زمانے کے پہلو بھی عجیب ہیں اور کروٹیں بھی باکمال ہیں۔ جب یہ کروٹ بدلتا ہے تو بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ زمانے کے پہلو بہ پہلو بہت کچھ چلتا رہتا ہے جو سمجھ میں آکر بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اور کبھی کبھی اِس طور سمجھ میں آتا ہے کہ حسرت ہوتی ہے کہ کاش سمجھ میں نہ آیا ہوتا۔
زمانے کی تازہ ترین کروٹ کو ہم اکیسویں صدی کے نام سے جانتے ہیں۔ اکیسویں صدی اپنے دامن میں ایسا بہت کچھ لیے ہوئے وارد ہوئی جو ہمارے لیے بہت حد تک اجنبی تھا۔ مختلف شعبوں میں ہوش رُبا نوعیت کی تکنیکی ترقی نے زندگی کا پورا ڈھانچا بدل ڈالا۔ جب پوری زندگی کا ڈھانچا تبدیل ہوا تو معاشی سرگرمیوں کا ماڈل بھی تبدیل ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ کسی بھی شعبے میں جامع تحقیق کے نتیجے میں جو ایجادات و اختراعات ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہوتی ہیں اور ہمہ جہت تبدیلی یقینی بناکر دم لیتی ہیں۔ ہر عہد میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہاں‘ ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں میں تحقیق و ترقی کی رفتار زیادہ نہیں تھی اور ایجادات و اختراعات کے نتیجے میں زندگی کا ڈھانچا ایسے تبدیل نہیں ہوتا تھا کہ کچھ سمجھ ہی میں نہ آئے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ ہر شعبہ اتنا بدل گیا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ گزرے ہوئے زمانوں میں انسان کا نصیب حیرانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ جب کچھ نیا ہوتا تھا تو ایسی حیرانی ہوتی تھی کہ حواس بحال کرنے میں وقت لگتا تھا۔ اب حیرانی کی جگہ بیزاری نے لے لی ہے۔ آج کا انسان بسا اوقات یہ سوچتا ہے کہ اِتنی ترقی اور تیزی کا کیا اچار ڈالنا ہے!
تیز رفتار بلکہ برق رفتار ترقی نے ہر شعبے کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ بہت کچھ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ اُس کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہ ہونے والے دیکھتے ہی دیکھتے پیچھے رہ جاتے ہیں اور پھر اُن کے پاس کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہ کیفیت بیزاری کا گراف بلند کرتی جارہی ہے۔ بیزاری اب ایک ایسے موضوع کی شکل اختیار کرچکی ہے جس پر ترقی یافتہ دنیا کے ماہرین نے سیر حاصل تحقیق کی ہے اور بہت کچھ لکھا ہے۔ عوام کے لیے آسان زبان میں لکھی جانے والی نفسیات کی کتابوں میں بھی بیزاری پر وقیع مباحث ملتے ہیں۔ خالص تکنیکی زبان میں لکھی جانے والی کتابیں بیزاری کے تجزیۂ محض سے بھری ہوئی ہیں۔ دونوں طرح کے مطالعے انسان کو بیزاری کے نئے اور انتہائی حیرت انگیز پہلوؤں سے رُوشناس کراتے ہیں۔ ہر انسان میں‘ فطری طور پر‘ زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ جاننا انسانی فطرت کا انتہائی بنیادی جُز ہے۔ جاننے کی طلب ہی انسان کو بہت کچھ سکھاتی اور بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ ہر دور کا انسان زیادہ سے زیادہ جاننے کی تگ و دو کرتا رہا ہے۔ جب تکنیکی ترقی کی رفتار انتہائی معمولی تھی تب بہت کچھ جاننا انتہائی دشوار ہوا کرتا تھا۔ لوگ کسی کتاب کے حصول کے لیے بھی مہینوں انتظار کرتے تھے۔ کسی کو پیغام بھجوانا ہو تو ہفتہ بھر میں پیغام پہنچتا تھا اور جواب آنے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر مراسلت تو اور بھی وقت لیتی تھی۔ کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں۔
جاننے کی خواہش انسان میں ہمیشہ پنپتی رہی ہے۔ ہر دور کے انسان نے گزشتہ ادوار کے انسانوں سے زیادہ جاننے کی خواہش محسوس کی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ تھوڑی بہت ترقی سے بہت کچھ جاننا قدرے آسان ہو جایا کرتا تھا۔ فی زمانہ معاملہ بہت مختلف ہے اور بہت حد تک حواس کو منتشر کرنے والا ہے۔ آج کا انسان یہ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا ہے کہ کیا کیا جانے اور کیا کیا یاد رکھے! اب کچھ بھی جاننا ایسا آسان ہوگیا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ کسی بھی دور میں حواس پر حملوں کی یہ کیفیت نہ تھی۔ گزری ہوئی صدیوں کے حالات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ علم کے حصول کے لیے سرگرداں رہا کرتے تھے۔ سفر کے وسائل بھی کم تھے اور علم کو محفوظ کرنے کے وسائل بھی زیادہ نہ تھے۔ بہت کچھ سینہ بہ سینہ چلتا رہتا تھا۔ اُس گئے گزرے دور میں بھی بہت سوں نے زندگی بھر محنت کے ذریعے علم کے حصول اور فروغ میں اپنا کردار ادا کیا اور علم و فن کی دنیا کو ایسا پروان چڑھایا کہ آنے والی نسلوں کے لیے کام آسان ہوگیا۔
آج ہم ایسی مادّی ترقی سے ہم کنار ہوچکے ہیں جو ذہن کو ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہ چھوڑنے پر تُلی ہوئی ہے! کل کا انسان جاننا چاہتا تھا اور آج کا انسان جان جان کر ہلکان و بے جان ہوا جارہا ہے۔ حواس قدم قدم پر ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ کوئی کرے تو کیا کرے؟ زندگی ایسی تیز رفتار ہوچکی ہے کہ تھوڑی سی بے دھیانی انسان کو بہت پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ جس نے تساہل کو شعار بنایا وہ دیکھتا ہی رہ گیا اور دنیا آن کی آن میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ یہ کیفیت محض انتشارِ ذہن اور بیزاری کو جنم دیتی ہے۔حواس باختہ کرنے والی ترقی نے جو تیزی پیدا کی ہے اُس نے انسان کو ڈھنگ سے سمجھنے اور سوچنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ قدم قدم پر ذہن کو جھنجھوڑ دینے والے معاملات ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، معاملات کو تیزی سے سمجھنے اور سلجھانے کے لیے مہارت و مشق درکار ہے۔ مہارت کا حصول ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور مشق کی منزل سے گزرنا بھی سب کے لیے ممکن نہیں۔ یہ معاملہ غیر معمولی ذہنی تیاری مانگتا ہے۔ اِس کے لیے نظم و ضبط کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ فی زمانہ نظم و ضبط کو زندگی کا جُز بنانے میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد برائے نام ہے۔ لوگوں راتوں رات سب کچھ حاصل کرنے کے فراق میں رہتے ہیں۔
جب انسان بہت زیدہ جان لیتا ہے اور ذہن میں طوفان اٹھ چکا ہوتا ہے تب عمل کی راہ نہ ملنے کی صورت میں الجھن جنم لیتی ہے اور الجھن کے بطن سے بیزاری ہویدا ہوتی ہے۔ بیزاری آج کے انسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر طے نہیں کر پاتے کہ کریں تو کیا کریں۔ ایسی حالت میں ذہن کی توانائی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ ایک بدیہی حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود کچھ خاص نہیں کر پارہا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی انتشار بڑھ رہا ہے۔ غور کیجیے تو یہ عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ ذہن کا انتشار کچھ زیادہ کرنے نہیں دے رہا اور اس کے نتیجے میں مزید ذہنی انتشار پیدا ہو رہا ہے!آج کے انسان کو نفسی امور کے ماہرین سے مشاورت کی غیر معمولی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں عام آدمی اپنے الجھے ہوئے ذہن کو دوبارہ کارآمد بنانے کے معاملے میں نفسی امور کے ماہرین سے رابطے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں عام آدمی کو قائل کرنے میں ایک زمانہ لگتا ہے کہ اُس کا ذہن الجھا ہوا ہے اور اُسے کسی نہ کسی ماہر سے مشاورت کرنی ہی چاہیے۔
لوگ نفسی امور کے ماہرین سے بات کرنے میں جھجک اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ کہیں لوگ ''سائیکو‘‘ نہ سمجھ لیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اچھے خاصے الجھے ہوئے ہیں اور اُن کے معمولات بھی بتاتے ہیں کہ وہ نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہے مگر پھر بھی وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ لوگ انہیں ''سائیکو‘‘ نہ سمجھ بیٹھیں! عام آدمی کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ ذہن کا الجھا ہوا ہونا کوئی نفسی عارضہ نہیں، محض الجھن اور پیچیدگی ہے اور اِس کا تدارک یا ازالہ ممکن ہے۔ آج کی زندگی بیشتر امور میں اِتنی الجھی ہوئی ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو شدید الجھن میں محسوس کر رہا ہے تو اِس پر حیرت ہونی چاہیے نہ تاسّف۔ اب حیرت اور تاسّف کی منزل سے ایک قدم آگے بڑھ کر حقیقت پسندی کے ساتھ معاملات کو درست کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ جب انسان بہت چاہ کر بھی کچھ زیادہ نہیں کر پاتا تب بیزاری محض پیدا نہیں ہوتی بلکہ حواس پر طاری بھی ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ انسان حقیقت پسندی کے تحت معیاری صحبت اختیار کرے، منفی خیالات کو خیرباد کہے اور زندگی کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved