دوماہ سے جس آل پارٹیز کانفرنس کی زور شور سے تیاریاں کی جا رہی تھیں وہ چند گھنٹے جاری رہنے کے بعد تمام ہوئی۔ اس کانفرنس پر میں ایک فقرے میں یہ تبصرہ کروں گا: \'\'A historical day for Pakistan as a conference of important people was held who singly can do nothing,but together can decide that nothing can be done\'\'۔۔۔۔۔ اگر لوگوں کو یاد ہو تو کوئی دو سال قبل 29 ستمبر کو اسی مقام پر پاکستان کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے انہی شخصیات کی کانفرنس منعقدہوئی تھی۔ اس کا بھی اسی طرح کا ایک مبہم سا اعلامیہ جاری ہوا تھا جس کا کوئی سر پیر نہ تھا۔ اُس کانفرنس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ حالیہ آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ پر اس میں شامل شخصیات کے دستخط تک موجود نہیں۔ یہ کانفرنس کس حد تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے‘ یہ وقت بتائے گا۔ حالیہ آل پارٹیز کانفرنس کی یہ خوبی سب نے تسلیم کی کہ یہ بہت جلد اختتام کو پہنچ گئی جبکہ دو سال قبل ہونے والی کانفرنس مسلسل دس گھنٹے جا ری رہی تھی۔ اُس کانفرنس میں بہت سے کم اہم لوگوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن نو ستمبر کی کانفرنس کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اس میں شیخ رشید اور اعجاز الحق سمیت اُن جیسے بہت سے لوگوں کو شامل کرنے سے گریز کیا گیا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ شیخ صاحب اوراعجاز الحق کی جماعت کی ان کی اپنی صورت میں قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک نشست رکھنے والی معمولی جماعتوں کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا جائے گا۔ اس پر میڈیا کی طرف سے جب ان دو حضرات کو نہ بلانے پر اعتراض کیا گیا تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ایک ایک فرد کو بلا کر اس کانفرنس کو ہم بارات نہیں بنانا چاہتے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ایک نشست والی جماعت کے سربراہ پروفیسر ساجد میر کو کس حیثیت میں شامل کیا گیا ہے تو وہ اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ مسلم لیگ (ض) کے صدراعجاز الحق کے چونکہ اپنے مرحوم والد جنرل ضیاء الحق کے ناتے طالبان اور ان کے ہمدردوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ کچھ تعلقات ہیں ا س لیے ان کی شرکت دوسرے فریق کے کئی حضرات کے لیے ایک اچھا پیغام بن سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ لگتا ہے اس کانفرنس میں انہیں مدعو نہ کر کے کچھ حلقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق اس کانفرنس کے بعد ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جو ہر قسم کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ اس کمیٹی میں اگر اعجاز الحق کو شامل کر لیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ مطلوبہ مقاصد تک پہنچنے میں کچھ کار آمد ثابت ہو ں‘ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ شائد کچھ لوگوں کی ناراضگی مول لینا موجودہ حکمرانوں کو گوا را نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر مخدوم امین فہیم کو پہلے تو شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق والی فہرست میں رکھتے ہوئے اس کانفرنس سے باہر رکھا گیا‘ اس پر احتجاج بڑھا تو باہم مشورے سے انہیں مدعو توکرنا پڑا لیکن اس کا حساب اس طرح برا بر کیا گیا کہ محمود و ایاز کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے انہیں مسلم لیگ فنکشنل کے امتیاز شیخ اور متحدہ قومی موومنٹ کے حیدر عباس رضوی کے ساتھ والی نشست الاٹ کی گئی۔ سندھ کی سیا ست میں گدی نشینوں کی آپس کی مسا بقت کوسمجھنے والے جانتے ہیں کہ سندھ میں پگاڑا اور ہالہ والوں کے درمیان برسوں سے کیا سلسلہ چل رہا ہے۔ مخدوم امین فہیم کچھ دیر تو ضبط کر کے بیٹھے رہے لیکن پھر ہالہ کے پیر کا جلال اس طرح پھٹاکہ وہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کانفرنس سے باہر نکل گئے۔ وزیر اعظم کے معنی خیز اشارے پر چوہدری نثارعلی خان انہیں منانے کے لیے ان کے پیچھے لپکے تو ضرور لیکن وہ ان کا ہاتھ چھڑاتے ہوئے وزیر اعظم ہائوس سے نکل کر کہیں چلے گئے۔ ہمارے میڈیا کے کچھ حضرات کی جانب سے یہ سوال نہ جانے بار بار کیوں پوچھا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس میں شامل ہونے والے مہمانوں کی ابتدائی فہرست کس کی مرضی اور حکم سے مرتب کی گئی؟ کیا کانفرنس ہال میں رکھی گئی نشستوں کی ترتیب بھی ’’کسی‘‘ کی مرضی اور ہدایت پر ترتیب دی گئی تھی؟ اس طرح کے سوالات کی بھر مار کرنے والے میڈیا کے کچھ انتہائی با خبر دوست شائد چیئر مین سینٹ نیر بخاری والا واقعہ بھول گئے ہیں ۔اگر میں یہ کہوں کہ مخدوم امین فہیم کو غلطی سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر حیدر عباس رضوی اور امتیاز شیخ کے ساتھ بٹھا کر ایک پچھلا حساب برابر کیا گیا تو غلط نہیں ہو گا۔ جو حضرات بھول چکے ہیں انہیں یاد کرائے دیتا ہوں کہ 29 ستمبر 2011ء کو اسی وزیراعظم ہائوس میں پیپلز پارٹی کی طرف سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے منعقد کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف کو بھی مدعو کیا گیا تھا اور پیپلز پارٹی کی جانب سے انہیں حیدر عباس رضوی کے ساتھ والی نشست الاٹ کی گئی تھی اس لیے پیپلز پارٹی کے سربراہ مخدوم امین فہیم کو بھی حیدر عباس رضوی کے ساتھ ہی نشست دے کر ’’جمہوری‘‘ حساب چکا دیا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مخدوم صاحب اس کانفرنس کا بائیکاٹ نہ کرتے کیونکہ میاں صاحب تو ان کی طرف سے بلائی گئی کانفرنس میں آخری دم تک حیدر عباس رضوی صاحب کے ساتھ بیٹھے رہے تھے حالانکہ وہ کانفرنس دس گھنٹے جاری رہی تھی۔ مسلم لیگ نواز نے اگر دو سال بعد اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا بدلہ لے لیا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہنا شروع کر دے کہ یہ کانفرنس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے منعقدکی گئی یا پرانے بدلے لینے کے لیے تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ جس کانفرنس کی اس قدر زور شور سے تیاری کی جا رہی ہو اور جس پر پاکستان کی سلامتی کا دارو مدار ہو‘ اس کانفرنس کو اگر اپنے پرانے حسابات برا برکرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کانفرنس کے نتائج کے بارے میں کچھ سوچنا نہ سوچنے سے بہتر ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو یاد ہو گا کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے دوسال قبل بلائی گئی کانفرنس میں ایک جملہ کہا تھا ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘۔ معلوم نہیں حالیہ کانفرنس میں وہ پرانی والی دال اس کانفرنس میں رکھی گئی تھی یا نہیں؟ جس طرح دو سال قبل بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کو سیاسی قیا دتوں کے برا بر بٹھا کر کچھ لوگوں اور گروپوں کوشائد یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ ’’حضور والا! جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ لوگ ہیں‘‘۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ فوج اپنی پالیسیاں چوکوں اور محفلوں میں بیان نہیں کیا کرتی۔ اس کے لیے کچھ اور مقام زیا دہ مناسب ہوتے ہیں۔ فوج‘ پولیس اور قومی رضا کاروں میں کچھ تو فرق ہو نا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved