تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     24-02-2023

ارشد شریف کی سالگرہ اور ہم

مرحوم ارشد شریف کی سالگرہ 22 فروری کو ہوتی تھی۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس سال ان کی 50ویں سالگرہ منائی جاتی لیکن وہ چلے گئے۔ جانا تو ہم سب نے ہے لیکن ارشد کی ناگہانی موت نے ہم سب کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کسی کے ساتھ بھی ایسا ظلم بہت تکلیف دہ ہے۔ ہم ان کی وطن واپسی کے منتظر تھے کہ وہ جلد واپس آنے والے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا ، وہ واپس تو آئے مگر تابوت میں! شاید ہمارا صبر اور انتظار اللہ تعالیٰ کو پسند آگیا ہے اور ہمیں تاقیامت صبر کا سہارا دے دیا گیا ہے۔ ارشد اپنی دھن کے پکے تھے اور اپنا کام پورے شوق اور دلجمعی سے کرتے تھے۔ کسی چیز پر اگر وہ طے کرلیتے کے سٹینڈ لینا ہے تو وہ اس چیز پر قائم رہتے تھے‘ کوئی بھی ان کو اس موقف سے ہلا نہیں سکتا تھا۔ میں کبھی ان کے کام میں دخل نہیں دیتی تھی اور وہ بھی میرے کام میں دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔ مجھے کبھی کبھی بہت حیرانی ہوتی تھی کہ شاید کسی ٹویٹ یا آرٹیکل پر وہ مجھے ڈانٹ دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ویسے وہ بہت رعب دار شخصیت کے مالک تھے؛ تاہم بہت انصاف پسند تھے۔ مجھے کبھی کوئی چیز خود سے مانگنا نہیں پڑی۔ وہ بولنے سے پہلے ہی تمام فرمائشیں پوری کردیتے تھے۔ ان کو پتا تھا کہ شاپنگ میری کمزوری ہے۔ میں بہت زیادہ کپڑے‘ جوتے‘ بیگز اور جیولری لیتی تھی۔ یہ شوق مجھے بچپن سے تھا۔ میرے والدین نے بھی میری ہر خواہش پوری کی۔ ارشد بھی ویسا ہی کرتے۔ میں اکثر رات کو آن لائن مختلف چیزوں کے آرڈر دیا کرتی۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے: کیا کیا خرید لیا ہے؟ آن لائن شاپنگ والوں کا بزنس تمہاری وجہ سے خوب چل رہا ہے۔ میں نے ان کو بھی آن لائن شاپنگ سکھائی تھی مگر وہ آن لائن صرف کتابیں خریدتے تھے۔ بعد میں کچھ گیجٹس بھی آن لائن خریدنا شروع کر دیے۔ چونکہ وہ ایک مشہور و معروف شخصیت تھے، لہٰذا ہم مارکیٹ نہیں جاپاتے تھے۔ اس لیے گروسری اور ادویات تک آن لائن منگوالیتے تھے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم پہلی بار کھانے پر ملے تو وہ کھانے کے بعد ایک بک شاپ پہ گئے اور میں اس کے ساتھ موجود ایک جوتوں کی دکان پر۔ اس پر انہوں نے کہ جیا! آپ کی ترجیحات واضح ہیں۔ میں نے کہا: بالکل! اس پر انہوں نے ایک چھوٹا سا بیگ گفٹ کیا، جس میں قائد اعظم کے اقوال پر مشتمل ایک کتاب تھی۔ یہ ان کی طرف سے ملنے والا پہلا تحفہ تھا۔ دوسرا تحفہ انہوں نے مجھے ایک پرفیوم دیا تھا جو آج تک میرے پاس موجود ہے۔ اس کے بعد بھی انہوں نے مجھے بہت سی کتابیں تحفے میں دیں۔ وہ چلے گئے مگر ان کی اور میری‘ ہزاروں کتابیں لائبریری میں پڑی ہیں۔ اب میں اکثر ان کی کتابیں پڑھتی ہوں۔ ان کے اور میرے موضوعات یکسر الگ تھے لیکن اب ان کی چیزوں سے ان کے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اس لیے میں اب وہ سب بھی کرتی ہوں جو پہلے نہیں کرتی تھی۔
ارشد کو سالگرہ منانے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ ان کو کیک بھی نہیں اچھے لگتے تھے لیکن میں پھر بھی ہر سال ان کی سالگرہ مناتی تھی۔ وہ بھی شرماتے‘ مسکراتے اور نہ چاہتے ہوئے کیک کاٹ لیتے۔ میں سارے خاندان کو مدعو کرتی تھی۔ وہ اکثر کہتے کہ بنا کیک کاٹے ہی سالگرہ منا لیں لیکن میں کہتی کہ نہیں! آپ کو کیک کاٹنا ہوگا۔ پھر مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بات تھی جو ان کو دکھ دیتی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ سالگرہ پر اداس کیوں ہوتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میری نانی اماں ہمیشہ میری سالگرہ کاخوب اہتمام کرتی تھیں‘ ان کے جانے کے بعد میرا دل نہیں کرتا اپنی سالگرہ منانے کا۔ ان کی نانی اماں کا ان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر تھا۔ وہ اکثران کے پیار کو یاد کرتے تھے۔ گاہے گاہے ان کی باتیں بتاتے اور تصاویر دکھاتے تھے۔ وہ بہت شفیق اور بہت پیاری تھیں‘ جیسے کوئی گڑیا ہو۔ ارشد کے سارے کام وہ اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔
ارشد ہر سال اپنی سالگرہ پر ڈنر پر دوستوں کو مدعو کرتے یا دوست ان کو کہیں باہر بلالیتے لیکن روایتی سالگرہ سے وہ دور بھاگتے تھے۔ ان کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ انہیں سب کی سالگرہ یاد رہتی تھی۔ وہ آئے دن مجھے کہتے کہ فلاں رشتہ دار کو کیک‘ پھول اور پرفیوم بھیج دو۔ وہ خود اگر کسی کو تحفہ دیتے تو زیادہ تر پرفیوم اور پھول ہی دیتے تھے۔ میرے پاس جتنے بھی پرفیومز ہیں‘ سب ان کی طرف سے مختلف مواقع پر تحفے کے طور پر دیے گئے۔ اپنی والدہ کے لیے وہ ہمیشہ سوٹ خریدتے تھے اور اپنی پسندیدہ خالہ کیلئے پرفیوم۔ اس معاملے میں وہ اکثر مجھ سے مشورہ کرتے کیونکہ ان دونوں کو وہ ہمیشہ سب سے خوبصورت چیز دینے کے خواہاں ہوتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ اپنے گھروالوں کی سالگرہ بھول گئے ہوں۔ گزشتہ سال پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ اپنی والدہ کی سالگرہ اور ہماری شادی کی سالگرہ پر ملک میں نہیں تھے؛ تاہم ان حالات میں بھی اُن کو یاد تھا۔ ان کا فون آیا‘ مجھے پوچھا کہ تمہیں کیا چاہیے؟ میں نے کہا: مجھے وہ کیمرا چاہیے جس سے فوری تصویر نکل آتی ہے یعنی پولرائیڈ کیمرا۔ وہ بہت دیر تک ہنستے رہے کہ یہ کیسی فرمائش ہے‘ تمہیں کھلونے جیسا کیمرا کیوں چاہیے حالانکہ تمہارے پاس پروفیشنل کیمرا ہے۔ میں نے کہا: بس یہی میری فرمائش ہے۔ کہنے لگے: ٹھیک ہے‘ میں لیتا آئوں گا۔ مگر وقت نے مہلت نہیں دی۔عام طور پر وہ کسی ٹرپ پر جاتے تھے تو میں زیادہ فرمائش نہیں کرتی تھی کیونکہ بہت سے مردوں کی طرح‘ ان کو بھی خواتین کے لیے شاپنگ نہیں کرنا آتی تھی؛ تاہم اس بار اتنے ماہ ہوگئے تھے کہ وہ ملک سے باہر تھے لہٰذا میں نے ان سے یہ فرمائش کر لی اور یہی وہ واحد فرمائش تھی جو وہ پوری نہیں کرسکے کیونکہ ان کو ہم سے چھین لیا گیا۔
22 فروری کو جب ان کی سالگرہ آتی تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ میں کیا کروں‘ ان کیلئے زیادہ تر پرفیومز‘ کف لنکس‘ شرٹس اور ٹائیز خریدتی تھی، گھر پھولوں سے سجاتی تھی، موم بتیاں جلاتی تھی اور کیک اور پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ اس بار وہ نہیں تھے مگر مجھے سب نے فون کرکے ان کی سالگرہ کی مبارکباد دی۔ نازیہ میمن میرے ساتھ ہی تھی‘ وہ بھی رو رہی تھی اور میں بھی۔ میرے امی‘ ابو نے کہا کہ کیک کاٹنے سے بہتر ہے کہ ہم ارشد کے ایصالِ ثواب کیلئے قرآنِ پاک پڑھیں۔ میرے امی‘ ابو اور ساس‘ سبھی ضعیف العمر اور صدمے سے نڈھال ہیں۔ سب لوگ ہر وقت روتے رہتے ہیں اور بیمار رہنے لگے ہیں۔ جانے والوں کی یاد میں کیک کاٹنے یا موم بتیاں جلانے سے بہتر ہے کہ ہم قرآنِ پاک پڑھیں‘ صدقات و خیرات کریں‘ ان کی مغفرت کیلئے دعا کریں؛ تاہم جنہوں نے ارشد کی سالگرہ منائی‘ ان کے لیے کیک کاٹے‘ ان سب کا شکریہ! پہلے صرف میں ان کی سالگرہ مناتی تھی‘ اب پوری پاکستانی قوم ان کی سالگرہ مناتی ہے۔ اس بار ان کی قبر پر بھی بہت رش تھا۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملے‘ تعزیت کی۔ لوگ ارشد کیلئے پھول اور اگربتیاں لارہے تھے‘ ان کے ایصالِ ثواب کیلئے سورہ یٰسین پڑھ رہے تھے۔ میں کچھ دیر کے لیے پیچھے ہٹ گئی تاکہ لوگ تصاویر اور وڈیو بناسکیں۔ پھر سب کے جانے کے بعد میں نے ارشد سے بہت سی باتیں کیں‘ شکایتیں لگائیں‘ ان کو بتایا کہ کیسے لوگوں نے میری کردارکشی کی‘ مجھ پر بہتان لگائے۔ میں نے کہا کہ وہ میرے لیے دعا کریں۔ ان شاء اللہ ارشد تو اب پہلے سے بہت بہتر جگہ پر ہیں لیکن میں تو اس معاشرے میں رہتی ہوں جہاں ایک بیوہ پر بھی بہتان تراشی کی جاتی ہے۔ یقینا ارشد اگر زندہ ہوتے تو میرے ساتھ یہ سلوک نہ ہوتا لیکن اب وہ نہیں ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے۔ ان کی سالگرہ پر میں سارا دن سوچتی رہی کہ ہم نے ایسا کیا کیا تھا کہ ہمارے ساتھ یہ کیا گیا ۔وہ قوم کا بیٹا تھا‘ میں قوم کی بیٹی ہوں‘ کیا زندہ قومیں سچ بولنے والوں کو اس طرح نشانِ عبرت بناتی اور ان کی بیوائوں کو زندہ درگور کردیتی ہیں؟ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘ صرف ارشد کیلئے انصاف چاہیے۔ میرا بسا بسایا گھر اجڑ گیا‘ سر کا سائبان چلا گیا اور ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ وقت گزرتا جارہا ہے اور ہماری تکالیف بڑھتی جارہی ہیں۔
اس سال ارشد کی سالگرہ کا دن بہت مشکل اور طویل تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ صبر کیسے کیا جائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت مرہم ہوتا ہے لیکن یہ بات شاید درست نہیں کیونکہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ ہماری تکالیف اور دکھوں میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جن لوگوں نے ارشد کی سالگرہ منائی‘ انہیں یاد رکھا‘ ٹویٹس کیے‘ ان سب کا شکریہ! مگر سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کرکے مرحوم کی روح کو بخشا جائے اور اس کے انصاف کیلئے آواز اٹھائی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved