تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     26-02-2023

عمران خان سے ملاقات اور مستقبل کے معاشی منصوبے

چند روز قبل چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان صاحب سے زمان پارک میں ملاقات ہوئی۔ خان صاحب نے سب سے پہلے آڈیو لیکس پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور مخالفین کی ساری توجہ آڈیوز ریکارڈ کرنے پر ہے‘ انہی غیرسنجیدہ رویوں نے ملک کو یہاں پہنچا دیا ہے۔ ان بدترین حالات میں انتخابات ہی واحد حل ہیں۔ ملک بچانے کے لیے میرے پاس آخری آپشن تھا کہ میں اسمبلیاں توڑ دوں تاکہ نئے انتخابات ہو سکیں اور عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت اقتدار میں آ سکے۔ ہم نے وہی کیا جو آئین میں لکھا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے نوے دن بعد انتخابات ہوں گے‘ اگر ہمیں پتا ہوتا کہ یہ آئین توڑیں گے اور انتخابات نہیں کروائیں گے‘ تو ایسا نہ کرتے۔ بھلا کون اپنی حکومت خود ختم کرتا ہے لیکن ملک بچانے کے لیے میں نے یہ قدم اٹھایا۔ تمام قانون دان اس بات پر متفق ہیں کہ انتخابات نوے دن میں ہی ہونے چاہئیں۔
میں نے خان صاحب سے سوال کیا کہ عوامی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کے جو حالات ہو چکے ہیں‘ کوئی بھی حکومت آئے وہ اسے سنبھال نہیں سکے گی۔ اگر بروقت انتخابات ہو بھی جاتے ہیں اور پہلے صوبوں میں اور پھر وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت آ جاتی ہے تو ملک بحران سے کیسے نکلے گا‘ آپ کیا اقدامات کریں گے کہ ملک کی معاشی سمت سیدھی ہو سکے؟ عمران خان صاحب نے جواب دیا کہ اب ملک کو اوپر اٹھانے کے پرانے طریقے بے سود ہوچکے ہیں۔ مڈل کلاس کو اوپر اٹھائے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ بڑے کاروباری افراد نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے‘ جنہوں نے بچنے کے لیے کئی راستے نکال رکھے ہیں‘ اب ان کا راستہ روکنا ہوگا۔ ٹیکس معاملات کے فیصلے جلدی کرنا ہوں گے۔ اربوں روپوں کے ٹیکسز صرف اس لیے وصول نہیں ہو پاتے کہ کئی برسوں سے ان کے فیصلے نہیں ہو سکے۔ یہ ایکسپورٹ کا زمانہ ہے۔ ہم نے اپنے دور میں ریکارڈ ایکسپورٹ کی تھیں۔ ملک میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ ٹیکسٹائل ملوں کو کام کرنے والے افراد نہیں مل رہے تھے۔ جب ایک بڑی ٹیکسٹائل مل ایکسپورٹ کرتی ہے تو اس کے ساتھ بیسیوں چھوٹی انڈسٹریز بھی کام کرنے لگتی ہیں۔ جب تک مڈل کلاس اوپر نہیں آئے گی مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ مڈل کلاس کو کاروبار کرنے کے لیے سستے قرضوں سمیت تمام ممکنہ سہولتیں دی جائیں گی۔ ملک میں کالا دَھن بہت زیادہ ہے‘ جسے سسٹم میں لانے کی ضرورت ہے۔ جب ہماری حکومت آئے گی تو نئی انڈسٹری لگانے والوں کوٹیکس فری زون مہیا کیے جائیں گے۔ انہیں سہولت فراہم کی جائے گی کہ وہ انڈسٹری لگائیں اور ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا ہے۔ اس سے نہ صرف کاروباری طبقہ پھلے پھولے گا بلکہ نئی نوکریاں بھی پیدا ہوں گی۔ پاکستانی سرمایہ کار ملک سے پیسہ نکال کر دبئی‘ برطانیہ اور یورپ منتقل کر رہے ہیں کیونکہ وہاں ان سے نہیں پوچھا جاتا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ ہم کاروباری طبقے کو ایمنسٹی اور ٹیکس ہیونز جیسی سہولتیں اپنے ملک میں ہی فراہم کریں گے تاکہ وہ یہاں منافع کمائے اور پیسہ بیرونِ ملک منتقل نہ کرے۔ اس کے علاوہ ہر امپورٹ کرنے والی انڈسڑی کو پابند کیا جائے گا کہ وہ کچھ نہ کچھ ایکسپورٹ بھی کرے۔ انڈسٹریز کے نمائندوں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ خود اپنی اپنی انڈسٹری کی بہتری کے لیے پالیسیاں تشکیل دیں اور حکومت کے پاس لائیں۔ حکومت ان کی مشاورت سے یہ پالیسیاں لاگو کرے گی۔
میرا اگلا سوال تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے آپ کیا پالیسی اپنائیں گے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت نالائق‘ نکمی اور کرپٹ ہے۔ یہ کینسر کا علاج ڈسپرین سے کر رہی ہے۔ چار ارب ڈالرز کی امپورٹ بندرگاہ پر رکی ہوئی ہے اور جون تک تقریباً چھ ارب ڈالرز کیش میں واپس کرنے ہیں۔ اگر چار پانچ ارب ڈالرز آ بھی جاتے ہیں تو اس سے کیا ہوگا۔ آئی ایم ایف قرض ملنے کے بعد بھی قرضوں کی قسطیں ادا نہیں ہوں سکیں گی۔ یہ مشکل سے دو تین مہینے گزار سکیں گے‘ اس کے بعد پھر یہی حالات ہو جائیں گے۔ ہم نے آئی ایم ایف کو بہتر انداز سے ڈیل کیا تھا کیونکہ ہم نے صرف قرضوں پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ ملکی آمدن بھی بڑھائی تھی اور اخراجات کم کیے تھے۔ دنیا کے کامیاب معاشی ماڈلز پاکستان میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پنشنز کو ملائیشیا طرز کے پنشن فنڈز پر منتقل کر رہے تھے۔ رجیم چینج کے بعد پنشنز کا بجٹ مزید بڑھ گیا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ان سے ملک نہیں چلے گا کیونکہ یہ ملک چلانے نہیں بلکہ اپنے کیسز ختم کروانے آئے ہیں۔
پھر میں نے پوچھا کہ زراعت کے بارے میں آپ کی کیا پالیسی ہو گی؟ خان صاحب نے جواب دیا کہ میں خود کسانوں کے پاس جاتا تھا۔ ان کے لیے تاریخ کے بہترین پیکیجز دیے۔ ان کے لیے مارکیٹ اوپن چھوڑ دی تاکہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے مطابق قیمتوں کا تعین خود ہو سکے۔ میں نے کسانوں کو ان کی مرضی کی پالیسی دی اور انہوں نے مسلسل تین سال بہترین فصلیں پیدا کیں۔ جب دوبارہ ہماری حکومت آئے گی تو کسانوں کے لیے ماضی کی طرح بہترین پیکیجز لائے جائیں گے۔ کپاس کی پیداوار بہتر کرنے کے لیے ریسرچ سنٹر بنائے جائیں گے۔ پاکستان کا کسان بہت محنتی ہے لیکن بدقسمتی سے اسے ہی سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ستر فیصد طبقہ زراعت سے منسلک ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بھی زراعت سے جڑی ہے۔ کسانوں کی منڈیوں تک رسائی آسان بنائیں گے۔ مڈل مین کا کردار ختم کریں گے کیونکہ اصل منافع تو وہ کھا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے دور میں کسان کو گنے کی بہترین قیمت دلوائی تھی اور شوگر ملز مالکان کے گرد گھیرا تنگ کیا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ نظام بنایا تھا لیکن اِنہوں نے دوبارہ شوگر مافیا کو مضبوط کر دیا ہے۔ جب ہم حکومت میں آئیں گے تو گنا پیدا کرنے والوں کو درست قیمت وقت پر دلانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ اس کے علاوہ جدید مشینری لینے کے لیے کسانوں کو سستے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ چین اور بنگلہ دیش ایک ایکڑ سے جتنی پیداوار حاصل کرتے ہیں‘ ہمارا کسان اس سے آدھی پیداوار حاصل کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پچھتر سالوں میں کسان اور زراعت کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا۔ میرا اگلا سوال تھا کہ ملک میں ڈالرز نہیں ہیں اور انٹربینک میں ڈالر نیچے جا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر گرے مارکیٹ پیدا ہو رہی ہے۔ اگر آپ کی حکومت آئے گی تو آپ ڈالر کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کریں گے؟ خان صاحب نے جواب دیا کہ موجودہ حکمران منی لانڈرنگ کے ماہر ہیں۔ ان کے اثاثے بیرونِ ملک پڑے ہیں۔ ڈالر کا ریٹ بڑھتا ہے تو ان کے اثاثے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ گرے مارکیٹ پیدا کرنے کے بینیفشری ہیں۔ اِنہوں نے امپورٹرز کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ہنڈی حوالے سے ڈالر خرید کر ایل سیز کی ادائیگی کر دیں۔ بھلا ایسا کبھی کسی ملک میں ہوا ہے۔ ہمارے دور میں گرے مارکیٹ پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ ہم نے ڈالر ریٹ کو اس کی مارکیٹ کے مطابق آزاد رکھا تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ زرِمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ گئے تھے۔ جب دوبارہ ہماری حکومت آئے گی تو ڈالر کی سپلائی اس کی ڈیمانڈ سے زیادہ ہو جائے گی کیونکہ ہم ڈالر سمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔ جیسا کہ ماضی میں کیے۔ طالبان حکومت کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ کاروباری طبقہ بھی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ ہمارے دور میں خوشحال ہوا تھا۔ جب ایکسپورٹ انڈسٹری کا حکومت پر اعتماد بحال ہو جائے تو ڈالر خود بخود آنے لگتے ہیں۔
ملاقات کے دوران معیشت پر سب سے زیادہ سوالات میں نے کیے۔ دوستوں کا کہنا تھا کہ خان صاحب نے سب سے زیادہ وقت آپ کو دیا ہے۔ میرے سوالات کے جوابات کے دوران کسی نے کائونٹر کویسچننگ کی کوشش کی تو خان صاحب نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور کہنے لگے کہ میاں صاحب کے سوالات بہت اہم ہیں‘ ان کے جوابات دینا بہت ضروری ہے۔ میں نے ملاقات کے اختتام پر خان صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved