مشکلات کے باوجود معیشت کی بہتری
کے لیے کوشاں ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم مشکلات کے باوجود معیشت کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں‘‘ تاہم کئی مشکلات کو حالات کی مجبوری کے تحت ملتوی کر رکھا ہے کیونکہ نہ اس کے لیے وسائل موجود ہیں نہ وہ اگلی سی جرأتِ رندانہ ہے اور ا پنے شاندار ماضی پر قناعت کیے بیٹھے ہیں اور مایوس بھی نہیں ہیں کہ اگر گزشتہ ادوار میں چھپڑ پھاڑ کر قدرت عطا کر سکتی ہے تو اب بھی کوئی نہ کوئی چھپڑ ضرور موجود ہوگا جسے ایک بار پھر پھاڑ کر عطا کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے مایوس ہونے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہم مقتدر اداروں کی طرف دیکھ رہے : فاروق ستار
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ ''ہم مقتدر اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کیونکہ ہر کوئی ماضی کی طرف دیکھتا اور اب تک دیکھتا چلا آیا ہے جبکہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ انہی کی طرف دیکھا جائے کیونکہ جو اُن کی طرف نہیں دیکھتے یا دیکھنا بند کر دیتا ہے اسے پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی جاتی، البتہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ وہ بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں یا نہیں؛اس لیے ہم نہ صرف مسلسل ان کی طرف دیکھ رہے ہیں بلکہ اخبار میں بیان بھی دے رہے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آ سکے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کے لوگ (ن) لیگ میں
آنے کے لیے منتیں کر رہے ہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کے لوگ (ن) لیگ میں آنے کے لیے منتیں کر رہے ہیں‘‘ صرف یہ بتانے کے لیے کہ خدانخواستہ ہمارا سیاسی مستقبل بالکل تاریک ہے اور یہ خواہ مخواہ کی اچھل کود بند کر دینی چاہئے اور جس کی اطلاع لندن میں بھی دی جا چکی ہے اور وہاں سے بھی واپس نہ آنے کی وجہ یہی بتائی گئی ہے کیونکہ ان کی نگاہِ دور ایسے معاملات کا اندازہ بہت پہلے ہی لگا لیا کرتی ہے؛ چنانچہ پی ٹی آئی کی والوں سے کہہ دیا ہے کہ آپ یہاں آنے کی زحمت نہ اٹھائیں، یہ بات پہلے سے ہی اچھی طرح معلوم ہے؛ تاہم اس ہمدردی کا شکریہ۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو دے رہی تھیں۔
عمران خان کو اتفاقِ رائے کے لیے
مک مکا کی ضرورت ہے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو اتفاقِ رائے کے لیے مک مکا کی ضرورت ہے‘‘ لیکن مک مکا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے جبکہ اصل مسئلہ تو حاصل کردہ چیزوں کو لوٹانا ہے جس کے بغیر مک مکا کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا، اور اگر خان صاحب مک مکا کرنا بھی چاہیں تو انہوں نے واپس کیا کرنا ہے؟ اس لیے اگر انہیں مک مکا کے آداب اور طریقے سمجھا بھی دیے جائیں تو ان پر عمل پیرا ہونا ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز برلن (جرمنی) میں ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ادریس بابر کے دو عشرے:
خالی جھولی
ہر گولی کام آئی
کام آئی ہر گولی
یہ کیسی شام آئی
سو گیا تھک کے سوالی
تھک کے سوالی سو گیا
پسٹل ہو گیا خالی
خون سے بھر گئی جھولی
پسٹل خالی ہو گیا
جھولی خون سے بھر گئی
اور قوالی مر گئی
٭......٭......٭
تندور پر سردی کا اندازہ
کچن کی میز پر اک چائے کی پیالی رکھی ہے
اسی کے ساتھ چینک (ٹوٹنے والی) رکھی ہے
ہرے صوفے پہ کتا سا کوئی سکڑا پڑا ہے
قریب ایک باتھ ٹب میں دھوپ کا ٹکڑا پڑا ہے
پرے کرسی پہ 'بر بر‘ کانپتی (بلی) دھری ہے
پرانے نادروں کے واسطے دلّی دھری ہے
بھری الماری سے دل بھر خلا تو ڈھونڈ لائیں
درازیں، درزیں تک جھانکیں، خدا کو ڈھونڈ لائیں
یہ منظر‘ سوچ کر‘ دونوں نے اندازہ لگایا
تو میں نے عشرہ‘ اس نے نان اک تازہ لگایا
آج کا مقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں ظفرؔ
سہمی ہوئی زمین تھی منظر سیاہ تھا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved