کل گیارہ ستمبر 2013ء کا دن تھا۔ بارہ برس قبل اسی دن نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ اس کی کوکھ سے جنگ، موت، آگ اور قتل و غارت نے جنم لیا۔ وحشت کا ایک ایسا کھیل شروع ہوا جو آج تک رکنے میں نہیں آرہا۔ نائن الیون کو جواز بنا کر جنگی جنون میں مبتلا امریکہ نے ہزاروں میل دور سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین افغانستان پر جو جنگ مسلط کی وہ سادہ لفظوں میں محض بہادر افغانوں کے خلاف نہ تھی بلکہ امریکہ کی وار سٹریٹیجی کا حصہ تھی جس پر عمل کرکے وہ خطے میں اپنی فوجی چھائونیاں قائم کرنے کا جواز ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ آج اس جنگ کے شعلے پاکستان کے گلی کوچوں تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پر بدامنی اور وحشت کا ایک بھیانک رقص ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ میرے ہی دو شعر ہیں: بے انت خامشی میں کہیں ایک صدا تو ہے ماتم ہوائے شہر نے اب کے کیا تو ہے بے چہرہ لوگ ہیں کہیں بے عکس آئینے گلیوں میں رقص کرتی ہوئی بددعا تو ہے بارہ برس بعد امریکہ افغانستان سے واپس جانے کا پروگرام بنا چکا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا درست ہے کہ امریکی فوج مکمل طور پر کبھی اس خطے سے نہیں نکلے گی کیونکہ اس طرح امریکہ کا اربوں ڈالر جنگ میں جھونکنے کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔ امریکہ کی آرمڈ انڈسٹریل کمپلیکس کے کرتا دھرتا، پالیسی سازوں اور تھنک ٹینکس میں موجود شاہ دماغوں کو انسانوں کا خون لگ چکا ہے۔ گمان گزرتا ہے کہ بظاہر انسانی صورتوں میں یہ خون آشام بھیڑیے ہیں یا پھر ان کے جینز کوڈ (Genes Code) تبدیل ہوچکے ہیں‘ ان کے جینز میں بگاڑ کا عمل (Gene Mutation) پیدا ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ان کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ایک امریکی جان سے چلا جائے تو پورے امریکہ میں بھونچال آجاتا ہے مگر یہاں ہزاروں بے گناہ معصوم بچے، عورتیں، بزرگ، جواں، امریکی ڈیزی کٹر بموں، کلسٹر بموں اور ڈرون حملوں میں مارے جاتے ہیں لیکن انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہدف کے ساتھ بے گناہوں کے خون کو امریکی جنگی اصطلاح میں Colateral Damage کہہ کر انسانیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ امریکہ کی آرمڈ انڈسٹری مہلک سے مہلک جنگی ہتھیار تیار کرتی ہے اور پھر ان ہتھیاروں کے استعمال کے لیے کبھی ویت نام، کبھی عراق، کبھی افغانستان پر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔ ہر بار کسی نئے ہتھیار کو بے گناہوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جنگ امریکی پالیسی سازوں کے لیے ایک شغل ہے۔ افغانستان کی جنگ میں روبوٹک ائیر کرافٹ ڈرون کا استعمال آج بھی بے گناہوں کے جسموں کو چیتھڑوں میں بدل رہا ہے۔ ڈرون حملے صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ پاکستان کی سرزمین بھی ان کی زد میں ہے۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں بے گناہ مارے جاتے ہیں تو دوسری طرف ان حملوں کے ردعمل میں خودکش بمباروں کی ایک پوری فوج تیار ہوچکی ہے۔ آئے دن خود کش حملوں میں پاکستانی مارے جاتے ہیں۔ امن و امان اور تحفظ کا احساس ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس جنگ نے پاکستان کے معاشرتی اور سماجی تانا بانا مسخ کردیا ہے۔ لوگوں کی نفسیات بدل چکی ہے۔ ذہنوں میں عدم تحفظ کے احساس نے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ دہشت گردی کی روک تھام میں بنیادی عنصر پاکستان کی سرزمین پر ہونے والی ڈرون حملوں کی صورت میں ہونے والی امریکی جارحیت کو روکنا ہوگا۔ اس حوالے سے بہت صائب رائے سامنے آئی کہ پاکستان ڈرون حملوں کے ایشو کو اقوام متحدہ میں لے کر جائے اور اسے جنگی جرم قرار دلوائے۔ پاکستان کی سرزمین پر سب سے پہلا ڈرون حملہ 23جنوری 2009ء کو ہوا جس میں ملک گلستان خان اپنے تین بیٹوں اور ایک بھتیجے سمیت مارا گیا۔ گلستان خان نہ صرف اپنے قبیلے کا سربراہ تھا بلکہ وہاں کی مقامی امن کمیٹی کا سردار بھی تھا۔ کسی قبیلے کا سردار اپنے جوان بیٹوں کے ساتھ بے گناہ مارا جائے اور پھر اس بہیمانہ قتل کا مقدمہ بھی کہیں درج نہ ہوسکے تو ذرا سوچیں کہ پیچھے رہ جانے والے غم سے نڈھال خاندان اور قبیلے والوں میں غم و غصے اور ردعمل میں شدت کتنی ہوگی۔ یقینا یہ ایک فطری عمل ہوگا۔ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو روندتے ہوئے ڈرون حملوں کی داستان کا یہ پہلا باب تھا جو پاکستان کی سرزمین پر لکھا گیا اور آج تک اس کا کوئی حل سامنے نہیں آسکا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ امریکہ کی آشیرباد سے حکمرانی کرتے ہوئے ہمارے حکمران اسمبلی کے ایوانوں میں، عوام کے دبائو میں آ کر ان ڈرون حملوں کی مذمت ضرور کرتے رہے ہیں مگر اندر خانے مک مکا کی سی کیفیت رہی۔ مذمت بھی ہوتی رہی اور ڈرون حملے بھی ہوتے رہے: ؎ کچھ اپنے شہر کا قاتل بھی بے مروت تھا کچھ اپنے عجز نے بھی حوصلہ دیا اسے اب جبکہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے واقعتاً ٹھوس اقدامات کرنے پر آمادہ ہے‘ تو یہ ضروری ہے کہ ڈرون حملوں کے ایشو کو عالمی فورم پر اٹھایا جائے۔ یہ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کا معاملہ ہے۔ آج امریکہ شام کے کیمیائی حملوں میں مارے جانے والے 1300 بے گناہوں کے قتل کو جنگی جرم کہہ رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جان کیری بار بار کہتے ہیں کہ شام نے کیمیائی ہتھیار استعمال کرکے سرخ لائن عبور کی ہے‘ دُنیا جس کی اجازت اسے نہیں دے گی۔ اس کے مقابلے میں دیکھیں تو ڈرون حملوں میں صرف پاکستان میں 53000 جانیں موت کے منہ میں جا چکی ہیں۔ کیا پاکستان اس کو بنیاد بنا کر عالمی عدالت میں نہیں جا سکتا؟ مانا کہ اقوام متحدہ بھی امریکہ بہادر ہی کا ذیلی ادارہ ہے مگر اتنا تو ہوسکتا ہے کہ ایک مضبوط خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا کی جنگ مخالف تنظیموں کی حمایت حاصل کرکے امریکہ پر اخلاقی دبائو ہی ڈالا جائے۔ اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی حمایت حاصل کی جائے تو یقیناً ڈرون حملوں کا سد باب ممکن ہے۔ اس کے لیے مضبوط اور مربوط حکومتی پالیسی کی ضرورت ہے‘ اسی سے ایک آزاد اور مضبوط خارجہ پالیسی وجود میں آئے گی۔ اس وقت امریکہ کے جنگی جنون کو خود امریکہ کے اندر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ امریکہ کو شام پر حملے کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے دشواری کا سامنا ہے۔ آج امریکہ کا بچہ بچہ جنگ مخالف مہم میں شریک ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس سازگار فضا سے فائدہ اٹھا کر عالمی فورمز پر امریکی جنگی جنون کے خلاف آواز اٹھائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved