتیجہ درست معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved