تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     27-02-2023

سانحۂ بارکھان اور انصاف کا قیام

خان محمد مری بلوچستان کے ضلع دُکی سے تعلق رکھنے والا ایک غریب آدمی ہے۔ وہ بارکھان کے سردار عبدالرحمن کھیتران کاذاتی گن مین تھا۔ کام کاج کے دوران کسی بات پر ناراضی کی وجہ سے خان محمد مری کو سردار کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا اور کئی سال جیل کاٹنے کے بعد جب وہ واپس آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اور ایک بیٹی سمیت سات بچے سردار کھیتران کی نجی جیل میں محبوس ہیں۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کی رہائی کے لیے بہت کوشش کی لیکن کہیں بھی شنوائی نہ ہو سکی۔ کئی برس تک خان محمد مری اس حوالے سے مختلف اداروں کے دروازوں پر دستک دیتا رہا۔ دو ماہ قبل میرے نوٹس میں اس کیس کو لایا گیا تو میں نے لارنس روڈ‘ لاہور پر واقع اپنے مرکز کے منبر سے اس کیس کو بھرپور طریقے سے اُٹھایا۔19 دسمبر کو اس حوالے سے میں نے ایک ٹویٹ بھی کیا کہ خان محمد مری انصاف کے حصول کے لیے کوشاں ہے‘ اس مظلوم انسان کی دادرسی کے لیے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بعد ازاں خان محمد مری لاہور آیا۔ لاہور پہنچنے پر جب اس نے اپنی دکھ بھری داستان کو تفصیل سے بیان کیاتو میرے دل پر دکھ اور غم کی ایک کیفیت طاری ہو گئی۔ خان محمد مری کے ہمراہ میں نے اسی وقت ایک وڈیو کلپ ریکارڈ کرایا اور حکامِ بالا سے ذاتی طور پر رابطے کیے۔اس کیس کو ایوانِ صدر اور دیگر کئی اہم شخصیات کے سامنے رکھا۔ بعد ازاں میں نے اس کیس کو سینیٹر مشتا ق احمد صاحب کے سامنے رکھا۔ وہ اُس وقت بیرونِ ملک تھے۔ سینیٹر مشتاق احمد صاحب جب پاکستان تشریف لائے تو اپنے وعدے کو پورا کیا اور اس کیس کو ایوانِ بالا میں بھرپور طریقے سے اُٹھایا۔ بعد ازاں یہ کیس انسانی حقوق کی کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔ اس حوالے سے ابھی کچھ پیش رفت نہ ہوئی تھی کہ ایک المناک خبر سننے کو ملی کہ بارکھان کے ایک کنویں سے دو لڑکوں اور ایک خاتون کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ لڑکوں کی لاش قابلِ شناخت تھیں‘ جبکہ خاتون کے چہرے کو تیزاب سے مسخ کر دیا گیا تھا۔ خان محمد مری نے لاشوں کو پہچان کر اس بات کی تصدیق کی کہ یہ اس کے بیٹوں کی لاشیں ہیں اور شبہے کا اظہار کیا کہ مسخ ہونے والی لاش اس کی بیوی یا بیٹی کی ہو سکتی ہے۔
بعدازاں یہ بات سامنے آئی کہ مسخ ہونے والی لاش خان محمد مری کی بیوی یا بیٹی کی نہیں تھی بلکہ وہ بارکھان ہی میں قیدیوں کی مظلومیت کے وڈیو کلپس بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنے والی ایک لڑکی کی لاش تھی۔ خان محمد مری کے ساتھ ہونے والا ظلم جب کھل کر سامنے آیا تو مری قبائل کے ساتھ ساتھ بلوچستان سمیت پورے ملک میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کوئٹہ میں بلوچ کمیونٹی نے اس حوالے سے ایک بڑے دھرنے کا انعقاد کیا جس میں دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ قرآن وسنہ موومنٹ کے دوست احباب بھی شریک ہوئے۔ اسی اثنا میں نیوی نے سرچ آپریشن کرکے خان محمد مری کے خاندان کے باقی افراد کو بازیاب کرالیا اور ان کی خان محمد مری کے ساتھ ملاقات بھی کرا دی گئی۔ اس کیس کی اب تک کی تحقیقات میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خان محمد مری کی بیوی اور بیٹی کو نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کے جسموں کو سگریٹ سے بھی داغا گیا جبکہ اس کے بیٹوں نے بھی یہ شکایت کی ہے کہ انہیں بھی جنسی تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
خان محمد مری کا کیس اپنی نوعیت کا واحد کیس نہیں ہے بلکہ ملک بھر میں اس قسم کے واقعات وقفے وقفے سے رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ان کے تدارک کے لیے خاطر خواہ لائحہ عمل نہیں اپنایا جاتا۔ اگر ان واقعات کے تدارک کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے اور کتاب وسنت میں مذکور تعلیمات سے استفادہ کیا جائے تو ان واقعات کی مؤثر طریقے سے روک تھام ہو سکتی ہے۔
کتاب وسنت میں ان واقعات کے تدارک کے لیے کڑی سزاؤں کو مقرر کیا گیا ہے اور جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے لوگوں پر ظلم اور زیادتی کرتا ہے‘ اس کے لیے کڑے احتساب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 33 میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: ''بے شک سزا اُن لوگوں کی‘ جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد مچانے کی (یہ ہے) کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا کاٹ دیے جائیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف (سمتوں) سے یا وہ نکال دیے جائیں زمین (ملک) سے‘ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے‘‘۔
احادیث مبارکہ میں بہت سے واقعات مذکور ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں جب کوئی شخص جرم کا ارتکاب کرتا ‘آپﷺ اس کے جرم پر اس کا کڑا احتساب کیا کرتے تھے۔اس حوالے سے صحیح بخاری میں مذکورتین اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود)‘ جس نے (غزوۂ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی‘ کے معاملے نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملے پر رسول اللہﷺ سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپﷺ کو بہت عزیز ہیں‘ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتاتھا؛ چنانچہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپﷺ نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپﷺ نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف (معزز اور طاقتور) آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔
2۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبائل عکل و عرینہ کے کچھ لوگ نبی کریمﷺ کی خدمت میں مدینہ آئے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے‘ کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے‘ (اس لیے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے)۔ انہیں مدینہ کی آب و ہوا ناموافق آئی تو آنحضرتﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ (روانہ) کر دیا اور فرمایا کہ انہیں اونٹوں کا دودھ وغیرہ پیو (تو تمہیں صحت حاصل ہو جائے گی) وہ لوگ (چراگاہ کی طرف) گئے۔ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے منحرف گئے اور حضور اکرمﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگنے لگے۔ اس کی خبر جب حضور کریمﷺ کو ملی تو آپﷺ نے چند صحابہ کرام کو ان کے پیچھے دوڑایا۔ (وہ ان افراد کو پکڑ کر مدینہ لے آئے) پھر حضور کریمﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے گئے (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) اور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑ دیا گیا اور آخرِ کار وہ اسی حالت میں مر گئے۔
3۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ (تاہم ابھی اس میں کچھ جان باقی تھی) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے، کیا فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں!)۔ وہ یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ نبی کریمﷺ نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رورعایت کا مظاہرہ نہیں کیا اور ایسے لوگوں‘ جنہوں نے معاشرے میں قتل وغارت گری کی یافساد پھیلایا‘ کا قلع قمع کرکے معاشرے میں امن وسکون کا قیام یقینی بنایا۔
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قتل کے بدلے قتل کا حکم دیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر178 میں ارشاد ہوا: ''اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو‘ فرض کیا گیا ہے تم پر قصاص لینا مقتولین (کے بارے) میں‘ آزاد (قاتل) کے بدلے میں آزاد (ہی قتل ہو گا) اور غلام (قاتل) کے بدلے میں غلام (ہی قتل ہو گا) اور عورت کے بدلے میں عورت (ہی قتل کی جائے گی)۔ پس جو (کہ) معاف کر دیا جائے اس کو اپنے بھائی کی طرف سے کچھ بھی‘ تو(لازم ہے اس پر ) پیروی کرنا دستور کے مطابق اور ادائیگی کرے اس کو اچھے طریقے سے یہ (دیت کی ادائیگی) تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے؛ پس جو زیادتی کرے اس کے بعد (بھی) تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔
چنانچہ ہمیں معاشرے میں قیامِ امن کے لیے قصاص کے قانون پر صحیح طریقے سے عمل کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ جو سرزمین پاکستان میں فساد کرتے اور غریبوں اور مظلوموں کا استحصال اور استیصال کرتے ہیں کسی قسم رورعایت کے حقدار نہیں۔ خان محمد مری کا کیس قانون نافذکرنے والے اداروں اور نظامِ انصاف کے سامنے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُمید ہے کہ غریب خان محمد مری کو جلد انصاف ملے گا اور ملک میں منفی سوچ و فکررکھنے والے لوگوں کے لیے یہ واقعہ عبرت کا سامان ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاہے کہ وہ سرزمین پاکستان کو ایک پُرامن ریاست میں تبدیل فرمائے اور ہمارے ملک میں امن اور انصاف کا بول بالا فرمائے، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved