اس دنیا کا ماحول میلے کا ہے۔ جب تک روزِ محشر برپا نہیں ہو جاتا تب تک یہ میلہ ہے۔ یہ ساری رونق کبھی ماند پڑی ہے نہ پڑے گی۔ آپ جب نہیں تھے تب بھی یہ میلہ تھا اور جب آپ نہیں ہوں گے تب بھی یہ میلہ رہے گا۔ یہ تو ہوئی بدیہی حقیقت! جس پر ہم نظر نہیں ڈالتے یا سوچ بچار کے ذریعے جہاں تک نہیں پہنچ پاتے وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا رونق میلہ خالص انفرادی معاملہ ہے۔ یہ ساری رونق، ساری ہماہمی، ہنگامہ آرائی اور گرم بازاری آپ کے دم قدم سے ہے۔ آپ ہیں تو یہ سب کچھ ہے۔ آپ ہی نہ ہوں تو پھر یہ سب کچھ ہو یا نہ ہو‘ اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ہر دور کے اہلِ دانش انسان کو اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچنے اور سنجیدہ ہونے کی تحریک دیتے آئے ہیں۔ یہ تحریک ہر اعتبار سے ناگزیر ہے۔ مذہبی تعلیمات دنیا کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر زور دیتی ہیں۔ دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں بھی دنیا کو ایک امتحان گاہ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے زیادہ اہمیت نہ دینے کی بات پائی جاتی ہے۔ دنیا کو دھوکے سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اسے آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے یعنی جو کچھ یہاں بویا جائے گا‘ وہی اگلے جہان میں کاٹا جائے گا۔ آخرت کے بارے میں سوچیے تو دنیا کی کوئی وقعت نہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا کو سراسر نظر انداز کردیا جائے۔ یہاں جو کچھ سوچیے گا اور کیجیے گا‘ وہی تو وہاں کام آئے گا۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ دنیا کو سمجھنے کی بھی کوشش کی جائے اور اِس کے تقاضے نبھانے پر بھی توجہ دی جائے۔ جس نے دنیا کو نظر انداز کیا وہ بھی مارا گیا اور جو دنیا میں گم ہوا‘ وہ بھی کہیں کا نہ رہا۔ دنیا کی ساری رونق اپنی جگہ اور آپ کے وجود سے جڑے ہوئے معاملات اپنی جگہ۔
غور کیجیے تو ہر انسان اس کائنات کا اہم ترین فرد ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑھ کر اپنی ہستی ہوتی ہے۔ جب تک وہ ہے تب تک ہی یہ دنیا ہے۔ کسی کو اِس بات سے کیا غرض کہ جب وہ نہیں تھا تب یہ دنیا کیسی تھی اور جب وہ نہیں ہوگا تب اس دنیا کا رنگ‘ ڈھنگ کیا ہوگا۔ دنیا کی ساری رونق صرف اور صرف اپنے وجود سے سلامت ہے۔ کیا آپ نے خود یہ محسوس نہیں کیا کہ جب آپ کا دل کِھلا ہوا ہو تو ہر طرف پُھول ہی پُھول دکھائی دیتے ہیں اور پورا ماحول خوشبو میں بسا ہوا ہوتا معلوم و محسوس ہوتا ہے؟ اور جب آپ پر پژمردگی طاری ہو تب؟ ایسے میں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ذہن الجھا ہوا ہو تو انسان کو کچھ نہیں بھاتا۔ حد یہ ہے کہ گھر کی حد تک سب خوش ہوں تو ہوں‘ آپ ناخوش ہوں تو کوئی بھی بات دل نہیں بہلاتی۔
شخصی ارتقا سے متعلق لٹریچر پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں مرکزی حیثیت صرف انسان کی ہوتی ہے۔ فیصلے بھی انسان ہی کرتا ہے اور اُن پر عمل بھی انسان ہی کی ذمہ داری ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہر شعبے میں زندگی کو آسان تر بنانے والی ٹیکنالوجیز سامنے آچکی ہیں۔ آج ہمارے ماحول میں کام کو آسان بنانے والے آلات کی بھرمار ہے۔ رابطہ اب کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ کسی بھی موضوع پر تحقیق اب کسی درجے میں الجھن نہیں رہی۔ جو کچھ بھی کسی کام کے لیے درکار ہے وہ مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے۔ پھر بھی ہر معاملہ فیصلوں کا محتاج ہے اور فیصلے صرف انسان کرتا ہے۔ مشینوں سے کیے جانے والے فیصلے معاملات کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ مشینی فیصلے بھی اپنی اصل میں انسانوں ہی کے طے کردہ ہوتے ہیں مگر کسی مشین کو فیصلے کرنے کی کمانڈ دے کر مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔
ہر انسان اپنے آپ میں ایک کائنات ہے۔ ہر ذہن اپنی ایک دنیا رکھتا ہے۔ ہر انسان کا وجود مختلف اور منفرد ہے۔ ماحول میں کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہو رہا اِس سے قطعِ نظر آپ کو بالعموم اِس بات سے غرض رہتی ہے کہ آپ کے لیے کیا اہم ہے اور کیا اہم نہیں ہے۔ ایک آپ پر کیا منحصر ہے، ہر انسان کا یہی معاملہ ہے۔ اُس کے لیے سب سے مقدم اپنا مفاد ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی درجے میں بُری بات نہیں۔ انسان اول و آخر اپنے لیے جیتا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ کرتا ہے اور کبھی کبھی دوسروں کی خاطر جان بھی دے دیتا ہے۔ اس کے باوجود اُس کے لیے سب سے بڑھ کر اُس کا اپنا مفاد ہوتا ہے مگر اپنے مفاد کا تحفظ یقینی بنانے کی خاطر دوسروں کے مفادات کو داؤ پر لگانا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں۔ جن کی تربیت ادھوری یا کچی رہ گئی ہو بس وہی ہر حال میں اپنے وجود کو مقدم رکھتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے۔ عمر کے ہر مرحلے میں انسان کے لیے سب سے بڑھ کر اپنا وجود ہوتا ہے۔ اپنے وجود ہی سے ساری رونق ہے۔ جو زیادہ پڑھتا اور سیکھتا ہے اُس کی زندگی باغ و بہار ہوتی ہے۔ زندگی قدم قدم پر مسابقت سے دوچار کرتی ہے۔ جس نے مسابقت قبول کرنے کا وصف پنے اندر پیدا کرلیا وہی آگے بڑھ سکا۔ مقابلے سے بھاگنے کا واضح مطلب اپنے وجود پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔ ہر انسان کو یہ حقیقت ہر وقت پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اُس کا وجود اُس کے اپنے فکر و عمل کا معاملہ ہے۔ اہلِ دانش جب بھی کسی کو اپنے بارے میں غور کرنے کی تحریک دیتے ہیں تب چند غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے یا کسی کو خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے روکنے پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں۔ عام آدمی کو یہ سمجھانا لازم ہے کہ خود شناسی مثبت وصف ہے جبکہ خود پسندی اور اُس سے بھی کئی قدم آگے جاکر خود پرستی ہر اعتبار سے منفی معاملہ ہے۔ خود شناسی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو پہچانے، جو کچھ کرسکتا ہے وہ کر گزرنے کا ذہن بنائے اور دوسروں کو اپنے بارے میں اپنے فکر و عمل کے ذریعے بتائے۔ خود پسندی کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ ایسی حالت میں انسان اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا ہے اور دوسروں کو کمتر گردانتا ہے۔ اِس سے کئی قدم آگے جاکر خود پرستی ہے۔ ایسی حالت میں انسان اپنے خلاف کچھ سننے کا رودار ہوتا ہی نہیں۔ اُس کی نظر میں صرف اُس کا وجود ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
ہمارے خالق کی منشا یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُسی نے اپنے رب کو پہچانا۔ انسان اپنے آپ کو سمجھنے کے قابل ہو جائے تو سمجھ پاتا ہے کہ بنانے والے نے اُسے کیسا بنایا ہے، اُس میں کیا کیا اوصاف رکھے ہیں۔ جب انسان اپنے وجود کو اچھی طرح پہچانتا ہے تب خالق کی صنّاعی کا بھی قائل ہو جاتا ہے۔ جب انسان اِس منزل تک پہنچ جائے تو اپنے آپ کو اہم گرداننے کے باوجود دوسروں کو غیر اہم نہیں گردانتا۔ خود شناسی کی راہ پر گامزن رہنے والے ہی دنیا کو کچھ دینے کا ارادہ کر پاتے ہیں۔ خالص حیوانی سطح پر جینا ہمارے خالق کو مطلوب نہیں۔ انسان کو اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو پہچانے، اِس دنیا کے میلے میں محض گم ہوکر نہ رہ جائے بلکہ کچھ ایسا کرے جس سے اس میلے کی رونق میں اضافہ ہو اور لوگ اچھے الفاظ میں اسے یاد کیا کریں۔
کامیاب ترین افراد کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ قابلِ رشک گردانتے ہیں؟ اگر ہاں‘ تو کیوں؟ کیا اس لیے کہ انہوں نے بہت کچھ پالیا؟ یقینا ایسا بھی ہے مگر کامیاب ترین افراد کو پسند کرنے اور سراہنے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ آپ یہ حقیقت سمجھتے ہیں کہ وہ خود شناس ہیں۔ اگر وہ خود شناس نہ ہوتے تو اِتنے کامیاب نہ ہوتے جتنے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا ہر اُس انسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ تبھی تو وہ کچھ دے پاتا ہے۔ دنیا کا میلہ آپ ہی کے لیے ہے مگر صرف سیر کافی نہیں، اس کی رونق میں اضافے کی کوشش بھی آپ پر اُدھار ہے۔ اگر ہر دور میں انسانوں نے خود کو میلے سے محظوظ ہونے تک محدود رکھا ہوتا تو آج یہ میلہ اِتنا بارونق نہ ہوتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved