تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     25-02-2023

راہِ نجات

اس وقت پاکستان شدید مشکلات سے دوچار ہے، اقتصادی بدحالی ہے، سیاسی انتشار ہے، اخلاقی زوال آخری درجے میں ہے، عالمی ساہوکاروں کے قرضوں کا انبار ہے اور ہم مشکلات سے نکلنے کے لیے حسبِ سابق کاسۂ گدائی لیے ہوئے انہی کے آستانے پر سجدہ ریز ہیں۔ ہم نے قرضوں سے نجات کا راستہ مزید قرضوں کے حصول کو بنا لیا ہے اور اس کا انجام مکمل تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سیاست اور حکمرانی کے سارے حصے دار اس کی ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہر دور میں لعنت و ملامت، طَعن وتشنیع اور چاند ماری کا ہدف حکومتِ وقت ہی بنتی ہے، لیکن درحقیقت ذمہ داری اُن سب پر عائد ہوتی ہے جو کل صاحبِ اقتدار تھے یا آج صاحبِ اقتدار ہیں۔ ہوسکتا ہے ان ناکامیوں میں کسی کا حصہ کم ہو اور کسی کا زیادہ، مگر بری الذمہ کوئی بھی نہیں ہے۔ غالب نے کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مَے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
سو اب یہ ''فاقہ مستی‘‘ رنگ لا چکی ہے اور یہ رنگ دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو چکا ہے۔ بالعموم میڈیا پر جو ماہرینِ معیشت آ کر بیٹھتے ہیں، وہ مرض کی نشاندہی تو کرتے ہیں، لیکن اس مرض کا کوئی نسخۂ شفا ان کے پاس بھی نہیں ہے اور آخرِکار اس امر پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ ڈیفالٹ کے بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے در پر جبیں سائی ناگزیر ہے۔ عالمی ساہوکاروں سے ہماری مراد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور وہ حکومتیں ہیں جن کے پاس دولت کے وافر ذخائر ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً قرض کی صورت میں مدد کرتی رہتی ہیں۔
گزشتہ پچاس برسوں کے سالانہ میزانیوں کے اعداد و شمار کو پیشِ نظر رکھیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ ہر سال ہماری مجموعی محصولات اور مجموعی اخراجات کے تخمینوں میں ایک بڑا خلا ہوتا ہے۔ بجٹ میں نشاندہی نہیں کی جاتی کہ یہ خلا کہاں سے پُر ہوگا، لیکن ظاہر ہے اس کے لیے قرضے لینا پڑتے ہیں اور اس طرح قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے پاس بس ایک ہی تدبیر رہ جاتی ہے کہ ایک جگہ سے نیا قرض لیں اور دوسرے قرض خواہ کی اقساط ادا کریں اور اپنی پیٹھ پر مزید قرضوں کا بوجھ لادتے پھریں۔ ماضی میں صوبوں کے سالانہ بجٹ میں کبھی کبھار یہ بھی سنتے تھے کہ بچت کا بجٹ پیش کیا گیا، میں نے ایک بیورو کریٹ سے پوچھا: یہ صوبائی میزانیوں میں جو بچت دکھاتے ہیں، کیا انہیں اس اضافی رقم کے خرچ کرنے کی کوئی تدبیر سجھائی نہیں دیتی، اتنے کُند ذہن ہیں کہ کوئی ترقیاتی منصوبہ ذہن میں نہیں آتا۔ انہوں نے بتایا: دراصل وفاق فرض کر لیتا ہے: ممکن ہے عالمِ غیب سے کوئی امداد آ جائے، کہیں سے غیر متوقع قرض مل جائے، اس لیے وہ صوبوں کو ہدایت دیتا ہے: بجٹ میں اسے بچت دکھائیں، کیونکہ یہ بھی امکان ہے کہ حسبِ توقع یہ امداد نہ مل سکے اور منصوبے کاغذ پر ہی بنے رہ جائیں۔
ہم متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ دینی، ملی اور قومی غیرت و حمیت اور وقار کے ساتھ جینے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے: ''اپنے اخراجات کو اپنے وسائل تک محدود رکھنا، عشرتوں کو ختم کرنا اور کفایت شعاری اختیار کرنا‘‘، جبکہ ہمارا شعار یہ ہے: جنابِ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ہالینڈ کے وزیراعظم کا حوالہ دیتے تھے کہ وہ سائیکل پر چل کر دفتر آتے ہیں، لیکن جب اپنا دور آیا تو گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وزیراعظم ہائوس میں قیام فرما لیتے، کیونکہ اس کی نگہداشت اور خدمات پر مامور عملے میں کوئی کمی آئی، نہ بجٹ میں ایوانِ وزیراعظم کے لیے مختص رقوم میں کوئی کمی آئی اور نہ وزیراعظم ہائوس کے اخراجات کم ہوئے۔ ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم اور سارے گورنر ہائوسز بھی اُن کے منشور کے مطابق یونیورسٹیوں میں تبدیل نہ ہو سکے۔ بس سوچے سمجھے بغیر خام دعوے اور نتیجہ فریب اور سَراب کے سوا کچھ برآمد نہ ہو۔ نیز پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں خان صاحب کا یہ امتیاز ہے کہ انہوں نے ملک و قوم بالخصوص نوجوان نسل کو اخلاقی زوال سے دوچار کیا، لیکن جب ان کی اپنی اخلاق بافتگی کے آڈیو وڈیو کلپس کا شہرہ ہوا، تب جاکر انہیں احساس ہوا کہ اسلام میں عیوب کی پردہ پوشی کا حکم ہے،بشرطیکہ پردہ دری کا تعلق اُن کی ذات سے ہو۔ ورنہ جب توپوں کا رُخ اُن کے مخالفین کی جانب ہو تو یہ اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے اور اسی کے فروغ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ترجمانوں کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ اب یہ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کارکنان کے اجلاسوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
ہم نے ایک ماہرِ معیشت سے پوچھا: اقتصادی مسائل کا حل کیا ہے؟ انہوں نے بتایا: (1) جنرل سیلز ٹیکس کو اٹھارہ فیصد سے سات فیصد پر لایا جائے، کیونکہ جی ایس ٹی کا اثر امیر و غریب پر یکساں مرتب ہوتا ہے، امیر تو یہ بوجھ برداشت کر لیتا ہے، لیکن غریب کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک یومیہ مزدور بھی جب ماچس کی ڈبیہ یا بنیادی ضرورت کی کوئی چیز خریدے گا تو اُسے اُس پر تھوک اور پرچون فروش دکانداروں کے نفع کے ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس پورا دینا پڑتا ہے، اسی طرح پٹرول اور ڈیزل پر جو ٹیکس لگتا ہے، اُس کی زد میں بھی امیر و غریب یکساں طور پر آتے ہیں۔ حکومت کے لیے ایسی کوئی حکمتِ عملی بنانا مشکل ہے کہ غریب اس کی زد میں نہ آئیں یا اُن پر کم بوجھ پڑے، کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام سے بدعنوانی کو فروغ ملے گا اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دیانت و امانت کا معیار بھی بہت پست ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کروڑوں روپے مالیت کی لگژری گاڑیوں کے مالکان کو بھی پٹرول یا ڈیزل اُسی قیمت پر ملتا ہے، جس پر موٹر سائیکل اور رکشہ چلا کر مزدوری کرنے والے کو ملتا ہے۔
(2) اُن کا کہنا تھا: مالداروں پر اُن کی آمدنی کے مطابق ٹیکس لگایا جائے، اس میں زرعی، صنعتی اور کاروباری‘ ہر طرح کی آمدنی شامل ہے، جب زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے تو چونکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بڑی تعداد جاگیرداروں کی ہے، اس لیے وہ اس کی مزاحمت کرتے ہیں۔ وفاق نے اسے صوبوں پر چھوڑ دیا ہے اور جاگیرداروں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ زرعی اخراجات بہت زیادہ ہو گئے ہیں، اُن میں بیج، کھاد، کیڑے مار دوائوں، ٹیوب ویل اور ٹریکٹر وغیرہ کی قیمتِ خرید اور چلانے کی اجرت اور زرعی مزدوروں کی اجرت شامل ہے، حالانکہ ٹیکس اُن کی بچت پر عائد ہوتا ہے نہ کہ اصل آمدنی پر؛ الغرض تمام اخراجات نکال کر جو بچت ہو، اُس پر ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔
(3) اُنکے بقول اگر مالداروں پر صحیح ٹیکس عائد کیا جائے تو سات ہزار ارب روپے کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے، واللہ اعلم باِلصَّواب! اس ممکنہ اضافی آمدنی کا تخمینہ کیسے لگایا گیا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں، نیز یہ کیسے وصول کی جائے گی، اس کا طریقۂ کار کیا ہو گا اور کیا حکومت میں اتنی جان ہے کہ بڑے فیصلے کرکے انہیں نافذ بھی کر سکے۔
معاشی ماہرین کا ایک لگا بندھا فارمولا معیشت کو دستاویزی بنانے کا ہوتا ہے، ہر حکومت یہ سوچتی ہے، لیکن پھر اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیتی ہے۔ ہمیں خوب یاد ہے: جب پرویز مشرف اقتدار کی معراج پر تھے تو انہوں نے اس کا بیڑا اٹھایا، دکانداروں نے ہڑتال کر دی، دکانیں بند ہو گئیں، کاروبار ٹھپ ہو گئے، پرویز مشرف نے ترنگ میں آ کر کہا: بھلے یہ دکانیں بند کریں، آخر ہفتے‘ دو ہفتے بعد مجبور ہو کر کھولیں گے تو ہمیں یعنی محکمۂ محصولات کے افسران کو اپنے دروازے پر پائیں گے، لیکن پھر یہ شیخی بھی ہوا کا غبارہ ثابت ہوئی اور پھر اس عربی محاورے جیسا حال ہوا: ''اَلآن کَما کَان‘‘، یعنی نتیجہ پہلے جیسا ہی برآمد ہوا۔
افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو ہم تاریک دور کے لوگوں سے تشبیہ دیتے ہیں کہ انہیں جدید دور کا شعور نہیں ہے، اہلِ مغرب سے امداد ملنا تو درکنار، امریکہ نے ان کے نو ارب ڈالرضبط کر رکھے ہیں، باوسائل مسلم ممالک (سعودی عرب، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات وغیرہ) بھی امریکہ کی اشیرباد کے بغیر انہیں تسلیم کر سکتے ہیں اور نہ مالی مدد دے سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے ملک کو چلا رہے ہیں۔ 23 فروری 2023ء کو پاکستان میں ڈالر 262 روپے اور افغانستان میں اُن کی مقامی کرنسی کے حساب سے 89 افغانی کا ہے، یہ بھی کہاجاتا ہے: پاکستان سے ڈالر افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں ایسی کیا کشش ہے کہ پاکستان سے ڈالر ادھر سمگل ہو رہے ہیں، حالانکہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا۔ کہا گیا تھا: افغانستان میں لوگ بھوکے مریں گے، لیکن اس طرح کی کوئی صورتِ حال سامنے نہیں آئی، آخر ان کے پاس کون سا نسخہ ہے جو ہمیں سجھائی نہیں دیتا۔
بعض ماہرین بتاتے ہیں: پاکستان مصنوعی تفاخر سے نکل کر حقیقت پسند بنے، اپنے آپ کو نادہندہ قرار دے، قرضوں کی ادائی موقوف کرے، حالات کی سازگاری پر اُن کی ادائی کے لیے نیا طریقۂ کار وضع کرے، اپنے نظام سے سود یکسر ختم کرے اور بیرونی قرضوں کے مقابل بھی سود کی ادائی سے دستبردار ہو جائے۔ یہ عزیمت کا راستہ ہے، مشکل راستہ ہے، اس کے بھی نتائج یقینا ہوں گے، بجٹ میں تخفیف سمیت عدلیہ، سول و ملٹری اشرافیہ کے مشاہرے اور مراعات بھی متاثر ہوں گی۔ الغرض جب مراعات یافتہ طبقہ قربانی پر آمادہ ہو گا، دہرا معیار ختم ہو گا، قوم کو یہ سب کچھ ہوتا ہوا نظر آئے گا تو پوری قوم بھی یقینا قربانی کے لیے آمادہ ہو جائے گی، تب قوم سے یہ مطالبہ حق بجانب ہو گا کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ روک دیں۔ ایک عرصے تک قوم کو اپنے تمام شعبوں کے مصارف اپنے وسائل کے اندر رکھنا ہوں گے، اگر قوم اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد کرے تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے اُن راہوں سے وسائل پیدا فرما دے جو ابھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے، تو وہ اُسے (ایسی راہوں سے) رزق عطا فرماتا ہے کہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا‘‘ (سورۂ طلاق: 2 تا 3)۔
آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے: ہمیں غریبوں کو سبسڈی دینے پر اعتراض نہیں ہے، لیکن بالادست طبقے کے لیے مراعات کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، جبکہ ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سوا آئی ایم ایف کو کوئی ایسا قابلِ عمل طریقۂ کار بتا نہیں سکی کہ کسانوں سمیت زیریں طبقات کے لیے اعانتی پالیسیوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جا سکے۔ ایک سرکاری یا پرائیویٹ ملازم جو اپنی تنخواہ پر 32 فیصد انکم ٹیکس ادا کر چکا ہے‘ وہ باقی ماندہ تنخواہ سے مارکیٹ میں کوئی پروڈکٹ خریدنے جائے گا تو اُسے مزید اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی دینا پڑے گا۔ اس طرح مجموعی ٹیکس پچاس فیصد ہو جائے گا، یہ سراسر غیر منصفانہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved