جاتی فروری کی چاپ اورآتے مارچ کی آہٹ دہلیز پر ہے۔لاہور کا موسم سرد سے معتدل کی طرف رواں ہے۔لیکن امسال سردی اپنا زور دکھا کر گئی ہے۔ فروری کے آغاز تک شدید ٹھنڈ لاہور کو غلاف کی طرح لپیٹ میں لیے ہوئی تھی۔ میں جنوری کی ایک سرد شام‘ جب برفیلی ہوا ہڈیوں تک گھسی جارہی تھی اور خبر تھی کہ شمالی علاقوں میں برف کے گالے اتر رہے ہیں‘گرم جیکٹ‘ مفلر میں لپٹا ہوالان میں چہل قدمی کیلئے نکلاتو حسبِ معمول اپنے حسین‘ سفید موروں کو ان کی سردیوں کی خوراک ڈالنے کیلئے گیا۔مور اپنے پر پھلائے‘اپنی جسامت سے دگنا جسم بنائے‘چونچیں موڑ کر اپنے پروں میں گھسائے سردی منا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ ہم گرم کپڑوں میں بھی ٹھٹھرے جارہے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے۔یہ اسی سردی کا مقابلہ گرم کپڑوں کے بغیر کیسے کرتے ہیں۔اور یہ تو خیر لاہور کے پرندے ہیں‘ سرد ترین علاقوں کے نہیں جہاں درجۂ حرارت صفر سے بھی بہت نیچے گر جاتا ہے‘ وہاں پرندے کیسے رہتے ہوں گے۔؟دنیا کے سرد ترین علاقوں میں بھی پرندے اور جانور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں اور ڈٹ کر کرتے ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بہت سے پرندے سردیوں کی آمد سے پہلے شمال سے جنوب کی طرف اڑان بھرتے ہیں۔ قریب قریب دس لاکھ مہاجر پرندے افغانستان‘قازقستان کے راستے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آتے ہیں۔یہ گرین روٹ یا انڈس فلائی وے ان کا راستہ ہے جہاں میٹھے پانیوں سے بھری منگلا‘ ہالیجی‘ کینجھر‘حمل کچری‘لنگ اور ہادیرو سمیت بہت سی جھیلیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔نقرئی کونجیں‘براق سارس‘ خاکستری تلور‘قرمزی گردنوں والی مرغابیاں‘ جامنی سرخاب‘سفید ہنس‘ سرمئی مگ‘لمبی ٹانگوں والی قازیں۔انہیں سرحدوں کی فکر نہیں ہوتی اور ہو بھی کیوں۔
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا (عرفان صدیقی)
ان دنوں طرح طرح کے پرندے سروں کے اوپر سے ڈاروں کی شکل میں آڑی ترچھی قوسیں بناتے گزرتے ہیں۔ان میں ہر ایک کے اندر وہ نظام نصب ہے جو انہیں ایک خاص سمت میں‘خاص ترتیب سے اڑنا سکھاتا ہے۔
ہر ایک جانتا تھا گرم پانیوں کا سراغ
سو جو بھی ڈار میں تھا‘ رہنما پرندہ تھا
لیکن سب پرندے توسردیوں میں ہجرت نہیں کرتے‘ اور دیگر جاندار بھی‘ وہ وہیں رہتے ہیں اور ڈٹ کر زمستانی ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ سائبیریا کی بات تو الگ‘اس سے کم سرد علاقوں میں بھی کڑاکے کی سردی تو پڑتی ہے۔تو قدرت نے انہیں کیسے زندہ رکھا ہوا ہے؟میں کچھ باتیں تو جانتا تھا لیکن اس موضوع پر پھر پڑھنا شروع کیا اور ہمیشہ کی طرح تحیر کے سمندر میں ڈوب گیا۔ہر ایسی بات جو کم از کم اپنے ذہن کیلئے نئی ہو‘اس بات کا ادراک کرادیتی ہے کہ ہم ہنوز‘انہیں تخلیق کرنا تو درکنار‘ انہیں سر مو جانتے بھی نہیں۔کتاب ِسبز نے کہا :اور اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کیلئے (القرآن)
کاٹ کھانے والی سردی میں جب ہم اپنے گرم کپڑوں اور گرم کمروں میں کپکپا رہے ہوتے ہیں‘تصورکیجیے کہ آپ منفی بیس ڈگری سنٹی گریڈ اور تیز برفانی ہواؤں میں کسی پرندے کی طرح کسی درخت پر بیٹھے ہوں یا تنکوں کے آشیانوں میں ہوں۔پرندے اپنے گھونسلوں اور شاخوں پر اس ظالم موسم کا مقابلہ کرنے کیلئے قدرت کی عجیب صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ انسانی جسم کے درجۂ حرارت یعنی 36.7ڈگری سنٹی گریڈ کے مقابلے میں پرندوں کا جسمانی درجۂ حرارت 40ڈگری ہوتا ہے یعنی زیادہ اونچا۔یہ انہیں اس سخت مقابلے میں مدد دیتا ہے۔گرمی کے اواخر میں پرندے زیادہ خوراک لے کر چربی اپنے بدن میں بھرلیتے ہیں اور گرما کے آغاز میں پھر دبلے ہوجاتے ہیں۔ان کے گھونسلوں اور آشیانوں کی بناوٹ ایک اور حفاظت کا راستہ ہے۔پھر یہ کہ بے شک پرندوں کو لحاف‘ جیکٹ اور سویٹر میسر نہیں لیکن یہ انہیں درکار بھی نہیں۔ انہیں پروں کا جو کوٹ قدرت نے عطا کیا ہے وہ انہیں ہر موسم میں مدد دیتا ہے۔صرف سردی ہی نہیں‘نمی‘گرمی اور سردی سب میں۔ اکثر صورتوں میں پرندوں کے پر موسم خزاں یعنی سردیوں کی آمد سے پہلے زیادہ اُگ آتے ہیں تاکہ سردیوں میں کوٹ کا کام کرسکیں۔سردی میں یہ سب پرندے اپنے پروں میں ہوا بھر کر پھول جاتے اور اپنے اصل جسم سے زیادہ موٹے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ دراصل اس طرح وہ اپنے پروں میں ہوا بھری ہوئی چھوٹی چھوٹی جیکٹیں اورجیبیں بنالیتے ہیں۔یہ ہوا ان کے جسم کی گرمی سے گرم ہوجاتی ہے اور باہر کی سردی ان کے جسم تک پہنچنے نہیں دیتی۔گویا وہ ایک گرم خیمے میں چلے گئے۔ لیکن ہوا کی ان تہوں کیلئے پرندوں کو صاف‘خشک اور لچک دا رپر چاہئیں۔آپ نے پرندوں کو اپنے پر صاف کرتے اکثر دیکھا ہوگا۔وہ ناکارہ‘زائد اور خراب پر نکالتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے پر اُگتے رہتے ہیں۔ صفائی کے اس عمل کو انگریزی میں پریننگ (preening) کہتے ہیں۔پر وہی حفاظتی کام کرتے ہیں جو جانوروں کے جسم پر اون کرتی ہے۔ ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی دُم کے پاس ایک غدودیعنی glandہوتا ہے جسے یوروپائجل (Uropygial)کہتے ہیں۔ اس غدود میں سے ایک تیل نکلتا ہے۔جس سے ان کے پر نمی سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس برساتی یعنی واٹر پروفنگ کا انتظام قدرت کردیتی ہے۔اسی طرح آپ نے ساتھ ساتھ بلکہ جڑ کر بیٹھے ہوئے پرندے دیکھے ہوں گے۔ یہ ان کا ایک اور حفاظتی نظام ہے جس میں وہ ایک دوسرے کی جسم کی گرمی کام میں لاتے ہیں۔قطب شمالی کے پینگوئن ہوں یا کینیڈا کی کالے سر والی چک آڈی ( Chickadee)یا عام چڑیاں‘سب اسی باہمی گرمی سے تیز ہوا کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ اور ہم جب سردی سے جسم کپکپاتے ہیں تو دراصل یہ بھی جسم کی ایک کوشش ہوتی ہے کہ فوری طور پر کچھ حرارت حاصل کی جائے۔پرندوں کا جسم بھی یہی کام کرتا ہے۔ وہ کپکپا کر کچھ دیر کیلئے گرم ہو جاتے ہیں۔ ایک اور کمال کی بات پرندوں کا میٹابولک (Metabolic) نظام ہے۔وہ اسے سست کرلینے پر قادر ہیں اور اس طرح وہ توانائی بچاتے ہیں۔ توانائی بچانے ہی کی ایک‘ دو صورتیں اور بھی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پرندے ایک ٹانگ پر بیٹھ کر دوسری ٹانگ جسم کے اندر چھپا لیتے ہیں۔ یا ایک ٹانگ پر گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے پنجوں اور ٹانگوں کا نظام دیکھیں تو بے ساختہ دل سے سبحان اللہ نکل جاتا ہے۔ ہم اگر منفی درجۂ حرارت میں بہت دیر رہیں تو ہماری ٹانگیں اور ہاتھ پاؤں فراسٹ بائیٹ (Frostbite) کا نشانہ بن جاتے ہیں لیکن پرندوں کے پنجوں اور ٹانگوں پر ایسے چھلکے‘ رگیں اور شریانیں ہیں کہ پرندے کبھی فراسٹ بائیٹ کا شکار نہیں ہوتے۔دن بھر چہچہانے کے بعد سرد رات میں ایک اور نظام کام کرنا شروع کردیتا ہے اور وہ نظام ہے ٹورپور(Torpor)۔ یہ نظام جسم کا درجۂ حرارت اور میٹابولک نظام سست کرکے جسم کو زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں رہنے دیتا۔ایک طرح سے یہ سمجھ لیں کہ جسم نیم غنودگی میں چلا جاتا ہے۔
غالب نے ایک بار اپنے طوطے کو پروں میں چونچ چھپائے‘جسم پھلائے دیکھا تو بولے :میاں مٹھو! نہ تمہاری بیوی نہ بچے‘ نہ ملازمت نہ روزگار کا دھندا‘نہ تم پر کوئی قرض‘ تم کس فکر میں مبتلا ہو ؟روایات میں مٹھو میاں کا جواب مذکور نہیں لیکن ممکن ہے اس نے چونچ باہر نکال کر کہا ہو کہ مرزا نوشہ ! تم روئی کا انگرکھا پہنے بیٹھے ہو‘ حقہ پاس ہے اور سارے لوازمات موجود۔ میرے پروں میں چونچ چھپانے پر تمہیں کیا اعتراض ہے؟ میں تو سردی سے بچنے کیلئے چونچ پروں میں دے لیتاہوں‘تمہاری طرح قرض کی مے تو نہیں پیتا۔ جاؤ! مجھے تنگ نہ کرو۔ کیا بعید کہ یہ سب ہوا ہو۔ آخر مٹھو بھی تو غالب ہی کا تھا۔سامنے والے کی بولتی بند کردینے والا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved