تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     26-02-2023

لاہور کی ادبی بسنت!!

بہار کو اگر رنگ ‘ خوشبو اور محبت کا موسم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ سخت سردی سے ٹھٹھرنے کے بعد تیز ہوتی دھوپ اور اس کے ہمراہ خوشبوؤں سے لدی ہوا‘ تازگی اور زندگی کا احساس دلاتی ہے۔ پنجاب میں بہار کی آمد کے ساتھ ہی بسنت پنجمی کا تہوار برسہا برس سے منایا جاتا رہا ۔ پھولوں کی کونپلیں کھلنے اور زندگی کے احساس کو دوبالا کرنے کیلئے چڑھدے پنجاب یعنی مشرقی پنجاب اور لہندے پنجاب یعنی پاکستان کے پنجاب میں یہ تہوار جوش و خروش سے منایا جاتا رہا۔ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں لاہور بسنت کا مرکز ٹھہرا۔ پوری دنیا میں لاہور کو اپنی ثقافت‘ تہذیب‘ زندہ دلی اور تاریخی عمارات کے ساتھ ساتھ بسنت کے تہوار کی نسبت سے بھی شہرت ملی۔ 90ء کی دہائی میں تو ہر سال بسنت کے موقع پر دنیا بھر سے سیاح لاہور کا رُخ کرتے تھے۔ بہار کا یہ تہوار کسی بھی دوسرے مذہبی و سماجی تہوار کے مقابلے میں زیادہ بڑا گردانا جانے لگا۔ وہ بھی ایک خوبصورت دور تھا کہ بہار کی آمد کی نشانیوں میں لاہور کے مضافات کے کھیتوں میں کھلے سرسوں کے پھول اور نیلگوں آسمان پر اڑتی رنگ برنگ پتنگیں ہوتی تھیں۔ لیکن پھر اس تہوار کو لوگوں کی بے احتیاطی اور ہٹ دھرمی کی نظر لگ گئی۔ یہ خوبصورت تہوار جب ایک خونی تہوار میں بدلنے لگا تو شہریوں اور حکومت دونوں نے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے گریز کیا‘ جس کے نتیجے میں اس تہوار پر پابندی لگ گئی۔ اس کے بعد کے کئی برس لاہور میں موسم بہار روایتی رنگ و بُو کے بجائے دہشتگردی کے حملوں کے نتیجے میں بارود کی بدبو میں بسا رہا۔ تفریح کیلئے لاہوریوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا کیونکہ سکیورٹی کی خراب صورتحال نے سب کو متاثر کیا۔ جشنِ بہاراں کے ثقافتی میلے بھی اجڑ گئے۔ مگر لاہور جو ہمیشہ سے آرٹ اور کلچر کا گہوارا ٹھہرا یا جاتا ہے ‘ وہاں 2013ء میں ایل ایل ایف یعنی لاہور لٹریری فیسٹول کے نام سے ایک نئی کونپل پھوٹی ‘ جس میں ادب کی چاشنی لئے مختلف پروگرامز نے لاہوریوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ اس لٹریری فیسٹول کے روح رواں فصیح احمد اور ان کے بھائی رضی احمد سمیت دیگر منتظمین کا یہ ایک جرأت مندانہ قدم تھا جنہوں نے دہشتگردوں کے ہاتھوں اپنی تہذیب اور ثقافت کو یرغمال بننے سے انکار کردیا۔ یوں بہار کے مہینوں میں لاہور کی فضائیں ادب کی چاشنی ‘ شاعری کی لطافت اور موسیقی کی خوبصورت تانوں سے گونج اٹھیں۔کئی برس تک دہشتگردی کے ممکنہ خطرے کے باعث منتظمین کو اس میلے کے انعقاد کی اجازت مشکل سے ملا کرتی تھی لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اس فیسٹول کو مشکلات میں بھی جاری رکھا نتیجتاً آج لاہور لٹریری فیسٹول کا لگایا پودا دس برس کا ہوگیا ہے۔ آج اس کے دسویں ایڈیشن کا آخری روز ہے ۔ ان تین دنوں میں لاکھوں افراد نے اس میلے کا رخ کیا۔ کتابوں ‘ شاعری ‘ عالمی امور‘ سیاسی معاملات اور موسیقی ہر شے پر گفتگو ہوئی۔ نئی کتابیں پیش کی گئیں‘ سوچ کے نئے زاویے سامنے رکھے گئے جبکہ صبر اور برداشت سے مخالف نکتہ نظر کو برداشت کرکے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا گیا۔
کسی زمانے میں لاہور کی پہچان اس کے باغوں اور مزاروں پر لگنے والے میلے ٹھیلے ہوا کرتے تھے ‘ لیکن اب اس شہرِ بے مثال کی پہچان لٹریری فیسٹولز بن گئے ہیں۔ رواں سال بہار میں یہ مسلسل تیسرا ہفتہ ہے کہ لاہور میں ایک عدد ادبی میلہ سجا ہوتا ہے۔ پہلے ہفتے پاکستان لٹریری فیسٹول نے شہر کی رونقیں بڑھائیں ‘ پہلی دفعہ اس فیسٹول کا اہتمام لاہور میں کیا گیا اور لاہوریوں کی بڑی تعداد میں یہاں آمد نے منتظمین کو مایوس نہیں کیا۔ گوکہ اس کے افتتاحی روز صاحبِ اسلوب شاعر امجد اسلام امجد کی موت نے سب کو افسردہ کردیا لیکن انور مقصود نے امجد صاحب کی رحلت کو بھی ایک طاقت قرار دے کر اس میلے کے جوش کو ٹھنڈا نہ پڑنے دیا۔ اس میلے میں سات سمندر پار سے بھی ادیب آئے ‘ سرحد پار کے دانشور بھی تشریف لائے جبکہ پورے ملک سے مصنفین اور اہلِ ذوق نے میلے کو دوام بخشا۔ بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ حسبِ اعلان اس میلے کا آغاز ضیا محی الدین اپنی خوبصورت آواز میں ادبی شہ پارے سے کریں ‘ لیکن خرابیٔ صحت کی وجہ سے ان کا پروگرام آخری لمحوں میں منسوخ ہوگیا اور پھر اس میلے کے اختتام کے اگلے ہی روز وہ ہم سب کو اداس کرکے راہی ٔعدم ہوئے۔
پاکستا ن لٹریری فیسٹول کے اختتام کے اگلے ہفتے یہیں الحمرا ہال میں تین روزہ فیض میلے کا اہتمام کیا گیا ‘ جس میں سر پھرے نوجوانوں سے لے کر انقلاب کی ٹمٹماتی امید کے دعویدار بزرگ بھی شریک ہوئے۔ فیض احمد فیض کی شاعری کا چرچا تو ہونا ہی تھا‘ اس بار اس کے نئے معنی اور موجودہ دور کے حوالے سے اس کی افادیت بیان کی گئی۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ فیض کی شاعری کی اساس‘ جو برابری اور ظلم کے خلاف جدوجہد پر مبنی ہے ‘ آج بھی اتنی ہی کارآمد ہے جتنی کہ چار دہائیاں قبل تھی۔ لیکن اس موقع پر سرحد پار سے جاوید اختر کی آمد نے ماحول کو کافی پراگندہ کیا۔ ایک پروگرام میں موصوف نے یہ خیال کئے بغیر کہ انہیں اتنی محبت سے مدعو کیا گیا‘ ان کیلئے پلکیں بچھائی گئیں ‘ لیکن جواب میں وہ یہ فرما گئے کہ ممبئی حملوں کے حملہ آور اب بھی پاکستان میں پھر رہے ہیں۔ حقائق کے برخلاف اس بات پر اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ انہیں شٹ اَپ کال دی جاتی لیکن ان کے سامنے موجود مجمع نے الٹا ان کی اس بات پر داد دی۔ اگر جاوید اختر کی ہرزہ سرائی غیر مناسب تھی تو اس پر حاضرینِ محفل کا طرزِ عمل بھی باعثِ شرم تھا۔ بجائے تالیاں پیٹنے کے ‘ کیا بہتر نہ ہوتا کہ جاوید اختر صاحب کو بتایا جاتا ہے کہ کلبھوشن یادیو تو آپ کے گھر سے نکل رہا ہے ‘ اس کے بارے میں کچھ ارشاد فرما ئیے۔ انہیں یہ بھی یاد کروایا جاتا کہ آپ بھارت میں کشمیریوں کے مظالم پر خاموشی سادھتے ہیں اور آر ایس ایس کے مظالم کی تاویلیں ڈھونڈتے ہیں۔ جاوید اختر کے اس طرزِ عمل کی بھارت میں بہت واہ واہ ہوئی ۔ اس پر پاکستان میں بھی کچھ تھرتھلی مچی اور فنکاروں ‘ دانشوروں اور شہریوں کی جانب سے ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی۔ اس موقع پر مرحوم پرویز مشرف بہت یاد آئے ‘ جو بھارت میں بیٹھ کر پاکستان پر لگے الزامات کے ایسے منہ توڑ جواب دیتے تھے کہ بھارتیوں کی بولتی بند ہوجاتی تھی۔ بھارت کے بڑے بڑے ٹی وی اینکرز جنرل صاحب کے سامنے ڈھیر ہونے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں اب کوئی نہیں بچا جو بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دے سکے؟ بہرحال ‘ امید ہے کہ آئندہ منتظمین بھی اس حوالے سے احتیاط کریں گے کہ کس کو مدعو کرنا چاہیے اور کس کو نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم مہمانوں کے سامنے بچھ بچھ جائیں اور بدلے میں وہ ہماری بے عزتی کرجائیں۔ بہرحال مجموعی طور پر یہ تین ہفتے‘ لاہوریوں کیلئے شاندار رہے جس نے بہار کے موسم کا مزہ بہت سالوں بعد دوبالا کردیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved