چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے انتخابات میں تاخیر پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ''یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئین میں اسمبلیوں کی مدت پانچ سال درج ہے اور گزشتہ عام انتخابات میں لوگوں نے اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجا تھا۔ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا وزیراعلیٰ نے اسمبلی آئین میں رہتے ہوئے تحلیل کی ہے یا کسی سیاسی شخصیت کے کہنے پر توڑی ہے‘ ممکن ہے عدالت ریکارڈ کے جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی غلط توڑی گئی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسمبلی توڑنے کے اختیار کے غلط استعمال کے نتیجے پر پہنچنے سے اسمبلی بحال ہو جائے۔ اسمبلی کی بحالی کے فیصلے سے ممکن ہے کہ یہ بحران بھی ختم ہو جائے‘‘۔
قارئین! ان ریمارکس اور تحفظات کے منظرِ عام پر آنے سے تین روز قبل شائع ہونے والے کالم بعنوان ''خوف اور خواہش کے فیصلے‘‘ کی چند سطریں شیئر کرتا چلوں کہ ان ریمارکس نے اس تھیوری کو تقویت دی ہے کہ تحلیل شدہ اسمبلیوں کو بحال کر کے متوقع آئینی بحران سے بچا جا سکتا ہے۔ ''الیکشن کمیشن اور دیگر انتظامی اداروں کی طرف سے آنے والے عذر اور توجیہات سیاسی درجہ حرارت کو سوا نیزے پر لے جاتی نظر آ رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف نے پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر کے اگلے تین مہینے میں انتخابات کے مطابق جو حکمتِ عملی بنائی تھی‘ وہ بیک فائر کرتی نظر آ رہی ہے۔ انتخابات سے فرار یا گریز افراتفری اور انتشار میں مزید اضافے کا باعث ہو گی‘ تین ماہ کے اندر انتخابات نہ ہونے کی صورت میں آئینی پیچیدگیاں کیا رنگ لائیں گی‘ اس بارے میں دور کی کوڑی لانے والے ہوں یا اندر کی خبر نکالنے والے‘ سبھی جانتے ہیں کہ آنے والے حالات تر نوالہ ہرگز نہیں ہوں گے۔ عدالتِ عظمیٰ کو جہاں نئے نیب قوانین اور انتظامی تبادلوں پر تحفظات ہیں‘ وہاں تین مہینے کی آئینی مدت میں انتخابات نہ ہونے کی صورت یہ تحفظات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کرنی چاہیے کہ اگر الیکشن کمیشن انتخابات کرانے سے قاصر ہے تو آئینی بحران اور انتشار سے کہیں بہتر ہے کہ اسمبلیاں بحال کر کے معاملات عوامی نمائندوں کر سپرد کر دیے جائیں۔ ہم نے اسمبلیاں آئین کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے تحلیل کی تھیں‘ آئینی بحران اور افراتفری کے لیے نہیں‘‘۔
گزشتہ کالم اور مذکورہ ریمارکس کا حوالہ حالات کے رُخ کا پتا دینے کے ساتھ ساتھ متوقع آپشنز کی طرف توجہ دلانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ سیاست دانوں کے اکثر فیصلے زمینی حقائق اور درپیش چیلنجز کی نزاکت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے سبھی عالی دماغ فیصلہ سازوں کی طرزِ سیاست اور ان کے بعض اقدامات دیکھتے ہوئے بجا طور پہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ لگانے والی دوائی کھا لیتے ہیں اور کھانے والی دوائی لگائے چلے جا رہے ہیں۔ بالخصوص اقتدار میں آنے کے بعد تو انہیں نہ دوائی کھانے کی فرصت ملتی ہے اور نہ ہی لگانے کی اور پھر بتدریج ان کے سبھی امراض لاعلاج ہوتے چلے جاتے ہیں‘ نہ انہیں کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سجھائی‘ اسی لیے سنانے والے انہیں وہی سناتے ہیں جو وہ سننا پسند کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے انہیں 90 دن میں انتخابات کرانے اور آئین کی خلاف ورزی برداشت نہ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دوٹوک ریمارکس بھی انہیں سنائی نہیں دے رہے۔ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر دورِ حاضر تک‘ جمہوریت کے علمبرداروں نے برسرِ اقتدار آکر آئین و قانون اور ریاست کو کب ذاتی مفادات اور خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھایا؟ حصہ بقدرِ جثہ سبھی اس بدعت کو دوام بخشتے رہے ہیں۔
قارئیں کرام! آج کسی مخصوص موضوع کے بجائے چند منتخب خبروں پر بات کر کے نیت اور ارادوں سے لے کر ان سبھی کے دلوں کے بھید بھاؤ تک‘ سب کی خبر لینی ضروری ہے۔
٭ ''مالی بحران شدت اختیار کر گیا‘ تمام وزارتوں‘ ڈویژنوں اور محکموں کی تنخواہیں روکنے کا حکم‘‘۔ ڈیفالٹ اور بد ترین مالی بحران سمیت تمام زمینی حقائق جھٹلاتے وزیر خزانہ تردیدیں بھی برابرجاری کیے جا رہے ہیں جبکہ مسائل اور چیلنجز ان کے دعووں اور قد سے کہیں بڑے نکلے ہیں۔ ایک طرف وفاقی حکومت تنخواہیں دینے سے قاصر اور بدترین مالی بحران کا شکار ہے‘ دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انتظامی تبادلوں کی وہ آندھی چلائی جا رہی ہے کہ انتظامی ڈھانچہ حقیقتاً ڈھانچہ بن کر رہ گیا ہے۔ سینکڑوں تبادلے کیے جا چکے ہیں اور درجنوں تبادلے آئے روز جاری ہیں۔ ان تبادلوں سے انتظامی بہار کے بجائے خزاں کا دور دورہ ہے جبکہ ان پر اٹھنے والے اخراجات صوبائی خزانے کے لیے بھاری مالی صدمے سے ہرگز کم نہیں ہیں۔ غیر جانبداری کے تاثر کو اجاگر کرنے کی دھن میں اندھا دھند تبادلے جانبداری کا استعارہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تبادلوں کی بدعت کو دوام بخشنے کے بجائے چند اعلیٰ انتظامی سربراہان کو بلا کر باور کرا دیا جاتا کہ حکومت تبدیل ہو چکی ہے لہٰذا سبھی اپنا اپنا قبلہ درست کر لیں۔ اہداف اور ترجیحات واضح کر کے انہیں اوپن آپشن دیا جاتا کہ جو افسران حکومتی ایجنڈے اور پالیسی کے مطابق کام کرنے سے قاصر ہیں‘ ان کے لیے دروازے کھلے ہیں‘ حکومت پنجاب انہیں ہنسی خوشی سرنڈر کر کے متبادل افسران لانے کو تیار ہے۔ بخدا سبھی اپنا اپنا قبلہ درست کر کے اچھے بچوں کی طرح حکومتی اہداف اور پالیسیوں کو اپنا نصب العین بنا لیتے‘ نہ بندہ پروری کے الزامات لگتے نہ بندہ نوازی کے مگر گورننس کے موجودہ ماڈل نے حکومت کو 'تبادلہ سرکار‘ بنا ڈالا ہے۔ دوسری طرف ہاتھ کی صفائی کے جو قصے تحریک انصاف کی وزارتِ اعلیٰ کے دو ادوار میں زبان زدِ عام تھے‘ نگران عہد میں بھی ریکارڈ ترین مدت میں ان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ بالخصوص دو پرانے کاریگر تو ہاتھ روک ہی نہیں پا رہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
٭ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سمیت چند رہنماؤں نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے کہ ہم نے علامتی گرفتاری دی تھی‘ پولیس نے عدالتوں میں پیش نہیں کیا‘ لہٰذا سبھی کو رہا کیا جائے‘ جس پر عدالتِ عالیہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاریاں آپ سب نے خود دی تھیں‘ اب آپ عدالتوں پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔ جیل جاتے ہی سیاسی رہنمائوں کی خوابیدہ بیماریاں جاگ اٹھی ہیں جن کا علاج جیل کے ڈاکٹر کے بجائے ان کے اپنے معالج کے پاس ہے۔ اعظم سواتی الگ دہائی دے رہے ہیں کہ میں تو شاہ محمود قریشی سے ملنے آیا تھا‘ مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ جیل بھرو تحریک جیبیں اور تجوریاں بھرنے والوں کے لیے کڑی آزمائش ثابت ہو گی:
کیا اتنے ہی جری تھے حریفانِ آفتاب
نکلی ذرا جو دھوپ تو کمروں میں آ گئے
گرفتاریاں دینے والے تحریک انصاف کے رہنما شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جیل میں اکٹھے رہیں گے‘ گپ شپ اور محفل چلتی رہے گی لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان سبھی کو الگ الگ اور دور دراز جیلوں میں سچ مچ کے وہ شب و روز گزارنا پڑیں گے جو اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتے ہیں۔ ابھی تو ایک رات ہی گزری تھی کہ جیل بھرو تحریک کے غبارے سے نہ صرف ہوا نکل گئی بلکہ سبھی ایک دوسرے کے لیے نصیحت بن رہے ہیں کہ خواہ مخواہ کی ہلہ شیری میں آکر لیڈری دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ عمران خان تو واقعتاً سب کو جیل بھجوانے پہ تل گئے ہیں‘ اس تناظر میں جیل بھرو تحریک کے بعد کہیں ہم سب کو 'رہا کرو تحریک‘ نہ چلانی پڑ جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved