تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     25-02-2023

احسان فراموش لوگ

حال ہی میں ایک انگریزی روزنامہ میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صاحبزادی محترمہ دینا خان کا ایک بیان شائع ہوا‘ جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ''میرے والد مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 2013ء میں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ بنایا تھا تاکہ لاہور کے غریب اور حاجت مند لوگوں کو علاج کی مفت سہولت مہیا کی جا سکے۔ وہ اس ٹرسٹ کے تاحیات چیئرمین تھے۔ 2021ء میں اپنی وفات سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنا وارث مقرر کیا۔ شومئی قسمت سے چند بے اصول اشخاص‘ جن کا ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہیں‘ اب اپنے آپ کو ٹرسٹی اور منتظم ظاہر کر رہے ہیں۔ چند حکومتی کارندوں کی مدد سے ایک جعلی اور بوگس ٹرسٹ ڈیڈ بنا لیا گیا ہے اور اس کی مدد سے لوگوں سے چندہ وصول کیا جا رہا ہے۔ میرے والد کی وفات کو سولہ ماہ گزر چکے ہیں اور میں اب بھی اس غیرقانونی عمل کے خلاف جدوجہد کر رہی ہوں۔ ان لوگوں نے زبردستی ہسپتال اور ٹرسٹ کے دفتر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اربوں روپے کا چندہ بینک اکاؤنٹ سے چوری کر لیا گیا ہے۔ اپنی وفات سے پہلے میرے والد صاحب نے باقاعدہ تمام متعلقہ بینکوں کو ہدایات ایشو کی تھیں کہ تمام اکاؤنٹ تاحکم ثانی منجمد کر دیے جائیں۔ پھر بھی چند بے اصول بینکرز نے ان کرپٹ لوگوں کو جمع شدہ پیسے دے دیے۔ میرے والد صاحب نے ہسپتال میں ایک وڈیو بھی ریکارڈ کرائی تھی۔ اس وڈیو میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ میں نے چند لوگوں کو ٹرسٹ سے علیحدہ کر دیا ہے‘لہٰذا ان کی اس سلسلے میں کوئی مدد نہ کی جائے۔ یہ وڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے اور کوئی بھی اسے دیکھ سکتا ہے لیکن میری کوشش کے باوجود یہ دھوکا باز اشخاص اپنی خلافِ قانون سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ میرے والد کا نام استعمال کرکے لوگوں سے چندہ بٹور رہے ہیں اور اپنی سوشل اور روایتی میڈیا پر تشہیر کر رہے ہیں۔ میں نے اسلام آباد اور لاہور میں کئی جگہ سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کے برعکس پولیس مجھے ہراساں کرتی ہے۔ کیس التوا کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ حکومتی محکموں سے میری مدد کی اپیل کو اگنور کر دیا جاتا ہے۔ مجھ پر غلط الزام لگائے جا رہے ہیں۔ میرے والد نے اس ملک کو سکیورٹی اور تحفظ فراہم کیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہ پاکستانی عوام کی خدمت کے لیے کوشاں رہے۔ ان تمام نیک اعمال کا صلہ ہمارے سامنے ہے۔ میری تمام متعلقہ حلقوں سے درخواست ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلچسپی لیں اور اسے ہمیشہ کے لیے حل کر دیں۔ میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ٹرسٹ پر میرا جائز کنٹرول بحال کرائیں تاکہ میں اپنے والد کے کام کو جاری رکھ سکوں‘ ان لوگوں کا ناجائز قبضہ چھڑا سکوں اور ان سے مسروقہ فنڈز واپس لے سکوں۔ لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ صحیح فیصلہ ہونے تک چندہ نہ دیں‘‘۔ ڈاکٹر دینا خان اسلام آباد۔
یہ اس عظیم شخص کی بیٹی کی فریاد ہے جو نابغۂ روزگار سائنس دان تھا۔ 1974ء میں انڈیا نے Smiling Budha کے نام سے پہلا ایٹمی تجربہ کیا تو یہ سائنس دان ہالینڈ میں جاب کر رہا تھا۔ اسے فوراً احساس ہوا کہ انڈیا نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی تو میرا ملک غیر محفوظ ہو جائے گا۔ وہ فوراً خراس صاحب کے پاس گیا‘ جو 1974ء میں ہیگ میں پاکستانی سفیر تھے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نام خط لکھا کہ پاکستان آ کر ملک کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں اور یہ خط سفیر کے حوالے کر دیا۔ بھٹو صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان بلایا اور ملاقات کے بعد فیصلہ کیا کہ اس کام کا جلد آغاز کیا جائے۔ ڈاکٹر قدیر خان سے کہا گیا کہ وہ فیملی کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو جائیں۔ انہوں نے بیگم سے مشورہ کیا جو یورپی نژاد ہیں۔ ان کی اہلیہ شروع میں پاکستان آنے کے حق میں نہیں تھیں‘ ان کی دلیل تھی کہ دونوں بچیاں ہالینڈ میں سکول جا رہی ہیں‘ پاکستان منتقل ہونے سے ان کی تعلیم میں خلل پڑے گا مگر ڈاکٹر صاحب کے سر میں ملک کی خدمت کا سودا سمایا ہوا تھا۔ انہوں نے بیگم کو منانے کے لیے مختلف دلائل دیے‘ بالآخر بیگم نے سوال کیا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ اتنے بڑے کام کی تکمیل کر پائیں گے؟ ڈاکٹر صاحب کا جواب اثبات میں تھا تو پھر ان کی بیگم بھی پاکستان آنے پر راضی ہو گئیں۔پاکستان آنے پر ڈاکٹر صاحب کو اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ منسلک کر دیا گیا لیکن انہیں جلد ہی یقین ہو گیا کہ اتنا بڑا کام ایک بیورو کریٹک سیٹ اَپ میں ممکن نہیں لہٰذا وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ انہیں علیحدہ سیٹ اَپ بنانے کی اجازت دی جائے‘ جو بڑی حد تک خود مختار ہو اور انہیں سائنسدان رکھنے اور فارغ کرنے کا بھی پورا اختیار ہو۔ ان کا مطالبہ مان لیا گیا اور کے آر ایل کا قیام عمل میں آیا۔ بھٹو صاحب نے تین سینئر اور انتہائی قابل افسروں سے کہا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو حکومتی مدد فراہم کرتے رہیں۔ یہ تین افسر تھے غلام اسحاق خان‘ اے جی این قاضی اور آغا شاہی۔ اس طرح ایک شاندار ٹیم معرضِ وجود میں آئی۔
غالباً پروفیشنل حسد اور مسابقت کی بنا پر اٹامک انرجی کمیشن کے کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کے آر ایل کا سیٹ اَپ یہ کام نہیں کر پائے گا۔ تب تک تمام دنیا میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے صرف دو طریقے دریافت ہوئے تھے‘ ایک ری پروسیسنگ اور دوسرا ڈی فیوژن۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک تیسرا ذریعہ دریافت کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس انوکھے طریقے میں ایٹمی صلاحیت سینٹری فیوجز کے ذریعے حاصل کی گئی تھی۔ اب پاکستان کسی بھی وقت ایٹمی قوت بن سکتا تھا۔ اور پھر 11مئی 1998ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کر دیے۔ انڈیا میں کئی لیڈروں کا خیال تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی باتیں کھوکھلے دعوے ہیں۔ پاکستان نے جوابی دھماکے کیے تو انڈیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ برصغیر میں طاقت کا توازن بحال ہو چکا تھا۔ ایران کے لیے پاکستان کی ایٹمی قوت بہت بڑی خبر تھی۔ دونوں ملکوں کی قیادت میں رابطہ ہوا۔ پاکستان نے کسی حد تک ایران کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی ایک سپر پاور کے ریڈار پر آ گیا۔ سپر پاور کو اس بات کی بھی شدید خفت تھی کہ پریسلر جیسی پابندیوں کے باوجود پاکستان ایٹمی قوت بن چکا تھا اور اب دیگر ممالک کی اس سلسلے میں مدد بھی کر سکتا تھا۔ اتنے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IAEA کا ایک وفد ایران گیا اور رپورٹ دی کہ ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت خاصی بڑھ گئی ہے۔ ایران سے سوال کئے گئے تو انٹرنیشنل ایجنسی اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ سب پاکستانی مدد سے ممکن ہوا ہے۔ڈاکٹر صاحب اب نازک صورتحال سے دوچار تھے۔ بین الاقوامی طور پر اب پاکستان کو ایٹمی اسلحہ فراہم کرنے والا ملک کہا جا رہا تھا۔ صدر مشرف پر ایک ملک کا دباؤ بڑھا تو انہوں نے سارا ملبہ ڈاکٹر قدیر خان پر ڈال دیا اور ان سے سرکاری ٹی وی پر اس بات کا اقرار بھی کرایا گیا‘ جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی‘ دنیا کی تشفی کے لیے اور طریقے بھی اپنائے جا سکتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب اب عملاً اپنے گھر میں نظر بند تھے۔ آنے جانے والوں کی تلاشی ہونے لگی۔ ڈاکٹر صاحب کے اہلِ خانہ سے بھی کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ جو سلوک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مشرف حکومت نے روا رکھا‘ اس کے وہ قطعاً حقدار نہ تھے لیکن ہمارے حکمران اگر کسی سے ناخوش ہوں تو تذلیل میں بہت آگے چلے جاتے ہیں مگر قوم کے لیے ڈاکٹر صاحب بہرصورت ہیرو تھے۔ پاکستانی ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کا بہت بڑا جنازہ تھا۔ لاہور کے ہسپتال کا معاملہ عدلیہ کے سامنے ہے۔ فیصلہ جو بھی آئے‘ اس قومی ہیرو کی لاہور کے غریب عوام کی خدمت کی آخری خواہش پوری ہونی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved