ملک میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے‘ مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے دس مہینوں میں ڈالر کی قیمت جس طرح بڑھی ہے اور آئی ایم ایف کے سامنے جیسے گھٹنے ٹیکے گئے ہیں‘ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔ پی ڈی ایم کی دس‘ گیارہ ماہ کی حکومت کے دوران ڈالر کے ریٹ میں پچاسی روپے سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دور میں ڈالر کی قیمت میں پچاس روپے اضافہ ہوا تھا ۔ تحریک انصاف کے دور میں مہنگائی تقریباً بارہ فیصد تھی جبکہ آج مہنگائی چالیس فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔ گیارہ ماہ پہلے شرحِ سود تقریباً نو فیصد تھی جو آج بڑھ کر سترہ فیصد ہو چکی ہے۔ پچھلے دس ماہ میں تقریباً ستر فیصد ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے دور میں کئی سالوں سے بند ملوں نے دوبارہ کام شروع کر دیا تھا۔ 2020ء سے 2022ء تک ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کو بارہ ارب پچاس کروڑ ڈالرز سے بڑھا کر انیس ارب پچاس کروڑ ڈالر تک پہنچایا گیا جبکہ پچھلے گیارہ ماہ میں برآمدات میں تقریباً 8 فیصد سے زائد کمی آ چکی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں تقریباً تمام چھوٹے بڑے ایکسپورٹرز کو کارکردگی اور کپیسٹی بڑھانے کے لیے سستے قرضے دیے گئے۔ فیکٹری مالکان نے اربوں ڈالرز کی نئی مشینری لگائی جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ بین الاقوامی مارکیٹ سے مقابلہ کرنے کے لیے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لیے بجلی اور گیس کے ریٹ بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے برابر یا کم کیے گئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بڑے ٹیکسٹائل آرڈرز ہمسایہ ممالک کے بجائے پاکستان کو ملے جبکہ آج پاکستان کے ٹیکسٹائل آرڈرز بھی بنگلہ دیش اور چین کو مل رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں کسانوں کی حالت بہتر کرنے کیلئے مختلف پیکیجز اور سکیمیں لانچ کی گئیں۔ انہیں سود سے پاک قرض دیے گئے‘ فصلوں کی انشورنس پر پریمیم دیے گئے‘ اربوں روپوں کی سبسڈی دی گئی‘ زرعی مشینری خریدنے کیلئے ساٹھ فیصد تک سبسڈی دی گئی۔ بہترین قدم یہ اٹھایا گیا کہ سبسڈی کسانوں کے بینک اکائونٹس میں براہِ راست جمع کرائی گئی تا کہ انہیں رقم ملنے میں تاخیر نہ ہو اور پوری رقم ان تک پہنچ سکے۔ ہزاروں ایکڑ کی بنجر سرکاری زمین کسانوں کو کاشت کیلئے دی گئی جس سے ان کی آمدن میں اضافہ ہوا۔ کسانوں نے بھی ان سہولتوں کا درست استعمال کیا‘ بہتر کارکردگی دکھائی اور ملک میں تمام بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی۔
اس کے علاوہ صحت کارڈ نے بھی عام آدمی کی زندگی بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کارڈ کے ذریعے سالانہ فی گھرانہ دس لاکھ تک علاج بالکل مفت کرانے کی سہولت دی گئی۔ انجیو پلاسٹی، برین سرجری اور کینسر سمیت کئی بیماریاں اس کارڈ میں شامل کی گئیں۔ سرکاری ہوں یا نجی ہسپتال‘ تمام علاج مفت کرانے کی سہولت دی گئی۔ تقریباً ایک سو پچاس سے زیادہ ہسپتالوں کو پینل میں شامل کیا گیا۔ صحت کارڈ ایک زبردست پروگرام ہے، خصوصاً غریب لوگوں کیلئے جن کو مالی تحفظ کی ضرورت ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پی ڈی ایم سرکار نے کئی اضلاع میں اس منصوبے کو یا تو ختم کر دیا ہے یا محدود کر دیا ہے۔ کم وسائل کے باوجود ہیلتھ کارڈ منصوبہ کامیابی سے چلانے پر عمران حکومت کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی کیونکہ جو سہولتیں اس کارڈ میں دی گئیں وہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں دی جاتیں۔ اس منصوبے نے ثابت کیا کہ پاکستانی معیشت میں اتنی طاقت موجود ہے کہ بہتر حکمت عملی کے ذریعے یہ ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ہائوسنگ کے شعبے میں بہت کام ہوا۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے کم آمدن والے طبقے کیلئے سستے مکانات کا وعدہ کیا تھا۔ اس منصوبے کیلئے 'نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘ قائم کی گئی اور ابتدائی مرحلے میں سات شہروں میں مکانات کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ حکومت نے آسان گھر سکیم کے تحت بینکوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی ترغیب دی اور 20 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کے قرضے مختلف مدت کے لیے فراہم کیے گئے۔ موجودہ حکومت نے یہ پروگرام بند کر دیا ہے۔ کنسٹرکشن کے ساتھ تقریباً پچاس سے زائد صنعتیں جڑی ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف حکومت نے جو کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم پیش کی اس نے ملکی معیشت کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک اندازے کے مطابق دوایمنسٹی سکیموں سے جتنے پروجیکٹس شروع ہوئے‘ اتنے ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے۔ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم بھی بہترین شروعات تھی جس سے روزگار ملنے اور ایکسپورٹس بڑھنے کے امکانات پیدا ہوئے لیکن پھر حکومت بدل دی گئی اور اس کی قیمت آج ملک کے عوام چکا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں بلین ٹری منصوبے نے بھی عالمی پذیرائی حاصل کی۔ اقوام متحدہ اور ورلڈ اکنامک فورم جیسے اداروں نے اس منصوبے کو سراہا۔ جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور سعودی عرب جیسے ممالک نے اس طرح کے منصوبے اپنے ہاں شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کی وجہ سے پاکستان عالمی منظر نامے پر کافی نمایاں ہوا۔ سیاحت کے معروف امریکی جریدے 'کونڈے ناسٹ ٹریولر‘ نے پاکستان کو 2020ء میں سیاحت کیلئے دنیا کا بہترین ملک قرار دیا۔ اس سے سیاحت میں اضافہ ہوا اور ڈالرز کی صورت میں زرمبادلہ پاکستان آیا۔
روشن ڈیجیٹل اکائونٹ بھی تحریک انصاف کے بہترین معاشی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس منصوبے میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ملکی بانڈز اور سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کے بدلے ڈالرز میں منافع دیا گیا۔ بعض پروڈکٹس پر یہ منافع آٹھ فیصد سے بھی زیادہ تھا۔ اس منصوبے سے بیرونِ ملک پاکستانیوں سے پانچ ارب ڈالرز سے زیادہ ترسیلاتِ زر منگوائی گئیں۔ تحریک انصاف نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے بھی کوششیں کیں۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اکثریت تحریک انصاف کو ہی اپنی نمائندہ جماعت سمجھتی ہے‘ اسی لیے پی ٹی آئی حکومت کے دوران روشن ڈیجیٹل اکائونٹس اور ڈالرز کی آمد میں بھرپوراضافہ ہوا لیکن موجودہ دور میں روشن ڈیجیٹل اکائونٹس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو موجودہ حکومت پراعتماد نہیں ہے۔ عمران خان کی جانب سے ملک میں حج کو ملائیشیا کے تابونگ حاجی پروگرام کی طرز پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیاجس کے تحت کوئی بھی شخص حج فنڈ میں اکائونٹ کھول کر اور تھوڑی سی رقم جمع کرا کر چند سالوں میں حج کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ حکومت حج فنڈ کی رقم حلال منصوبوں میں انویسٹ کر کے حاصل شدہ منافع کو صارفین کے اکائونٹس میں منتقل کرے گی۔ اس منصوبے پر قانون سازی تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ یہ منصوبہ ایک طرف حج کی استطاعت نہ رکھنے والے افراد کو صاحبِ استطاعت بنا سکتا ہے اور دوسری طرف کھربوں روپے جیبوں سے نکل کر بینکنگ سسٹم میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس سے روزگار بھی پیدا ہو گا اور ملکی معیشت بھی تیزی سے پھل پھول سکے گی۔ اس کے علاوہ پنشن فنڈز کی سرمایہ کاری میں بھی تحریک انصاف نے ملائیشین ماڈل کو فالو کیاجس کے بہتر نتایج سامنے آئے۔
غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کے سلسلے میں عمران حکومت نے 'احساس پروگرام‘ کے تحت 31 نکاتی ایجنڈے کے ذریعے115 پالیسی منصوبے پیش کیے۔ ان منصوبوں میں اثاثہ جات، بلاسود قرضوں کی فراہمی اور ہنرسازی کے پروگرام کے ساتھ پناہ گاہ اور شیلٹر ہومز کا بھی ایک منصوبہ شامل تھا جس کے تحت وفاقی دارالحکومت، خیبرپختونخوا اور صوبہ پنجاب کے چند شہروں میں بے سہارا اور غریب افراد کیلئے 'پناہ گاہ مراکز‘ کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے نے بے گھر اور لاوارث عوا م کا معاشی بوجھ کم کیا۔ کورونا کے دنوں میں پاکستانی معیشت کو جس طرح سنبھالا گیا‘ اس کی بھی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کورونا میں دنیا کے بیشتر ممالک معاشی بحران کا شکار ہو گئے لیکن پاکستان کی شرحِ نمو بڑھی ۔ انہی اقدامات کی وجہ سے تحریک انصاف کے دور میں شرحِ نمو چھ فیصد سے بھی بڑھ گئی تھی اور فی کس جی ڈی پی 1798 ڈالر تک پہنچ گئی، ڈالر ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک گئے۔ پچھلے سال مارچ میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ انڈسٹریز کی کارکردگی تقریباً 27 فیصدتھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس نے پچھلے تمام ریکارڈز توڑ دیے تھے جس کا مطلب ہے کہ اگر لیڈر شپ اور وژن صحیح ہوتو پاکستانی قوم مشکل حالات سے بآسانی نکل سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved