وقت بھی چوکیدار ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ چوکیدار رہ رہ کر صدا لگاتا ہے ''جاگتے رہو۔‘‘ چوکیدار کے مقابلے میں وقت کی صدا مختلف ہے۔ وہ جاگنے اور جاگتے رہنے کو تو اہمیت دیتا ہے مگر اِس سے کہیں زیادہ اہمیت وہ اس بات کو دیتا ہے کہ انسان جانتا رہے اس لیے وہ ‘‘جانتے رہو‘‘ کی صدا لگاتا رہتا ہے۔ وقت ایسا کیوں چاہتا ہے؟ آپ کہیں گے کہ وقت کہاں کچھ چاہتا ہے اور کہاں کچھ کہتا ہے۔ ٹھیک ہے‘ وقت خود کچھ نہیں کہتا مگر حالات کی نوعیت دیکھتے ہوئے وقت کا تقاضا ہوتا تو یہ ہے نا! ہم زندگی کی کشاکش اور ہماہمی میں یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی صرف اور صرف اَپ گریڈیشن کا نام ہے۔ کسی ایک مقام پر ٹھہر کر جو گزاری جائے وہ زندگی نہیں بلکہ محض دِنوں کی گنتی ہوتی ہے۔ دن گزرتے جاتے ہیں اور عمر تمام ہو جاتی ہے۔ اِسی بات کو کسی نے یوں کہا ہے ؎
عمر تو خیر ہو چکی ہے تمام
ہاں مگر زندگی ادھوری ہے
اگر لگے بندھے معاملات یعنی محدود تر معمولات کے ساتھ زندگی بسر کی جائے تو کچھ کرنے کی لگن ماند پڑتی جاتی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ پورے ماحول پر پژمردگی چھانے لگتی ہے۔ ایسے میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان میں کوئی امنگ، کوئی آرزو باقی نہیں رہتی۔ ایسی ہی کیفیت کیلئے خاکسار کا شعر ہے ؎
کوئی امید، نہ حسرت، نہ آرزو، نہ طلب
کہاں کی زیست؟ دنوں کا شمار باقی ہے!
اگر کسی کو واقعی جینا ہے تو کچھ نہ کچھ بننے کے بارے میں طے کرنا ہوگا۔ کچھ بننے کے لیے بہت کچھ کرنا اور سہنا پڑتا ہے۔ سیکھنے کا عمل کسی وقت نظام الاوقات کا پابند نہیں۔ یہ تو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم زندگی بھر سیکھتے رہیں تبھی کچھ بنتے ہیں۔ فی زمانہ سیکھنے کا معاملہ زیادہ پیچیدہ اور ہمہ گیر ہوگیا ہے۔ اب ہر شعبہ انسان کو نچوڑنے پر تُلا ہوا ہے۔ اگر نام کمانا ہے تو خود کو داؤ پر لگانا پڑے گا۔ خود کو داؤ پر لگانے کا مطلب خطرہ مول لینا نہیں بلکہ دن رات ایک کرنا ہے۔ کمفرٹ زون میں بیٹھ کر انسان کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔ عام آدمی اپنے آپ کو اَپ گریڈ کرنے کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ نہیں کہ وہ اپنے لیے زیادہ امکانات نہیں چاہتا۔ یہ خواہش تو سبھی کے دل میں ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس کے لیے خود کو تیار کرنے کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ محض سوچنے یا عزم کرلینے سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ کسی بھی انسان کے لیے بہتر زندگی خواب سے شروع ہوتی ہے۔ خواب پر توجہ نہ دی جائے تو وہ محض خواب ہی رہتا ہے۔ اگر اُسے شرمندۂ تعبیر کرنا ہے تو سوچنا پڑے گا، لائحۂ عمل طے کرنا ہوگا۔ کسی بھی خواب کو حقیقت کا روپ دینا غیر معمولی جاں فشانی کا طالب ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں کہ سوچئے اور ہو جائے۔ یہ تو زندگی بھر کی محنت کا معاملہ ہے۔ ہم بہت سوں کو دیکھتے ہیں کہ کبھی کچھ سوچتے ہیں اور کبھی کچھ۔ اُن کی زندگی اِسی اُلٹ پھیر میں گزر جاتی ہے۔
انسان جو کچھ بھی بننا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے تو بھرپور دلچسپی کا طالب ہوتا ہے۔ پھر محنت کی باری آتی ہے۔ محنت کی لگن ہونی چاہیے۔ علم و عمل سے محبت بھی لازم ہے۔ اگر صرف عمل کے پھیر میں رہے تو کچھ زیادہ حاصل نہیں ہو پاتا۔ صرف علم کو اہمیت دی جائے تو بھی زندگی زیادہ جاندار اور شاندار نہیں ہوتی۔ علم کے ساتھ عمل اور عمل کے ساتھ علم! یہ ہے وہ کلیہ جو زندگی بھر آپ کا ساتھ دے گا۔ ہم عمومی سطح پر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک طویل مدت تک لگے بندھے معمول کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ جو کام اٹھتی جوانی میں سیکھ لیا اُسی کے ہولیے۔ پھر مزید کچھ نہ سیکھا۔ اپنے نزدیک ترین ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ جو کچھ ایک بار سیکھ لیتے ہیں بس اُسی کی مدد سے کمانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات کو دھیرے دھیرے سمجھ جاتے ہیں کہ مزید کچھ سیکھے بغیر زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکے گی مگر پھر بھی وہ مزید سیکھنے کی طرف نہیں آتے۔
انسان اگر کسی سانچے میں ڈھل جائے تو اُس سے نکلنا اُس کے لیے خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اُسے کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی تحریک دینا واقعی بڑا کام ہے۔ جو لوگ ایسا کر پاتے ہیں اُن کی عظمت کو سلام! بہتر زندگی کی تحریک دینے والے غیر معمولی مطالعے اور تربیت کے بعد اس قابل ہو پاتے ہیں کہ کسی کو نئی زندگی کی طرف لائیں، کچھ نیا اور زیادہ کرنے کا ذہن تیار کرنے میں مدد دیں۔ لوگ عمومی سطح پر اپنے آپ سے مطمئن ہونے کا ڈھونگ رچاتے رہتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کا اطمینان کھوکھلا ہے مگر پھر بھی اُسی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے اور دوسروں سے بہت مختلف انداز و معیار کے ساتھ جینے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے کبھی کامیاب لوگوں کو غور سے دیکھا ہے، اُن کے بارے میں غور کیا ہے؟ ہر کامیاب انسان یا تو بہت پڑھتا ہے یا پھر بہت سیکھتا ہے۔ پڑھنے کی صورت میں بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور کم پڑھنے پر عملاً بہت کچھ سیکھنا بھی ممکن ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ مشاہدے کے ذریعے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ وہ اپنے شعبے کے لوگوں کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اُسی کی بنیاد پر اپنے لیے بھی لائحۂ عمل طے کرتے ہیں اور ایسا کرکے وہ اپنی اَپ گریڈیشن کا اہتمام کرلیتے ہیں۔ جو لوگ زندگی کو اَپ گریڈ کرنے کے معاملے میں زیادہ منظم سوچ رکھتے ہیں وہ بہتر تیاری کے ساتھ اپنے آپ کو نئی زندگی یا نئے معیارِ زندگی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے ہوتا ہے نہ راتوں رات۔ زندگی کسی کے لیے آسان نہیں ہوتی۔ کامیاب زندگی کا کوئی بھی ماڈل ایسا آسان نہیں کہ سبھی کو بیٹھے بٹھائے میسر ہو جائے۔ یہ تو اپنے وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے دن رات ایک کرنے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔
آج کی دنیا میں مسابقت بہت زیادہ ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے الجھا ہوا ہے۔ ایک طرف زندگی کا معاشی پہلو ہے اور دوسری طرف سماجی پہلو۔ دونوں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ ذہنوں میں الجھنیں اتنی زیادہ ہیں کہ رویے کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ اگر کسی کو ڈھنگ سے جینا ہے تو اپنا نفسی تجزیہ کرانا لازم ٹھہرا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین سے مشاورت کے ذریعے زندگی کا ڈھانچا اس طور تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ معاملات غیر ضروری طور پر نہ بگڑیں۔ ہر عہد اپنے ساتھ بہت سے چیلنج لاتا ہے۔ یہ دور بھی قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیلنج کھڑا کردیتا ہے۔ عام آدمی کے لیے الجھنیں زیادہ ہیں کیونکہ وہ مالی اعتبار سے زیادہ مستحکم نہیں ہو پاتا۔ روز افزوں مہنگائی انسان کو ہر وقت دردِ سر سے دوچار رکھتی ہے۔ وہ بہت کچھ سوچتا ہے، کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں پاتا۔ مالی مشکلات قدم قدم پر پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔ کسی بھی گھر میں سب سے زیادہ الجھن کمانے والے کے لیے ہوا کرتی ہے۔ جو شخص پورے گھر کا معاشی بوجھ اٹھا رہا ہو وہ دن رات الجھا ہوا رہتا ہے۔ کچھ نیا نہیں جان پاتا۔ یوں زیادہ سیکھ بھی نہیں پاتا۔
جانتے رہنا اس لیے ناگزیر ہے کہ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے انسان بہتر اور روشن امکانات کی طرف جاسکتا ہے۔ جانتے رہنے کا مطلب ہے کہ نئی مہارتیں سیکھنا اور زیادہ سے زیادہ مشق کرنا۔ ہر شعبے میں گنجائش صرف اُن کے لیے ہے جو نیا نیا سیکھتے ہیں۔ آپ نے بہت سے بڑھئی دیکھے ہوں گے جو عمومی نوعیت کا کام کرتے ہیں۔ وہ فرنیچر کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں، کرسیاں، میزیں اور دیگر اشیا تیار کرتے ہیں۔ یہ بہت حد تک لگا بندھا کام ہے۔ ایسے کاریگر بالعموم کچھ نیا نہیں کرتے۔ وہ دنیا بھر میں پائے جانے والے فرنیچر کے ڈیزائن نہیں دیکھتے۔ اُنہیں کبھی کوئی نیا خیال نہیں سوجھتا۔ جب تک دلچسپی نہ لی جائے تب تک کام کا یہی ڈھنگ نفسی ساخت سے چمٹا رہتا ہے۔ اگر کچھ زیادہ پانا ہے تو کچھ نیا کرنا ہوگا، زیادہ جاننا ہوگا۔ جانتے رہیے اور کامیابی کی طرف بڑھتے رہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved