تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-02-2023

غریب پیدا ہی کیوں ہوتا ہے ؟

ملکِ خداداد پاکستان میں جنم لینے والی موجودہ اور آنے والی نسلوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے ایوان‘ جسے قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کا نام دیا جاتا ہے‘ کے فلور پر کھڑے ہو کر جی ڈی اے کی رکن قومی اسمبلی محترمہ سائرہ بانو نے جو باتیں کی ہیں‘ انہیں سننے کے بعد لگتا ہے کہ اس ایوان اور اس کے باہر بیٹھے ہوئے اقتدار کی طاقت سے سرشار سیاستدانوں میں شاید فرانس کی اُس ملکہ کی روح سرایت کر چکی ہے جس نے اپنے عالیشان اور مضبوط محل کی چھت سے ہزاروں کی تعداد میں بھوکے ننگے افراد کے ہجوم کو زور زور سے چیختے چلاتے دیکھ کر اپنے ساتھ کھڑی خادمہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اس پر ملکہ عالیہ کی مقرب خادمہ نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا: ملکہ عالیہ! یہ فرانس کے بھوکے افراد ہیں اور روٹی مانگ رہے ہیں جو انہیں مل نہیں رہی۔ اس پر ملکہ نے وہ فقرہ ادا کیا جو نہ صرف تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درج ہو چکا ہے بلکہ انقلابِ فرانس کے لیے ایک چنگاری بھی ثابت ہوا۔ ملکہ نے کہا ''اگر ان بھوکے لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی تو انہیں کہو کہ کیک کھایا کریں‘ یہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟‘‘۔
خاتون رکنِ اسمبلی نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پیش کیے گئے ''منی بجٹ‘‘ جسے منی ایٹم بم کا نام دیا جا رہا ہے‘ کی وجہ سے ہونے والی تباہ کن مہنگائی اور اس کے نتیجے میں غریب کی بدترین حالت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے پورے ایوان سے درخواست کی کہ ہم سب کو متحد ہو کر‘ اپنی سیاسی پارٹیوں اور گروپ بندی سے ماورا ہو کر‘ ایک ساتھ مل کر اس منی بجٹ کو پاس نہیں ہونے دینا چاہئے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو یہ غریب عوام پر بہت بڑا ظلم ہو گا اور ہم سب ان کے مجرم ہوں گے۔ سائرہ بانو صاحبہ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ تجویز اسمبلی سے باہر حکومتی اراکین کے سامنے رکھی تو حکومتی پارٹی کی ایک رکن نے‘ جس کے سر پر ہر وقت اپنی حکومتی طاقت کا خمار سوار رہتا ہے‘ یہ کہہ کر سب کو ششدر کر کے رکھ دیا کہ ''یہ غریب لوگ پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں؟‘‘۔ اسی پر بس نہیں‘ جی ڈی اے کی رکنِ اسمبلی نے فلور آف دی ہائوس پر کھڑے ہو کر سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایک طرف ایک حکومتی رکن نے یہ کہا کہ غریب پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں تو دوسرا کہہ رہا تھا کہ ''یہ غریب اگر مسلمان ہیں تو ان سے کہیں کہ صبر کریں‘ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔ یہ درست ہے کہ ایسے دورِ ناروا اور جبر کے اوقات میں ہر بندۂ مومن کو صبر کرنے کا کہا گیا ہے اور یہ کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے مگر کیا حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو سکتی ہے؟ یہ غریب تو کچھ رو دھو کر‘ کچھ صبر کر کے چپ بیٹھ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو کہ ان غریبوں‘ یتیموں‘ بیوائوں‘ بے کسوں اور بے نوائوں کا صبر عرشِ الٰہی پر فریادی بن کر پہنچ جائے اور قانونِ قدرت حرکت میں آ جائے اور پوری قوم اور معاشرے پر قہر کے تازیانے برسنے لگیں۔ مذکورہ باتیں نہ تو انقلابِ فرانس سے متعلق کسی افسانے میں مذکور ہیں نہ ہی کسی کتاب یا کسی قصے‘ کہانی سے لی گئی ہیں بلکہ یہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی خاتون رکنِ قومی اسمبلی کے قومی اسمبلی کے ایوان پہ کہے جانے والے وہ الفاظ ہیں جو اب قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں اور جنہیں وڈیو کلپ کی صورت میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا فورمز پر جب چاہے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک حکومتی رکن نے یہ تو کہہ دیا کہ غریب پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ کسی غریب بچے یا کسی غریب کے گھر میں پیدائش پر پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ جس قسم کی مہنگائی رجیم چینج کے بعد سے ہو چکی ہے‘ تمام سرویز اور جائزے یہی بتا رہے ہیں کہ نہ صرف ملک میں مہنگائی کی شرح ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے بلکہ سفیدپوشوں کی بڑی تعداد بھی اب خطِ غربت سے نیچے جا چکی ہے۔ اگر ایک اوسط گھرانے کی آمدن، یوٹیلیٹی بلوں، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا ایک سرسری جائزہ لیاجائے تو یہ بات کسی تردید کے خوف کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی کُل آبادی کا کم ازکم ساٹھ فیصد اب ان لوگوں پر مشتمل ہے‘ جن کا شمار غریبوں میں کیا جائے گا۔ ان ساٹھ فیصد افراد کیلئے دو بچوں کی تعلیم اوردو وقت کی روٹی کا حصول انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ ایک طرف خوردنی آئل اور گھی سمیت دالوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں تو دوسری طرف آٹا نایاب و کمیاب ہو چکا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں انتہائی غریب افراد کے لیے احساس کفالت، لنگر خانے ا ور پنا ہ گاہوں کے پروگرامز شروع کیے تھے مگر عمران خان کے منصوبے بند کرنے کے شوق میں یہ بھی نہیں دیکھا جا رہا کہ ایسے منصوبوں سے کون لوگ مستفید ہو رہے تھے۔ جب لوگوں کو آٹا نہیں مل رہا تھا تو اس وقت بہت سے لوگ لنگر خانوں کو ڈھونڈتے دیکھے گئے تاکہ اپنا اور بچوں کا پیٹ بھر لیں لیکن یا تو بیشتر لنگر خانے بند کر دیے گئے تھے یا ان کوایسے اجاڑ کر رکھ دیا گیا کہ اب یہ منصوبے کسی کام کے نہیں رہے۔ کل تک کسی بڑی یا پیچیدہ بیماری کا شکار ہونے والے افراد کو صحت کارڈ کی شکل میں دس لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت میسر تھی،پی ٹی آئی حکومت کا یہ منصوبہ شروع ہی سے پی ڈی ایم کے ریڈار پر تھا اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اس کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جن کی وجہ سے اکثر نجی ہسپتالوں نے ہیلتھ کارڈ پر علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ سیاسی کشیدگی کی وجہ سے نہ صرف راولپنڈی ، چکوال، جہلم اور اٹک سمیت پنجاب کے متعدد اضلاع کے ہسپتالوں نے ہیلتھ کارڈ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ کے پی میں بھی درجنوں ہسپتالوں نے صحت کارڈ پر مفت علاج معالجے کی سہولتیں معطل کر دیں۔ اگرچہ اس پروگرام کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن موجودہ حکومت کو یہی ڈر ہے کہ اس سے عمران خان کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں اضافہ ہو جائے گا‘ اس لیے پی ٹی آئی دورِ حکومت کے ایسے منصوبوں‘ بالخصوص نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد دینے والے تعلیمی کارڈمنصوبوں کو یہ کہہ کر بند کرنا شروع کر دیے کہ اس وقت ملکی خزانہ ان منصوبوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مہنگائی ختم کرنے کے نام پر اقتدار سنبھالنے والے سیاسی اتحاد پر جب بھرپور عوامی تنقید شروع ہوئی تو اقتدار سنبھالنے پر مٹھائیاں بانٹنے والی مسلم لیگ نواز کی چیف آرگنائزر اور ان کے حامیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ان کی حکومت ہی نہیں‘ ان کی حکومت اس وقت بنے گی جب میاں نواز شریف وزیر اعظم بنیں گے۔
مسلم لیگ کا وہ گروپ‘ جو اس وقت مریم نواز کی قیادت میں ملکی سیا ست میں سر گرم ہے‘ اپنے اپنے حلقوں میں اپنی انتخابی مہم یہ کہہ کر چلا رہا ہے کہ ہم تو نواز شریف کے ساتھی ہیں‘ موجودہ حکومت کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ ہم تو خود اس حکومت اور اس کی نالائقی سے نالاں ہے۔ حالانکہ شاہد خاقان عباسی ہوں‘ خواجہ آصف ہوں‘ احسن اقبال ہوں‘ مریم نواز صاحبہ ہوں یا مفتاح اسماعیل‘ اپریل 2022ء میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہوں نے جو تقاریر کی تھیں‘ جو بیانات دیے تھے‘ وہ ریکارڈ پر موجود ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی خالی ہونے والی سیٹوں پر جولائی 2022ء میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران اوپر سے نیچے تک ساری سرکاری مشینری کس کے اشاروں پر چل رہی تھی، کون تھا جس نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ہم پٹرول و بجلی کی قیمتیں کم کریں گے‘ ہم نے سارا ہوم ورک کیا ہوا ہے‘ ہمیں ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ہم تجربہ کار لوگ ہیں، وہ کون تھاجو کہتا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت عوام کیلئے خوشحالی لے کر آئے گی اور شہباز سپیڈ کے کارنامے دنیا دیکھے گی، یہ باتیں سب کو معلوم ہیں اور یہ تمام ٹویٹس اس وقت بھی سوشل میڈیا اکائونٹس پر موجود ہیں لہٰذا ان سے فرار اب ممکن نہیں۔ اب یہ مفروضہ بھی حقیقت میں ڈھل رہا ہے کہ 'شین‘ اور 'نون‘ میں فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ سیاست سے قطع نظر‘ ایک بات طے ہے کہ حکومت کی تبدیلی غریب عوام پر بہت بھاری ثابت ہوئی ہے۔ کاش سائرہ بانو صاحبہ اس رکنِ اسمبلی کا نام بھی بتا دیتیں جو غریبوں کی پیدائش ہی کو بند کرانا چاہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved