تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     23-02-2023

صدرِ مملکت‘ الیکشن کمیشن اور انتخابات

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کے حوالے سے ملاقات اور مشاورت کرنے کے لیے جو خط لکھا تھا‘ الیکشن کمیشن نے پیر کے روز اُس کے جواب میں مشاورت سے انکار کرتے ہوئے جوابی خط میں لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت تحلیل شدہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ گورنر دے سکتا ہے صدر نہیں‘ الیکشن کمیشن نے آئین کی مذکورہ شق کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز کو خط لکھا اور دونوں گورنرز نے تاحال الیکشن کے لیے تاریخ نہیں دی‘ اور یہ کہ دونوں صوبوں میں عام انتخابات سے متعلق معاملات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے مشاورت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد صدرِ مملکت نے دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 9اپریل کو کروانے کا اعلان کردیا تھا۔ تاریخ کا اعلان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57(ون) کے تحت کیا گیا۔
بادی النظر میں دیکھا جائے تو آئین کے آرٹیکل 48‘ 224اور 224اے کے تحت صدرِ مملکت قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے لیے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57کے تحت مشاورت کر سکتے ہیں لیکن آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کی خودمختاری کی پالیسی کے تحت یہ اختیار گورنر کو دیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 105کے تحت بھی یہ اختیارات گورنر کو تفویض کیے گئے ہیں لہٰذا صدرِ مملکت صوبائی اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ دینے کے آئینی طور پر مُجاز نہیں اور الیکشن کمیشن کے پاس بھی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے گورنر کے بجائے صدر سے مشاورت کے اختیارات نہیں ہیں۔ اس تناظر میں صدرِ مملکت کا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے لیے مدعو کرنا آئینی طور پر درست نہیں سمجھا جا رہا۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی ایک مدبر سیاستدان ہیں‘ لیکن اُن کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کو لکھا گیا خط ان کے شایانِ شان نہیں۔ مذکورہ خط سے الیکشن کمیشن کی آزادانہ اور خود مختار حیثیت بھی کمپرومائز ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت صرف الیکشن کمیشن ہی ملک میں انتخابات کرانے کا ذمہ دار ادارہ ہے اور کوئی محکمہ‘ کوئی ادارہ یا حکومت اسے الیکشن کے حوالے سے ہدایات جاری کرنے کی مُجاز نہیں۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت وفاق‘ پارلیمنٹ‘ صوبائی اسمبلیاں یا پھر کوئی اور ادارہ الیکشن کمیشن کے اختیارات کم کرنے کے لیے قانون سازی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا صدرِ مملکت کا الیکشن کمیشن کے نام مذکورہ خط آئین کے آرٹیکل 218‘ 219‘ 222‘ اور 237کی روح سے متصادم تصور کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن صدرِ مملکت کے مذکورہ مشاورتی خط کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 156 کے تحت چیلنج کر سکتا ہے۔صدرِ مملکت تمام آئینی اداروں کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں‘ انہیں خان صاحب کو بھی ان کے اس رویے پر جو انہوں نے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ کے خلاف اپنا رکھا تھا‘ اسی انداز میں خط لکھ کر اداروں کا تقدس ملحوظ خاطر رکھنے کا پابند بنانا چاہیے تھا۔ خان صاحب اقتدار سے الگ ہونے سے بھی پہلے سے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ صدرِ مملکت نے مگر اس دوران خان صاحب کی توجہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10کی طرف متوجہ نہیں کرائی کہ وہ آئینی اداروں کی حیثیت کا خیال کرتے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا آرڈر معطل کردیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ پنجاب میں تقرر و تبادلے کا معاملہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے‘ نگران حکومت پنجاب کی جانب سے تقرر و تبادلے کا معاملہ 5 رکنی لارجر بینچ کو بھیج رہے ہیں۔ واضح رہے کہ 5نومبر کو وفاقی حکومت نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو معطل کردیا تھااور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وفاق کی جانب سے معطلی کے باوجود غلام محمود ڈوگر نے عہدے کا چارج نہیں چھوڑا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب بھی اُنہیں اسی عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے اور اُن کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کے خواہاں نہیں تھے‘ جبکہ غلام محمود ڈوگر نے بھی اپنی معطلی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی تھی؛ تاہم بعد میں یہ معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا تھا جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے غلام محمود ڈوگرکو واپس عہدے پر بحال کیا تھا۔گزشتہ ماہ 23 جنوری کو ایک بار پھر پنجاب میں نگران حکومت کے قیام کے بعد غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ اب الیکشن کمیشن کو ان کی موجودگی میں لاہور میں قومی اسمبلی کے ضمنی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب کرانے کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ ابھی تو سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ جاری ہوا ہے‘ الیکشن کمیشن کو اس پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا استحقاق حاصل ہے۔
اُدھر ایک ایسی آڈیو لیک ہوئی ہے جس کا لب لباب یہ تھا کہ الیکشن کمیشن پر انتخابات کی تاریخ کیلئے ہر ممکن دباؤ ڈالا جائے جبکہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218(3)‘ 222 اور 237کے تحت اپنے تمام تر اختیارات کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آزادانہ‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انتظام کرے‘ انتخابات انصاف و قانون کے تقاضوں کے مطابق کروائے اور ممکنہ بدعنوانیوں کا سدباب کرے۔
دوسری طرف رواں ہفتے کے آغاز میں لاہور ہائیکورٹ نے تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی جبکہ تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی؛ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیشی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 28 فروری کو بینکنگ کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کر دی ہے۔ بینکنگ کورٹ نے گزشتہ ہفتے عمران خان کی حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں اسی روز عدالتی اوقات تک عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیاتھا؛ تاہم بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بینکنگ کورٹ کو 22فروری تک سابق وزیراعظم کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا تھا۔
خان صاحب اس وقت مختلف مقدمات کی گرداب میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ خان صاحب کے خلاف چلنے والے کیس اب بین الاقوامی میڈیا میں بھی زیرِ بحث آ چکے ہیں کہ کیا خان صاحب ان کیسوں میں نااہل ہو سکتے ہیں۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق خان صاحب اپنے خلاف چلنے والے کیسوں کو لے کر پریشان ہیں اور اپنے سیاسی مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عمران خان نے جولائی2018ء کے انتخابات میں پانچ حلقوں سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی میں ٹیریان وائٹ کا ذکر نہیں کیا۔ اس کیس میں اگر عمران خان عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو الیکشن ایکٹ کی شق 137اور 167 اور آئین کے آرٹیکل 62(ون) اور 58(2)کی زد میں آ سکتے ہیں۔ خان صاحب گزشتہ روز لاہور سے جیل بھرو تحریک کااعلان بھی کر چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اُن کا یہ بیانیہ اُنہیں انتخابات کی تاریخ دلوا پائے گا یا باقی بیانیوں کی طرح دب جائے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved