اس روئے زمین پر، اس نیلے آسمان کے نیچے یہ ایک عجیب وغریب ملک ہے جہاں ریاست کا سربراہ ایک ایسا شخص بھی بن سکتا ہے جو ہوسِ زراندوزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جس کے پاس نیویارک سے فرانس اور انگلستان تک محلات کا سلسلہ ہے اور جسے سوئٹزرلینڈ کے بنک جھک کر سلام کرتے ہیں۔ جہاں بے یارومددگار ملزم مقدموں کے فیصلوں کے انتظار میں آدھی آدھی زندگیاں سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں لیکن جہاں طاقت ور قاتل عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہیں۔ جہاں بااثر قاتلوں کو چھڑانے کے لیے درجنوں سردار حرکت میں آجاتے ہیں اور جہاں ریکارڈ ہے کہ کبھی کوئی جاگیردار قتل کرنے یا کرانے کے بعد پھانسی نہیں چڑھا۔ جہاں خیرات وصدقات ہرجرم پر پردہ ڈال دیتے ہیں‘ جہاں غذا اور ادویات میں قاتلانہ ملاوٹ کرنے والے‘ ٹیکس چوری کرنے والے، تجاوزات کے ذریعے حرام مال کمانے والے اور مال بیچتے وقت گاہکوں کو نقص نہ بتانے والے، پاک صاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ وہ خیراتی ادارے چلائیں، مسجدوں، مدرسوں کو چندے دیں اور دیگیں تقسیم کریں۔ جہاں فائلوں کے نیچے پہیے لگانے کا برملا اعتراف کرنے والے اس لیے نیکوکار قرار دیئے جاتے ہیں کہ وہ مفت شفاخانے چلاتے ہیں۔ گویا اگر آپ خیراتی مراکز بنادیں تو آپ کو کھلی چھٹی ہے کہ جس طریقے سے چاہیں، دولت کمائیں۔ سمگلروں، انسانی ٹریفک کا دھندا کرنے والوں، ڈاکے ڈالنے والوں اور اغوا برائے تاوان کا ’’کاروبار‘‘ کرنے والوں کے لیے اس سے زیادہ گرین سگنل کیا ہوگا ! جہاں خفیہ ایجنسی میں کام کرنے والے دوہزار سے زیادہ سرکاری اہلکار ایک سیاسی جماعت کے کارکن ہیں اور جہاں ملک کے سب سے بڑے شہر کی پولیس میں چھ ہزار جرائم پیشہ افراد ’’ملازمت ‘‘ کررہے ہیں۔ وردی پہن کر مجرموں کو قیمتی اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور بھتہ خوروں اور اغواکاروں کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ جہاں مفتیانِ عظام اور علماء کرام عوام سے مضاربہ کے نام پر اربوں روپے لوٹ لیتے ہیں۔ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا اور وہ عزت وآرام کے ساتھ دبئی میں رہتے ہیں۔ جہاں جنسیات (پورنو گرافی) دیکھنے والوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔ جہاں رشوت، ناجائز منافع خوری، ٹیکس چوری، ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری، جھوٹ، وعدہ خلافی ، غیبت اور رشتہ داروں سے بدسلوکی کو معمول کی زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں پنچائتیں شرعی نکاح کرنے والے شوہروں اور بیویوں کو موت کے گھاٹ اتاردیتی ہیں۔ جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن وہاں کے مبلغین اور علما کبھی نائجیریا میں تبلیغ کررہے ہوتے ہیں ، کبھی مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے شاہی محلات میں اور کبھی ملائیشیا‘ انڈونیشیا میں ؎ تو کارِ جہاں را نِکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی؟ جہاں ایک دن یونیورسٹیوں کے ہوسٹلوں سے جن تنظیموں کی آغوش سے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں دوسرے دن انہی تنظیموں کے بزرگ آل پارٹی کانفرنسوں میں جلوہ افروز ہوکر دہشت گردی کے مسائل ’’حل‘‘ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ جہاں دوستی سب سے بڑا میرٹ اور واقفیت سے بڑی اہلیت ہے۔ جہاں معجون کھانے والی اونٹنیوں اور خمیرے کھانے والی بکریوں کا دودھ، ہر یسے، پائے، چھولے، تل والے نان، باقرخانیاں، کھیر اور ربڑیاں، دستاویزات اور تصانیف سے زیادہ قدروقیمت رکھتی ہیں۔ جہاں جلاوطنی میں سہارا دینے والے کھمبے ، محلات کی شہ نشینوں کے سامنے ستونوں کی صورت میں نصب کیے جاتے ہیں۔ جہاں باورچی، نانبائی، حلوائی، کنجڑے، حجام، پہلوان، مالش کرنے والے، ٹانگیں دبانے والے، لطیفے سنانے والے اور ڈھول بجانے والے‘ نو رتنوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔ جہاں تاریخ کے انمٹ صفحات پر رقم ہوچکا ہے کہ کس کام کے لیے کن وزیروں کو کن مالش کرنے والوں کی سفارش پر کہاں بھیجا گیا تھا۔ جہاں وزیر خزانہ کھرب پتی ہوتا ہے جو جزیروں میں رہتا ہے یا آسمانوں میں۔ جسے بازار کا راستہ ہی نہیں معلوم ! جس کا عوام سے اور عوامی مسائل سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ملکہ کا ان لوگوں سے جنہیں روٹی نہیں ملتی اور وہ اس قدر بے وقوف ہیں کہ روٹی نہ ملے تو کیک بھی نہیں کھاتے ! جہاں اربوں کھربوں روپے ’’کمانے‘‘ والا سابق وزیراعظم نئے وزیراعظم کی دعوتوں میں معزز مہمان بن کر شریک ہوتا ہے۔ ہاں !اس روئے زمین پر، اسی نیلے آسمان کے نیچے اس عجیب وغریب ملک میں جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے وہاں اس سب کچھ کے نتیجے میں کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ وہاں لوگوں پر کبھی بش مسلط ہوتا ہے کبھی اوباما۔ اپنے ہی لوگوں کا ایک گروہ اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے باقی آبادی سے الگ ہوجاتا ہے۔ پھر قاتلوں کے اس گروہ کو کوئی پکڑ سکتا ہے نہ راہ راست پر لاسکتا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ بچے اغوا ہوجاتے ہیں۔ عورتیں چھن جاتی ہیں ۔ بوڑھے قتل ہوجاتے ہیں۔ اس عجیب و غریب ملک میں جہاں کے عوام یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں اور ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں، خدا کے عذاب کا کوڑا سرسرا کر، ہوامیں چمک کر، فضا میں بلند ہوکر، عوام پر یوں پڑتا ہے کہ کھال کٹ کٹ جاتی ہے، گوشت پھٹ جاتا ہے، ہڈیاں نظرآنے لگتی ہیں اور خون فوارے کی طرح ابلنے لگتا ہے۔ لوگوں پر بددیانت حکمران، لالچی مولوی، فتویٰ فروش عالم، بے ضمیر بیوروکریٹ اور کروڑوں اربوں میں کھیلنے والے اینکر پرسن مسلط ہوجاتے ہیں اور قوم کو جدھر چاہیں ہانک کر لے جاتے ہیں۔ عذاب کی بھی کیا کیا صورتیں ہیں!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved