تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-02-2023

آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، مگر …

ملک کا مالیاتی بحران ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اِتنا بھی ہوتا تو رو دھوکر چپ ہو رہنے میں عافیت محسوس کی جاسکتی تھی مگر یہاں تو مشکل یہ ہے کہ یہ بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ حکومت اپنی سی کوششیں کر رہی ہے مگر وہ کیا کر پارہی ہے‘ یہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں جتنی بہتری آسکتی ہے، آچکی ہے۔ اِس سے زیادہ کچھ کر دکھانا اُس کے بس کی بات ہے بھی نہیں۔ اس حکومت سے عوام نے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ بھی نہیں کی تھیں۔ جن حالات میں موجودہ حکمرانوں کو اقتدار ملا تھا وہ سب کے سامنے ہیں۔ عام آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ ملک کو عالمی مالیاتی اداروں نے بری طرح گھیر لیا ہے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ اپنوں نے پوری کردی ہے۔ حکومتی صفوں اور ریاستی مشینری میں کم ہی ہیں جو ملک کا بھلا چاہتے ہیں۔ اُن کے ہاتھوں ملک کو جس نوعیت کا نقصان پہنچ رہا ہے اُس کا اندازہ اب عام آدمی کو بھی ہے اور وہ سمجھ سکتا ہے کہ معاملات محض بڑھکوں، وعدوں اور دعووں کے مرحلے میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ نیت کا اخلاص ناپید ہے۔ معاملات کو واقعی درست کرنے والی سوچ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ سب کی توجہ صرف مال بٹورنے پر ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ''مژدۂ جاں فزا‘‘ سنایا ہے کہ ابھی مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، معاونین اور مشیروں نے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزرا و معاونین کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ''ملک کے قیام کو پون صدی ہوچکی ہے مگر صاحبِ ثروت طبقے نے قربانیاں نہیں دیں۔ اب اُسے ملک کی خاطر قربانی دینا ہی پڑے گی۔ سب مل کر ملک کو مشکلات سے نکالیں گے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے پر عمل کے لیے تمام شرائط پر جامع عمل کیا جائے گا۔ بڑے کاروباری اداروں پر ٹیکس لگایا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت بعض اشیا و خدمات پر سبسڈی ختم کی جا رہی ہے۔ غریب طبقے کے لیے سبسڈی برقرار رکھی جائے گی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ کاش ایسا دن بھی آئے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن ہو‘‘۔ وزیر اعظم نے مزید بتایا کہ ''کابینہ کے ارکان گیس، بجلی اور ٹیلی فون کے بل اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ کابینہ کے ارکان سے لگژری گاڑیاں واپس لی جارہی ہیں۔ انہیں نیلام کرکے رقم قومی خزانے میں جمع کرادی جائے گی۔ ضرورت پڑنے پر وزرا کو صرف ایک گاڑی دی جائے گی۔ وزرا فضائی سفر اکانومی کلاس میں کریں گے۔ معاون عملے کو بیرونِ ملک لے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بیرونی دوروں میں وزرا مہنگے ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے۔ تمام وزارتوں، ڈویژنز، متعلقہ اداروں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ گرمیوں میں بجلی کی بچت کی خاطر دفاتر صبح ساڑھے سات بجے کھولے جائیں گے۔ وزیر اعظم ہاؤس جیسے مقامات پر مہمانوں کے لیے چائے کے ساتھ صرف بسکٹ رکھے جائیں گے۔ تمام حکومتی تقریبات میں ون ڈش سیٹ اَپ ہوگا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے کے بعد بھی کھلی رہنے والی دکانوں، تجارتی مراکز اور بازاروں کی بجلی کاٹ دی جائے گی۔ ملک کو مشکلات سے نکالنے میں مخیر افراد کو بھی اپنا کردار زیادہ تندہی سے ادا کرنا ہوگا‘‘۔
وزیر اعظم صاحب نے جو کچھ کہا ہے وہ قوم کی ضرورت کے مطابق ہے۔ ملک کو زیادہ سے زیادہ بچت کی ضرورت ہے۔ اخراجات گھٹیں گے تو معاملات قابو میں آئیں گے۔ کاروباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ بھاری بھرکم ٹیکس تو وصول کیے جارہے ہیں مگر حکومتی سطح پر ایسے اقدامات ناپید ہیں جن سے اندازہ ہو کہ ملک کو آگے لے جانے کا سوچا جارہا ہے۔ اب تک کی کیفیت یہ رہی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، بعض طبقوں کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے۔ حکمران طبقہ قربانیاں دینے میں سب سے پیچھے رہا ہے۔ جب بھی عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط پوری کرنے کی بات ہوتی ہے تو برق بے چارے عوام پر ہی گرتی ہے۔ عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کتنا، کیوں اور کب تک جھیلیں۔ اُن سے زندہ رہنے کی قیمت یوں وصول کی جارہی ہے کہ جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ حکومتی سطح پر جو اقدامات کیے جاتے ہیں اُنہیں عوام زیادہ سنجیدگی سے اس لیے نہیں لیتے کہ وہ بارہا دیکھ چکے ہیں کہ حکومتی صفوں میں ذرہ بھر بھی سنجیدگی نہیں پائی جاتی۔ عوام سے کہا جاتا ہے کہ سادگی اپنائیں، اخراجات گھٹائیں۔ عوام ایسی کون سی پُرتعیش زندگی بسر کر رہے ہیں کہ اُن سے یہ کہنا پڑے کہ اخراجات گھٹائیں۔ وہ تو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی سطح پر اٹکے ہوئے ہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کے معاملات کتنے رُلے ہوئے ہیں، یہ بات ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ دوسری طرف بنیادی سہولتیں بھی‘ اچھا خاصا بھگتان کرنے کے باوجود‘ ڈھنگ سے میسر نہیں۔ لوگ پانی، بجلی اور گیس کو یوں ترس رہے ہیں کہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم پون صدی میں یہ چند بنیادی معاملات بھی درست نہیں کرسکے۔
چند ماہ قبل جب حکومت نے دکانیں اور شاپنگ سنٹر رات ساڑھے آٹھ بجے تک بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا تب لوگوں نے اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ شادی ہال اور دیگر تقریبات کے لیے ساڑھے دس بجے کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔ دونوں ڈیڈ لائنز پر اب تک عمل نہیں کیا جارہا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات کا یقین ہی نہیں ہے کہ حکومت اور مقامی انتظامی مشینری مخلص اور سنجیدہ ہے۔ انگریزی میں کہاوت ہے کہ نیک کام کی ابتدا گھر سے ہوتی ہے۔ اخراجات گھٹانا اچھی بات ہے۔ حکومت کو ابتدا گھر سے کرنی چاہیے۔ وی وی آئی پی کلچر ختم کیے بغیر ایسا ہو نہیں سکتا۔ وفاقی کابینہ کے ارکان کی تنخواہیں اور مراعات ختم کرنا اچھی بات سہی مگر محض اِتنا کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ حکمراں طبقے کے تعیشات کچھ کابینہ کے ارکان یا منتخب ایوانوں کے نمائندوں تک محدود نہیں۔ وزیر اعظم نے جن فیصلوں کا اعلان کیا ہے وہ خوش آئند مگر اِس سے کہیں زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سطح کے سرکاری ملازمین کو بھی اخراجات گھٹانے کی مہم کا حصہ بنانا ہوگا۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وفاق میں جن کی حکومت ہے اُن کی حکومت تمام صوبوں میں نہیں۔ تمام صوبوں کو اخراجات گھٹانے کی مہم میں مساوی کردار ادا کرنے کا پابند بنانا ہوگا۔ بچت کے کسی بھی منصوبے کو جامۂ عمل پہناتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ملک بھر میں سرکاری مشینری سے وابستہ افراد کو اس مہم کا حصہ ہونا چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کا بوجھ بھی قومی و صوبائی خزانوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اس بوجھ کا اچھا خاصا حصہ بلا جواز ہے۔ عام آدمی کو محنتِ شاقہ کے باوجود کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا جبکہ اُسی کی آمدنی سے وصول کردہ ٹیکسوں کی مدد سے چلائی جانے والی سرکاری مشینری سے وابستہ افراد کہیں کم محنت کا کہیں زیادہ معاوضہ پاتے ہیں اور وہ بھی خاصی پُرکشش سہولتوں کے ساتھ۔ ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں کہ جب سرکاری مشینری کے اخراجات گھٹانے کی بات آتی ہے تو کام بند کردیا جاتا ہے، احتجاج کے نام پر انتظامی معاملات بگاڑ دیے جاتے ہیں، سٹے آرڈر لیا جاتا ہے، یہ بلیک میلنگ بند ہونی چاہیے۔ حکم نامے صرف عوام کے لیے نہیں ہونے چاہئیں، سرکاری مشینری کے پُرزوں کو بھی احکامات کا پابند کیا جائے۔ کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اگر ٹیکس چراتے ہیں تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سرکاری مشینری ہی میں سے کچھ لوگ انہیں چوری کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اِس کی روک تھام بھی ناگزیر ہے۔ شعبۂ بجلی کے متعدد ملازمین ہی ایک خاص ماہانہ رقم کے عوض کُنڈے لگواتے ہیں۔ یہ سلسلہ روکا جانا چاہیے۔ مخیر افراد کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ اُنہیں ملک کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ وہ تو اپنے حصے کا کام کرتے آئے ہیں۔جو لوگ عوام کے ٹیکس کے پیسوں‘ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے ہیں اُنہیں اُن کا فرض یاد دلانے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved