تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     26-02-2023

بدلتے سیاسی مؤقف

پنجاب اور خیبرپختونخوا سمبلیاں 14 اور 17جنوری کو تحلیل ہوئیں‘ آئین کے مطابق دو صوبائی اسمبلیوں میں 90روز کے اندر انتخابات ہونے ہیں‘ تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ۔ گورنرز صاحبان کی جانب سے الیکشن کی تاریخ نہ دیئے جانے پر صدر مملکت نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی سیکشن 57 اے کا سہارا لیتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 9اپریل کو انتخابات کرانے کی تاریخ کا اعلان کر دیا ۔ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو شیڈول جاری کرنے کے حوالے سے جو خط لکھا اس میں یہ بھی تحریر کیا کہ آئین اور قانون 90روز سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔ صدر مملکت کی طرف سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کئے جانے کے بعد وفاقی وزرا نے مؤقف اختیار کیا کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 105کی خلاف ورزی کی ہے‘ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدر کا اختیار گورنرز کے پاس چلا گیا ہے‘ اگر وفاق میں عام انتخابات ہوتے تو وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر تاریخ دے سکتے تھے ۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین ڈیڈ لاک کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے معاملے پر از خود نوٹس لے لیا ہے۔ اب معاملہ عدالت میں ہے کیس کی دو سماعتیں ہو چکی ہیں‘ پیر کو اہم سماعت ہو گی‘ ابتدائی دو سماعتوں میں ججز کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں‘ تاہم مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ میں شامل دو ججز پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس تمہید کے بعد دو باتیں اہم ہیں ایک کی جانب جسٹس جمال خان مندوخیل نے اشارہ کیا ہے کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں‘ جبکہ دوسرا آئین کی تشریح سے متعلق ہے۔ آئین میں ایسی شقوں اور سقم موجود ہیں جن کی بنا پر سیاسی جماعتیں اپنی مرضی کی تشریح کی کوشش کرتی ہیں۔ عجب بات یہ ہے ان سقم کو دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جا تی ۔ صدر مملکت کے اقدام کو ہی دیکھ لیں‘ انہوں نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 اے کے مطابق اعلان کیا ہے مگر قانونی ماہرین کے مطابق ان کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 105 کے متصادم ہے۔ آئین کی من پسند تشریح سے تاثر قائم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں جب چاہیں اپنی مرضی کی تشریح کر کے سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہیں‘ سیاسی جماعتوں کا یہ اقدام آئین شکنی کی زمرے میں آتا ہے۔ نو رکنی بینچ میں شامل دو ججز پر مسلم لیگ (ن) کے تحفظات کے بعد جسٹس اطہر من اللہ نے فل کورٹ کی تجویز دی ہے کیا اس پر عمل ہو پائے گا؟ ماضی میں ایسی مثال کم ہی ملتی ہے کہ کسی فریق نے ججز پر اعتراض کیا ہو اور بینچ تبدیل کر دیا گیا ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق ہوئی یا نہیں؟ اس سے تاثر قائم ہوا ہے کہ کیا اسمبلیاں بحال ہو جائیں گی؟
آج جو صورتحال ہے ایک سال قبل ایسا ہی ماحول تھا جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو ڈپٹی سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل پانچ کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا‘ بعدازاں صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی‘ تاہم جب یہ معاملہ سپریم کورٹ گیا تو عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کر دیں۔ اب اُسی کہانی کو دہرایا جا رہا ہے‘ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہیں اور آئین کی تشریح پر ڈیڈلاک کی وجہ سے معاملہ اعلیٰ عدالت میں ہے۔ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ آئین کے اندر90 روز کی مدت کا تعین کر دیا گیا ہے‘ مگر حکومت الیکشن سے راہ ِفرار اختیار کر رہی ہے۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا مؤقف درست ہے‘ تاہم اتحادی حکومت چاہتی ہے کہ کسی طرح سے معاملات کو چند ماہ تک آگے لے جائے‘ ظاہر ہے الیکشن کا آگے جانا کسی معقول وجہ کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ یہ آئین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے‘ اس لئے اتحادی حکومت مختلف حیلے بہانوں سے اس معاملے کو لٹکانا چاہتی ہے تاکہ اسے کچھ وقت مل سکے جس میں معیشت کو بہتر کیا جا سکے ‘لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ جس طرح ایک سال قبل تحریک انصاف کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا ایسے ہی اتحادی حکومت کو بھی پسپائی ہو گی‘ البتہ حکومت انتظامی طور پر کچھ تاخیر کر سکتی ہے‘ ڈیجیٹل مردم شماری کی تکمیل‘ الیکشن کے انعقاد کیلئے درکار رقم اور سکیورٹی چیلنجز کو جواز بنا کر چند ماہ تک الیکشن آگے لے جائے جا سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے نزدیک فی الفور الیکشن اور چند ماہ میں الیکشن کے انعقاد میں بہت فرق ہے‘ پی ٹی آئی خود کو ملک کی مقبول جماعت کے طور پر دیکھتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اگر تین ماہ کے اندر الیکشن ہوئے تو وہ دو صوبوں میں کامیابی حاصل کر لے گی۔ الیکشن میں تاخیر کی صورت میں انہیں خدشہ ہے کہ اگر اگلے چند ماہ کے اندر معیشت میں بہتری آتی ہے اور حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوتی ہے تو اس سے تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو جائے گی۔خان صاحب کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ان پر سیاسی مقدمات بنا کر انہیں راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے ۔وہ متعدد بار اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کی صورت میں انہیں راستے سے ہٹانا آسان نہ ہو گا۔ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے خان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مقتدرہ کی مخالفت کے ساتھ الیکشن میں جانا عقل مندی نہیں ہو گی۔ خان صاحب نے بھی اس بات کا ادراک کر لیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیانات میں پہلے والی شدت نہیں رہی۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کی تحریک انصاف میں شامل ہونے کی اہم وجہ یہ ہے تاکہ مقتدرہ کے ساتھ پیدا ہونے والی دوریوں کو کم کیا جا سکے۔ سوال مگر یہ ہے کہ معاملات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں کیا چوہدری پرویز الٰہی کوئی کردار ادا کر سکیں گے؟ کوشش ِ بسیار کے باوجود مقتدرہ کے ساتھ تحریک انصاف کے معاملات مثالی نہیں رہے‘ اس کی بنیادی وجہ خان صاحب کا تلخ لہجہ ہے جو وہ ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ ماضی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت مقتدرہ کی مخالفت کے ساتھ جب الیکشن میں گئی تو اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف مقبول ترین رہنما تھے‘ ان کی حکومتیں بھی مضبوط تھیں لیکن جب مقتدر حلقوں کے ساتھ معاملات میں تناؤ آیا تو کچھ بھی نہ بچا۔ نہ مقبولیت نہ حکومت۔ خان صاحب اگر اسی راستے کا انتخاب کر چکے ہیں تو انہیں نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) عدالتوں پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے‘ ججز پر جانبداری کے الزامات عائد کئے گئے ہیں‘ انہیں بینچ سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ کیونکہ مسلم لیگ (ن) اپنے تئیں سمجھ رہی ہے کہ اس وقت انہیں مقتدر قوتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یوں دیکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کے قول و فعل کے تضاد کا اندازہ ان کے سیاسی مؤقف سے لگایا جا سکتا ہے۔ کل جن حلقوں پر تنقید کی جا رہی تھی آج استفادہ کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس متضاد مؤقف کے ساتھ اقتدار میں آئیں گی تو جمہوریت کے ثمرات سے قطعی استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved