چھ ماہ کی قلیل مدت میں‘ اگر ایک سنجیدہ کتاب کے دو ایڈیشن شائع ہوں تو مجھ جیسوں کے لیے یہ خبر شادیٔ مرگ کا باعث بن سکتی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا: خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ خبر مصدقہ ہو تو اعتبار آ ہی جاتا ہے۔ اس لیے مجھے اس پر اعتبار کرنا پڑا۔
یہ تذکرہ برادرِ عزیز محمد آصف محمود کی نئی کتاب 'پسِ قانون‘ کا ہے۔ یہ کتاب ان سوالات کا عالمانہ مگر عام فہم جواب ہے جو ہمارے ذہنوں میں اٹھتے مگر جواب سے محروم رہتے ہیں: ہمارا نظامِ قانون ایک عام آدمی کو انصاف دینے میں کیوں ناکام ہے؟ معاملہ اشرافیہ کا ہو تو اس کی گرفت کمزور کیوں ہو جاتی ہے؟ قانون کی ہتھکڑی‘ اس طرح کیوں بنائی گئی ہے کہ صرف عام شہریوں کی کلائیوں ہی کے لیے موزوں ہے؟ یہ کیسی غلامی ہے جو نسل در نسل‘ وراثت کی طرح منتقل ہوتی جاتی ہے؟
ان سوالات کے جواب‘ ایک مقدمے کے رَد اور دوسرے کے اثبات میں مضمر ہیں۔ پہلے مقدمے کے مطابق‘ یہ انگریز تھے جنہوں نے اس سرزمین کو قانون کی حکمرانی سے متعارف کرایا۔ ورنہ ہمارے آباؤ اجداد تو کسی تصورِقانون سے واقف نہ تھے۔ آج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا خیال ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد‘ یہاں قانون کا احترام باقی نہیں رہا۔ انگریز دمِ رخصت‘ یہ احترام بھی ساتھ لیتے گئے۔
آصف محمود نے ناقابلِ تردید شواہد کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے‘ یہاں نہ صرف ایک نظامِ قانون موجود تھا بلکہ نتائج کے اعتبار سے‘ انگریزوں کے دیے ہوئے قانون سے بہت بہتر تھا۔ مغل حکمرانوں کے عہد میں اگر برصغیر ایک عالمی قوت بنا تو یہ محض اتفاق نہیں تھا۔ پس منظر میں نہ صرف ریاست کا ایک جامع تصور موجود تھا بلکہ اس کے ساتھ ایسے قوانین بھی تھے جو ریاستی نظم کو استحکام دے رہے تھے۔ یہ قوانین مقامی روایات سے ماخوذ تھے اور انہیں یہاں کی آبادی کا اعتماد حاصل تھا۔
دوسرا مقدمہ‘ جسے مصنف نے ایجابی انداز میں بیان کیا ہے‘ یہ ہے کہ انگریزوں نے بر صغیر کے لیے جو نظامِ قانون ترتیب دیا‘ اس کا بنیادی مقصد ایک محکوم قوم پر ایک بدیسی قوت کے اقتدار اور غلبے کو قائم کرنا تھا۔ یہ محض قانون نہیں تھا بلکہ ایک نظامِ فکر کو ذہنوں میں اتارنے کا ایک آلہ تھا جس کا مقصد انگریزوں کو ایک برتر مخلوق ثابت کرنا تھا۔ انگریز چونکہ تہذیبی اعتبار سے اعلیٰ اور تمدن کے حوالے سے کہیں فائق اور جدید ہیں‘ اس لیے غلبہ اور اقتدار ان ہی کا حق ہے۔
اس مقدمے کے مطابق‘ مقامی آبادی‘ وقت سے بچھڑے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ ہے‘ اس لیے ان کی محکومی فطری ہے۔ یہاں کی تہذیب طبعی عمر پوری کر چکی اور اب زوال اس کا مقدر ہے۔ مقامی لوگ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کی بقا کا ایک ہی راستہ ہے: وہ انگریزوں کے رنگ میں رنگ جائیں۔ یہ اہم نہیں کہ ان کا نام عبداللہ ہے یا عبدالرحمن۔ اہم یہ ہے کہ ان کی شخصیت کا جوہر‘ لازماً فرنگیانہ ہو۔ اگر برصغیر میں مقامی سطح پر ایک ایسی قوم تیار ہو جائے تو انگریزوں کے جانے کے بعد بھی‘ یہاں کی نسلیں ان کی محکوم رہیں گی۔ انگریزوں کا دیا ہوا نظامِ قانون ہو یا نظامِ تعلیم‘ دراصل اس نظامِ فکر کی ترویج کے لیے آلات کا کام کر رہے تھے۔
انگریزوں کی حکمرانی میں ایسے قانون کی موجودگی قابلِ فہم ہے کہ نو آبادیاتی قوتوں کا طریقۂ واردات یہی ہے۔ ستم یہ ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد بھی‘ نہ صرف اس نظامِ قانون کو قبول کر لیا گیا بلکہ پچھتر برس گزر جانے کے بعد بھی‘ یہ قانون نافذ ہے۔ اس کتاب میں دلائل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے ہم آج بھی انگریزوں ہی کے دیے ہوئے نظامِ قانون کے تحت زندہ ہیں۔
آج جسے ہم مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کہتے ہیں‘ یہ دراصل وہ قانون ہے جو انگریزوں نے 1860ء میں‘ یہاں نافذ کیا۔ فوجداری قانون کی دوسری دستاویز‘ مجموعۂ ضابطۂ فوجداری ہے جو1898ء میں نافذ ہوا۔ ہماری عدالتیں آج بھی اس کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ یہی نہیں ضابطۂ دیوانی بھی وہی ہے جو 1908ء میں انگریزوں نے نافذ کیا تھا۔ سب سے سنگین معاملہ 'پولیس ایکٹ‘ کا ہے۔ 1860ء میں انگریزوں نے ایک پولیس کمیشن بنایا اور اس کی سفارشات کی بنیاد پر یہاں ایک پولیس ایکٹ نافذ ہوا۔ چند جزوی تبدیلیوں کے ساتھ‘ آج بھی اسی قانون کی حکمرانی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پولیس کا یہ نظام‘ انگریزوں نے 'آئرش کانسٹیبلری‘ کے ڈھانچے پر اٹھایا۔ یہ کانسٹیبلری آئر لینڈ کی جنگِ آزادی کو کچلنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
ایک قانون‘ ممکن ہے ظاہری صورت میں کسی تبدیلی کا تقاضا نہ کرتا ہو لیکن دراصل یہ روحِ قانون ہے جس کو سمجھنا لازم ہے۔ قانون اسی روح کے لیے بدن اور حفاظت کا کام کرتا ہے۔ جب ہم نے اس قانون کو اس کی روح کے ساتھ قبول کر لیا تو انگریزوں کے جانے کے بعد بھی‘ اس کے اثرات وہی تھے جو انگریزوں کی موجودگی میں مرتب ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب حکمران طبقہ مقامی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان کے نام تو عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں لیکن دراصل وہ ایک حاکم قوم کے نمائندے ہیں اور وہ عوام کو اپنا محکوم سمجھتے ہیں۔
آج تھانہ عام آدمی کے لیے خوف کا گھر ہے۔ افسر‘ ایک ایسی مخلوق ہے‘ عام پاکستانی کا مقدر‘ جس کی جنبشِ قلم کا محتاج ہے۔ عدالت کا تصور ہی اس کے وجود میں سنسی پھیلا دیتا ہے۔ اسی طرح اہلِ سیاست اور فوج بھی عوام سے دور بسنے والی مخلوقات ہیں جن کا عام آدمی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہمارا ریاستی نظام انگریزوں کا دیا ہوا ہے جو دو طبقات کا نمائندہ تھا۔
مغلوں کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ مثال کے طور پر کوتوالی نظام کو دیکھیں جو انگریزوں کے نظامِ پولیس سے بدرجہ بہتر تھا۔ یہ عوام کی شمولیت کے ساتھ قائم ہونے والا نظام تھا‘ جسے عام آدمی کا اعتماد حاصل تھا۔ اگر ایک کوتوال کے فرائضِ منصبی پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی اور جرم کا سدِباب کیسے کیا جا سکتا ہے۔
آصف محمود نے اس مقدمے کو علمی متانت اور تاریخی شواہد کے ساتھ‘ اس قدر عام فہم زبان میں بیان کر دیا ہے کہ اب علم کی دنیا میں اسے چیلنج کرنا آسان نہیں رہا۔ آصف کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بات محکم طریقے سے بیان کرنے کا سلیقہ بخشا ہے۔ وہ لفظ اور معانی کے باہمی رشتے سے واقف ہیں جس کو سمجھے بغیر تحریر میں تاثیر پیدا ہوتی ہے نہ ابلاغ ممکن ہوتا ہے۔ بحیثیت کالم نگار‘ ہم ان کے جوہر سے واقف ہیں لیکن یہ کتاب بتاتی ہے کہ وہ ایک مقدمے کو پوری علمی شان کے ساتھ بیان کرنے میں بھی پوری مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے یہ مقدمہ مستحکم ہوتا ہے کہ قانون‘ سماجی علوم اور ادب کے مطالعے کے بغیر تحریر میں پختگی آتی ہے نہ زورِ قلم ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس کتاب کی طباعت میں جس خوش ذوقی کا مظاہرہ کیا گیاہے‘ وہ بھی لائقِ تحسین ہے۔
کتاب پڑھنے کے بعد‘ ہمیں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ محض چھ ماہ میں اس کے دو ایڈیشن کیسے چھپ گئے۔ اس سے یہ خوش گوار حیرت بھی ہوتی ہے کہ یہاں سنجیدہ قاری ابھی موجود ہے۔ اہلِ قلم پر ایسے قارئین کا حق ہے کہ ان کی ذوق کی تسکین کا سامان کرتے رہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved