تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     27-02-2023

فرائنگ پین کو عزت دو! صرف

دنیا بدل گئی۔ مغرب کیا مشرق میں بھی دو درجن سے زائدملک 'ستاروں سے آگے‘ قولِ اقبال والے 'جہاں اور بھی ہیں‘ کی تلاش کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ باقی دنیا کے لیے حکمرانی ایک بھاری ذمہ داری ہے جبکہ پاکستان میں چند خاندانوں کے لیے حکمرانی ایک بہترین بزنس آپشن ہے۔وہ بھی ایسا بزنس آپشن جس میں نہ کوئی Initial Capitalکی کوئی ضرورت‘ نہ ہی انویسٹمنٹ درکار ہے۔ ان خاندانوں کے لیے حکومت میں آنا ایک ایسا بزنس آپشن ہے جس کے لیے نہ رسیدچاہیے‘ نہ NTN نمبر۔صرف چند چپڑاسی‘ کچھ فالودے والے‘ کچھ کیش کیری بوائز اور کچھ ہم+ درد۔جو کبھی کبھی فرنٹ مین والا درد سہہ سکیں۔پاکستان میں اس طرزِ حکمرانی کا نتیجہ یہ ہے ہم ان دنوں مغرب کے ملکوں میں یونیورسٹی کے علمی اور تحقیقی لیکچرزسے لے کر جمعہ کے مذہبی اور روحانی خطبات کے اجتماعات میں یاد کیے جاتے ہیں۔
حال ہی میں ایک انگلش پروفیسر تیسری دنیا میں لوٹنے اور اُجاڑنے والے طرزِ حکمرانی کی فہرست پہ لیکچر دے رہے تھے۔پروفیسر صاحب کرپشن سے اُجڑنے والے معاشروں کی فہرست میں پاکستان کا نام لیتے ہیں۔ پھر لندن میں مقیم اُس پاکستانی کی تصویر سکرین پر آجاتی ہے جس کے پاس کوئی رسید ہے نہ کوئی منی ٹریل‘ اور نہ ہی اُسے پچھلے چار عشروں میں یہ پتہ چل سکا کہ ایون فیلڈفلیٹس کے لیے کس ملک کے ہم + درد نما انسان نے غائبانہ امداد کے لیے اُسے یہ شاہی امارت گفٹ کے طور پر پیش کی۔ دوسری جانب ایک جامعہ مسجد کے امام صاحب ہیں جو ایک مغربی ملک کے ایک بڑے شہر میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں۔ پروفیسرصاحب اور امام صاحب میں دو چیزیں Common تھیں۔ ایک انگریزی زبان اور دوسری کرپشن کی فہرست کا نمبر ون۔امام صاحب نے فرمایا‘کچھ عرصہ پہلے تک ایک افریقی ملک Eritreaکا نام کرپشن اور بے ایمانی میں پہلے نمبر پرا ٓیا کرتا تھا۔ مجھے اب پتا چلا ہے کہ پاکستان نے Eritreaسے کرپشن میں نمبر ون رہنے والا یہ اعزاز چھین لیا ہے۔ پھر امام صاحب ہنستے ہوئے کہتے ہیں‘ اس کے ساتھ مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ اعزاز چھیننے کے لیے پاکستان نے Eritreaکو باقاعدہ رشوت دی ہے۔ یہ دونوں وڈیوز وائرل ہیں جس میں بولنے والے کی آڈیوز بھی اور وڈیو بھی موجود ہیں۔ آگے آپ کی مرضی ہے۔اگر آپ چاہیں تو وڈیو کو عزت دے دیں اور دل چاہے تو آڈیو کو عزت دیں۔
آیئے اس طرزِ حکمرانی کا صفحہ پلٹتے ہیں۔ اپنے راج نیتک سماج کا ایک اور باب دیکھنے کے لیے۔ پاکستان میں کسی وقت بزرگوں کو عزت دو‘ خواتین کو سیٹ دو‘ بچوں کو پیار دو‘ وطن پر جان وار دو‘ غریبوں کو مال دو‘ راستہ لینے کے لیے ہارن دو‘ جیسے جملے سننے کوملا کرتے تھے۔ پھر موسم بدلا اور سیاست میں ایسی رُت گدرائی اہلِ زر کی بے باکی نے نئی ڈکشنری جمع کرنا شروع کر دی۔اس ڈکشنری کے نمبر ون باب کی ترتیب کچھ یوں ہے؛ چندہ دو‘ ٹکٹ لو۔ ڈبل کیبن ڈالا دو‘ عہدہ لو۔ ایک عددNROدو‘ ایکسٹینشن لے لو۔ مزاحمتی سیاست سے زیادہ سیاست میں انویسٹمنٹ ڈال دو اور کرسیوں کی پہلی صف میں اچھی سی سیٹ لے لو‘ کا دور آگیا۔
یادش بخیر! جب ملک میں مزدور یونین اور سٹوڈنٹس یونینز جیسی تحریکیں چلتی تھیں‘ جو تقسیمِ ہند سے پہلے بھی موجود تھیں تب ان تحریکوں کو جن میں عام آدمی اور عام آدمی کے پڑھے لکھے بچے اور بچیاں محنت کے ذریعے ناموری کماتے تھے تب مزدور تحریک اور طلبہ تحریک سیاست اور جمہوریت کے لیے نرسری مانی جاتی تھی۔ بھلا ہو1977ء والے مارشل لاء کے فرائنگ پین کا۔ جس نے ساڑھے 11 سال کے عرصے میں مزدور تحریکوں کو نظامِ سرمایہ داری کے فرائنگ پین میں تَل کر رکھ دیا۔
جبکہ سٹوڈنٹس یونینز کے لیے اُس دور کے نظام نے اپنے دوست ججوں کو استعمال کیا۔ آئین کے بجائے LFOپر حلف اُٹھانے والوں نے طلبہ یونینز پر پابندی کا تاحیات ایسا فیصلہ صادر کر کے سٹوڈنٹس یونینز کو ایسے ہموار کیا جیسے کوئی چولھے پر فرائنگ پین کو گرم کر کے اُس سے کپڑے ہموار کرتا ہے۔ اس فرائنگ پین کو اتنی عزت ملی‘ جتنی کسی اور دور میں اس سے پہلے نہ ملی تھی۔
آیئے اگلا صفحہ پلٹتے ہیں جس پر ہمیں اِس فرائڈ عزت کے بازنمونے بصورت تاریخ یوں ملتے ہیں۔
پہلا نمونہ... یہ1954ء کا سال ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو بیک جنبش قلم تحلیل کر کے گھر بھیج دیا۔ اس گورنر جنرل نے جسے سازشوں اور نوازشوں نے بانی ٔپاکستان حضرتِ قائداعظمؒ کی کُرسی پرلا بٹھایا‘ اُس نے نئے الیکشن کی تاریخ دینے کے بجائے غیر منتخب حکومت مقرر کر دی۔گورنر جنرل غلام محمد نے الیکشن نہ کرانے کے دو بہانے بنائے تھے؛ ایک ملکی معیشت کی بدحالی اور دوسرا امن و امان کے بگڑتے حالات۔ اس کے خلاف تحلیل شدہ اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین ایڈووکیٹ عدالت چلے گئے‘ جہاں سے ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کا حکم غیر قانونی قرار دے کر اسمبلی بحال کروا دی۔ گورنر جنرل اینڈ کمپنی اُس وقت پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اپیلٹ کورٹ میں چلے گئے۔جہاں جسٹس منیر کے بینچ نے نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر عارضی غیر منتخب حکومت کو حیاتِ جاوداں بخش دی۔ وہی ہواجو اُس وقت کے چند درد مند جنہیں دربارِ سرکار شرپسند قرار دے رہاتھا‘ جس خدشے کا اظہار کر رہے تھے۔پاکستان منزلِ مراد سے کھائی میں لڑھک گیا اور قائداعظم کا دیا ہوا پاکستان دو ٹکڑے ہونے سمیت آج تک اُس غلط فیصلے سے مسلسل نقصان اُٹھا رہا ہے۔پھر یہ کہانی باربار دہرائی گئی۔
دوسرا نمونہ... ملک 75سا ل کا ہوگیا ہے۔ اب ہم سال 2023ء میں کھڑے ہیں۔ دوصوبائی اسمبلیاں‘ جن میں پاکستان کی 65 فیصد آبادی رہتی ہے‘ تحلیل ہو گئیں۔ ایک بار پھر گورنرز نے غیر منتخب حکومت قائم کر دی لیکن الیکشن کی تاریخ دینے سے انکار کر دیا۔ ایک بار پھر 1954ء والا بہانہ بنایا گیا ہے۔ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں اور امن و امان کی صورتحال دگر گوں۔ ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کی تاریخ نہ دینے اور 90 روز والے آئینی حکم کو التوا میں ڈالنے کو غیر آئینی قرار دیا۔ ایک بار پھر ایک کے بجائے دو اسمبلیوں کے سپیکرز نے گورنرز کی آئین شکنی پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ایک بار پھر ملک اُس دوراہے پر آن کھڑا ہوا ہے جہاں ہمارا ملک ٹوٹا تھا۔ ایک بار پھر سوال یہ ہے! کیا ہم نظریۂ ضرورت والی تاریخ دہرائیں گے یا اُس غلطی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفنائیں گے؟ یہ جواب ہفتے‘ دس دن میں آپ کے سامنے آجائے گا ...صرف۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved