''فاتحہ پڑھو، افسوس کرو لیکن کسی فرد کے مر جانے پر نہیں بلکہ احساس کے مر جانے پر‘ کیونکہ جب احساس مر جاتا ہے تو سمجھ جائو کہ فالج زدہ معاشرہ اپاہج ہونے کے بعد اب اپنی سانسیں پوری کر چکا ہے‘‘۔ خبر ہے کہ بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ کے قریب ایک کنویں سے ایک خاتون سمیت تین افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ ایس پی بارکھان کے مطابق برآمد شدہ تین لاشوں کی عمریں 20 سے 25 سال کے لگ بھگ ہیں، تینوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ہے جبکہ خاتون کے چہرے کو تیزاب ڈال کر مسخ کیا گیا ہے۔ لاشیں ڈی ایچ کیو ہسپتال بارکھان منتقل کر دی گئی ہیں جہاں ان کا طبی معائنہ کر کے رپورٹ تیار کی جائے گی۔ لاشوں کی شناخت بلوچ خاتون گراں ناز اور اس کے جوان بیٹوں محمد نواز مری اور عبدالقادر مری کے طور پر ہوئی ہے۔ چند روز قبل مقتول خاتون کی ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ قرآنِ پاک کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر ملک کے وزیراعظم سے لے کر وزیراعلیٰ تک اور اعلیٰ پولیس افسران سمیت اربابِ اختیار سے اپیل کر رہی تھی کہ وہ، اس کی بیٹی اور بیٹے ایک مقامی سردار کی نجی جیل میں قید ہیں‘ جہاں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں‘ انہیں بھوکا رکھ کر ان کے ہاتھ اور پائوں کے ناخن نکالے گئے ہیں‘ ان پر کتے چھوڑے جاتے ہیں۔ اس کا مطالبہ تھا کہ اس کو اور اس کے خاندان سمیت دوسرے قید افراد کو اس نجی جیل سے رہا کرایا جائے لیکن کسی نے اس ستم رسیدہ ماں کی ایک نہ سنی۔ نہ کوئی این جی اور اور نہ ہی ہر وقت مسنگ پرسنز کے ڈھول بجانے والوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کی مدد کو پہنچا۔ شاید اس لیے کہ اس غریب خاندان کی داد رسی کر کے کسی کو کیا ملنا تھا۔ نہ تو اس ظلم کی آڑ میں ریاستی اداروں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا تھا اور نہ ہی پاکستان کا منفی تاثر دنیا بھر میں پھیلایا جا سکتا تھا۔
اس خاندان کا مجرم کوئی ادارہ نہیں بلکہ مقامی سردار اور سرداری سسٹم ہے‘ جگہ جگہ بنی ہوئی نجی جیلیں ہیں‘ جہاں یہ بااثر افراد اپنے ''غلاموں‘‘ کو قید رکھتے ہیں اور اپنے حکم کی فوری تعمیل نہ کرنے والوں کے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر انہیں بند کر دیتے ہیں۔ خان محمد مری‘ جو مقتول نوجوانوں کا باپ اور مظلوم عورت کا شوہر ہے‘ کئی سالوں سے شہر بہ شہر پریس کانفرنسوں اور احتجاجوں کے ذریعے اس ظلم کو اجاگر کر رہا تھا کہ 2019ء سے نہ صرف اس کے بیوی بچے بلکہ کئی دیگر افراد بھی ایک مقامی سردار کی قید میں ہیں۔ پولیس کے جاری کردہ بیان کے مطابق مقتول خاتون کے شوہر اور بچوں کے والد خان محمد مری کی مدعیت میں 18 جنوری 2023ء کو مقتولین سمیت خاندان کے دیگر افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔ مقدمے میں ایک سیاسی جماعت کے ترجمان اور اور بارکھان سے منتخب نمائندے کو نامزد کیا گیا تھا۔ قریب دو ماہ قبل لاہور میں اس نے معروف عالمِ دین علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور علامہ ہشام الٰہی ظہیر سے بھی ملاقات کی تھی اور ایک پریس کانفرنس میں اس ظلم پر آواز اٹھائی تھی۔ ابھی علامہ ہشام صاحب کا ایک ٹویٹ نظر سے گزرا ہے کہ ''جس وقت خان محمد مری لاہور میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کے مرکز پر اپنی مظلومیت کی داستان سنانے آیا تھا اس وقت تمام ذرائع ابلاغ سے درخواست کی تھی کہ اس ظلم اور اندھیر نگری کے خلاف آواز اٹھائیں مگر کسی نے جرأت نہ کی، اب اس کے خاندان کے مرنے پر سب کو ترس آ گیا ہے‘‘۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ خان محمد مری کی اہلیہ اور دوبیٹوں کو تو قتل کر دیا گیا، مگر ابھی تک مزید پانچ بچے محبوس ہیں۔
جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں، اندرونِ سندھ اور بلوچستان سے متعلق نجی جیلوں کی شکایات اکثر منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں۔ یقینا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران بھی ان سے غافل نہیں ہوں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جن کے پاس ان عقوبت خانوں کی چابی ہوتی ہے‘ وہی ہر دور میں اس ملک کے حکمران ہوتے ہیں۔ وہی غریبوں کی قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں۔ مظلوم بلوچ ماں اور اس کے بیٹوں کے قتل کا ملزم صرف ایک سردار نہیں‘ بلکہ وہ بھی ہیں جن کی اس پر دسترس ہو سکتی تھی۔ واضح رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل جولائی 2020ء میں اسی علاقے میں ایک مقامی صحافی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت بھی مقتول صحافی کے بھائی نے اسی مقامی سردار پر الزام عائد کیا تھا۔ نجی جیل کے الزامات اس سے قبل بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ جنوری 2014ء میں مقامی پولیس نے نہ صرف اس سردار کو پولیس اہلکاروں پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا تھا بلکہ پولیس سے چھینے گئے اسلحے کی بازیابی کے لیے گھر پر چھاپہ مارا تو گولا بارود سے بھرے ایک ٹرک کے علاوہ گھر کے تہہ خانے سے تین بچوں سمیت سات افراد کو بازیاب بھی کرایا گیا تھا۔ اگرچہ بعد میں اس خبر کی تردید کر دی گئی لیکن مقامی صحافی اس تردید کی وجہ سیاسی اثر و رسوخ اور حکومتی دبائو کو بتاتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو کے بعد خاتون کا اپنے بیٹوں سمیت قتل ہو جانے سے کسی کے کانوں پر جوں رینگتی ہے یا نہیں۔
ابھی تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بارکھان واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس دلخراش واقعے پر متاثرہ خاندان سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے صوبائی محکمہ داخلہ کو واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ متاثرہ خاندان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دی جائے گی۔ بلوچستان اسمبلی سمیت سینیٹ آف پاکستان میں بھی اس واقعے کی بازگشت سنائی دی۔ بلوچستان کے وزیر تعلیم نصیب اللہ مری نے اس افسوسناک واقعے پر کہا ہے کہ ہم سب بے حس تھے، خاموش رہے ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں، اگر کوئی کارروائی ہوتی تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ انہوں نے یہ بھی درخواست کی اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اور جو اس واقعے میں ملوث ہو‘ اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جیتے جی تو گراں ناز بی بی کو انصاف نہ مل سکا، شاید مرنے کے بعد ہی مل جائے اور اس کے مزید جو چار بیٹے اور بیٹی ابھی تک 'لاپتا‘ ہیں، وہ بازیاب ہوجائیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس کیس سے کیا نکل کر سامنے آتا ہے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کوئٹہ کے چوراہے میں ٹریفک کانسٹیبل کے دن دہاڑے کچل دیے جانے کی وڈیو اور اس کیس کا منطقی انجام ابھی سب کے ذہنوں میں تازہ ہو گا۔
نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان کا استعفیٰ سب کو چونکا کر رکھ گیا ہے۔ سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس استعفے کی امید نہیں کی جا رہی تھی کیونکہ آفتاب سلطان کو میاں نواز شریف صاحب کا منظورِ نظر افسر مانا جاتا تھا۔ میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ اور اس سے قبل یوسف رضا گیلانی کے دور میں بھی وہ سول خفیہ ایجنسی (آئی بی) کے سربراہ رہے ہیں۔ میاں صاحب کے دور میں جب ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی گئی تھی۔ اب یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ تو ایک قریبی فرد سمجھے جاتے تھے، ان کے اعصاب جواب کیوں دے گئے؟ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد جب چیئرمین نیب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی مدتِ ملازمت پوری ہوئی تو جو نام سامنے آئے ان میں آفتاب سلطان کا نام سب سے نمایاں تھا۔ فائنل منظوری لندن سے ہونا تھی لہٰذا قرعہ فال انہی کے نام نکلا۔ لیکن محض سات مہینوں میں نجانے ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اپنے الوداعی خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ''میں بہت خوش اور مطمئن ہوں کہ اپنے اصولوں کو برقرار رکھا، کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکا، اپنی زندگی اور پیشہ ورانہ کیریئر میں قانون کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا، ہمارا آئین ہمارے تمام مسائل کا حل فراہم کرتا ہے، آئین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج ہم سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہیں، سیاسی عمل اور انتخابات کا تسلسل ضروری ہے‘‘۔ سبکدوش چیئرمین نیب نے یہ بھی کہا کہ میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتا، نہ کسی کے خلاف قائم ریفرنس محض اس بنیاد پر ختم کر سکتا ہوں کہ ملزم کسی بڑی شخصیت کا رشتہ دار ہے۔ ''مجھے کہا گیا کہ فلاں کے بھائی کو چھوڑ دو، کہا گیا کہ فلاں شخص کو پکڑ لو، اس کے پاس ایک پلاٹ ہے، اپنی اربوں روپے کی پراپرٹی باہر ہے اور ایک پلاٹ والے کو پکڑ لوں؟‘‘۔
دنیا بھر میں یوں تو آئے روز ہزاروں حکومتی اور انتظامی افسران اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے چلے آ رہے ہیں‘ ان کی وجو ہات کچھ بھی ہوں لیکن اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان افراد‘ جنہیں آئینی تحفظ بھی حاصل ہو‘ اپنے عہدوں سے شاذ و نادر ہی مستعفی ہوتے ہیں۔ البتہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ استعفے ایک معمول کی بات ہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں اگر کوئی پُرکشش اختیارات کی حامل کرسی کو یہ کہتے ہوئے لات مار دے کہ بس! اب مزید دبائو برداشت نہیں ہوتا تو یقینا یہ ایک اچھنبے کی بات ہے۔ البتہ ایک قرض ہے آفتاب سلطان پر اور یہ قرض ادا کرنے سے ہو سکتا ہے کہ ان کا نام پاکستان کی تاریخ میں نقش ہو کر رہ جائے۔ اگر وہ ہمت کرتے ہوئے قوم کو یہ بتا دیں کہ کون لوگ‘ کون سے عناصر تھے جو ایک پلاٹ والوں کو جعلی کیسز میں پھنسانے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسرے کے اربوں روپے کے کیسز سے آنکھیں بند کر کے انسدادِ بدعنوانی کے لیے قائم ہونے والے ادارے کے مینڈیٹ سے انحراف کر رہے تھے تو ملک و قوم کا بھلا ہو سکتا ہے۔ قوم کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک و قوم کے دس‘ دس ارب روپے بیرونِ ملک منتقل کر رکھے ہیں اور دوسروں پر مقدمات بنانے کے لیے دبائوڈال رہے ہیں۔ نیب کے سابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال اور چودھری قمر زمان بھی اگر ان چہرو ں سے نقاب نوچ کر سچ بتا دیں تو کیا ہی بہتر ہو۔ اگر اس معاملے پر ایک 'ٹروتھ کمیشن‘ بن جائے تو بہت اچھا ہو گا۔ سابقہ تینوں چیئرمین نیب قوم اور ملک کا یہ قرض ادا کر کے اپنے ضمیر اور تاریخ کی عدالت میں سرخرو ہو جائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved