تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     27-02-2023

کوئی تو حد ہونی چاہیے

صبح سے شام تک جھوٹ کا ایساکاروبار کہ خداکی پناہ! اقتدار کے ایوانوں سے لے کر ریڑھی اور ٹھیلے کی سطح تک‘ ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ سننے کو ملتا ہے۔ اقتدار کی اعلیٰ سطح سے لے کر تھانے کے نچلے اہلکاروں تک محض جھوٹ۔ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی ایسی دوڑ کہ کچھ بھی اور دکھائی نہیں دیتا۔ رشوت کا ایسا چلن کہ جیسے اب یہ جینز کا حصہ بن چکی ہو۔ دو رُخی ایسی کہ پوری قوم ہی کا اعتبار اُٹھ چکا۔ کیا کریں‘ کہاں چلے جائیں‘ وہ فرشتے کہاں سے لے کر آئیں جو ہمارے ملک کو ٹھیک کردیں‘ جو مفادات کے اِس غلیظ کھیل کو روک سکیں۔ ایک ایسا حمام جس میں ہم سب ایک ہی جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ زبانوں پر ایمانداری کا ورد ہمیشہ جاری رہتا ہے اور کہنے کو ہر کوئی اپنے تئیں ایماندار ترین ہے لیکن پتا نہیں کیوں بحیثیت قوم دنیا ہمیں کرپٹ اقوام کی فہرست میں کھڑا کرتی ہے۔ اس وقت افراتفری کا وہ عالم ہے کہ عدالتیں بھی سیاست کا اکھاڑہ بن گئی ہیں۔ ہرروز کسی نہ کسی نئے سیاسی معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں آئین اور قانون کی بالادستی کے ایک بڑے دعویدار نے اِس انداز میں لاہور ہائیکورٹ میں انٹری دی کہ سب انگشت بدنداں رہ گئے۔ اب یہ سوال بجا طور پر اُٹھایا جارہا ہے کہ کیا قانون میں سبھی کو یہ سہولت حاصل ہے جو ان کو دی گئی تھی؟صرف ان پر ہی کیا موقوف‘ اِن سے پہلے والے بھی ایسی ہی رعایتوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ کوئی سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ایسی حرکتوں نے آئین و قانون کا حلیہ کس قدر بگاڑ دیا ہے۔ آج نولکھا بازار‘ لاہور کا وہ پان فروش سوال تو کرتاہو گا جسے رمضان آرڈیننس کی خلاف ورزی پر پانچ‘ چھ دن کی سزا ہوئی تھی لیکن رہائی چھ سالوں بعد نصیب ہو سکی تھی۔ عالم بالا سے غلام قادر اور غلام سرور بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے جنہیں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے 6 اکتوبر 2017ء کو قتل کے ایک مقدمے سے بری کیا تھا مگر ان کی بریت کے وقت علم ہوا کہ ان دونوں 'ملزمان‘ کو 13 اکتوبر2015ء‘ یعنی دو سال پہلے ہی پھانسی پر چڑھایاجاچکا ہے۔ یہ تو صرف دیگ کے چند دانے ہیں ورنہ توپورا نظام اوپر سے نیچے تک اس قسم کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔
یہی ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ ہے۔ ایک پاکستان عوام کا ہے‘ جنہیں قدم قدم پر رسوائی‘ ذلت اور تحقیر آمیز سلوک کا سامنا رہتا ہے‘ اور ایک اشرافیہ کا پاکستان ہے جس کے سامنے قانون اکثر و بیشتر موم کی ناک ثابت ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ ملک اسی اشرافیہ کا ہے‘ جسے پالنے کیلئے غریبوں کا خون نچوڑ نچوڑ کر اُنہیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا گیا ہے۔ وہ اشرافیہ جو یواین ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق ہرسال مراعات اور سبسڈیز کی مد میں کم از کم17.4 ارب ڈالر ڈکار جاتی ہے۔ وہ اشرافیہ جس کیلئے ہرسال کم و بیش دوبلین ڈالر کی لگژری گاڑیاں درآمد کی جاتی ہیں۔ وہ اشرافیہ جو عوامی خزانے سے درآمد کی گئی 60 کے قریب بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کر رہی ہے۔ وہ اشرافیہ جسے پٹرول، بجلی کا بل، ٹیلیفون، سکیورٹی حتیٰ کہ پانی تک مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ وہ اشرافیہ جس کیلئے ملک بھر میں‘ مختلف شہروں میں مختلف کلبز بنائے گئے ہیں جن کے لیے زمین تقریباً مفت فراہم کی گئی ہے۔ وہ اشرافیہ جس کیلئے بنائے گئے سینکڑوں ایکڑوں پر محیط کلبوں سے ایک روپیہ فی ایکڑ کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ وہ اشرافیہ جسے لاہورمیں بارہ‘ تیرہ سو کنال اراضی صرف پانچ ہزار روپے سالانہ لیز پر دی گئی ہے۔ وہ اشرافیہ جس کیلئے ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں سالانہ اربوں روپے کا پٹرول پھونک دیتی ہیں۔ چند روز قبل بزعم خویش مالیاتی اُمور کے ماہر اسحاق ڈار صاحب نے عوام پر 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کا بوجھ لاد دیا۔ ہمیشہ کی طرح وہی باتیں دہرائی گئیں کہ غریبوں پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ کم سے کم پڑے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ عوام اربابِ حکومت کے کہے پر دل و جان سے یقین لے آئیں۔ اب تو چند سیکنڈوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا جاتا ہے۔ کیا حکومت اس سوال کا جواب دے گی کہ عوام پر ایک سو ستر ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے سے پہلے اشرافیہ پر کون سے نئے ٹیکسز لگائے گئے تھے؟ ٹیکسز چھوڑیں‘ اس کو عوامی خزانے سے دی جانے والی مراعات پر کتنا کٹ لگایا گیا تھا؟حکومت نے ایسا کون سا فارمولا اپلائی کیا ہے کہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا اثر صرف امیروں تک محدود رہے گا؟ جی ایس ٹی کی شرح بڑھانے کے بعد یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ غریبوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا؟ جس حکومت نے نہ صرف ملکی تاریخ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی‘ 85 رکنی کابینہ پال رکھی ہو، اس سے یہ امیدیں کرنا کہ وہ سادگی اپنائے گی جھوٹ اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ معیشت پاتال سے جا لگے، عوام فاقوں سے مر جائیں، لوگ غربت سے خودکشیاں کرنے لگیں‘ کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ حکومت کی صرف یہی ترجیح ہے کہ ہمارا اقتدار باقی رہے، ہمارے مقدمات ختم ہونے چاہئیں۔ جب حالات یہ ہوں تو وہ سب کچھ ہونا ہی ہوتا ہے جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
آج ہم ایک‘ ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرض کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ رہے ہیں۔ اُس کی ہرشرط ماننے کیلئے تیار ہیں لیکن جب اُس کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ سرکاری افسران کے اثاثے منظرِ عام پر لائے جائیں تو ہم خاموشی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ یہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ اگر تمام نہیں توسرکاری افسران کی اکثریت کے اثاثے اُن کی آمدن سے زیادہ ہوں گے۔ آمدن سے زیادہ اثاثے کہاں سے اور کیسے بنائے گئے‘یہ وہ کھلا راز ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ہماری ساری اشرافیہ ایک مقدس گائے ہے۔ سب نے ریاست کے اندر اپنی اپنی ریاستیں قائم کررکھی ہیں اور موج کررہے ہیں۔جب آئی ایم ایف کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ سبسڈیز کا رخ امیروں سے غریبوں کی طرف موڑ دیا جائے تو ہم چون و چرا کرنے لگتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹینا لینا جارجیونے واضح طو رپر کہا ہے کہ اگر حکومت ملک کی معیشت بہتر بنانا چاہتی ہے تو اُسے زیادہ آمدنی والوں سے زیادہ ٹیکس لینا ہوگا اور غریبوں کو سبسڈی دینا ہوگی۔ یعنی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اب غیرملکی ادارے ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ کچھ تو احساس کرو‘ کب تک غریبوں کو لوٹ کر امیروں کی جیبیں بھرتے رہو گے۔ یہ ہے غیرملکی مالیاتی اداروں کی کارکردگی اور ہمارے بارے میں پایا جانے والا ان کا تاثر‘ لیکن وزیرخزانہ صاحب کہتے ہیں کہ ہم غریبوں پر زیادہ بوجھ ڈالنے کے قائل نہیں ہے‘ وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ہمیں مجبور کر رہا ہے نئے ٹیکسز لگانے پر۔ یہ جو غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرتے نہیں تھکتے‘ اگر اِن کے لباس، جوتوں، جیولری اور برانڈڈ ہینڈ بیگز کی قیمتوں کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ جاتے ہیں۔ ملک کے قانون کی تو اس اشرافیہ کو رتی بھر بھی فکر نہیں‘ کم از کم اتنا ہی سوچ لیں کہ ایک روز حقیقی مالک کے سامنے بھی پیش ہونا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں اِس دنیا میں بھی جوابدہی کا ڈر ہوتا تو کیا پھر بھی ہمارا طرزِ عمل ایسا ہی ہوتا؟ہرگز نہیں! اِسی لیے تو ہم نے دنیا کے قانون کو موم کی ناک بنا دیا ہے۔ اکثر کا حال یہ ہے کہ انہیں روزِ آخرت کا بھی کچھ خوف نہیں ہے۔ کیا کبھی آپ نے کسی امیر یا طاقتور کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں تمہیں روزِ آخرت کو دیکھوں گا؟ وہاں تم سے اپنا حساب چکتا کروں گا؟ یقینا نہیں سنا ہوگا! کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ملک کے موجودہ نظام کے تحت وہ اپنا انتقام لینے کی بھرپور طاقت رکھتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ غریب کے منہ سے ہی سنیں گے کیونکہ موجودہ نظام میں اُس کے لیے کوئی جائے پناہ ہی نہیں بچتی۔ اِسی لیے تو ہم ہرروز طاقتوروں کی عدالتیں لگی ہوئی دیکھتے ہیں؛ جس کو چاہو اُٹھا لو اور غائب کردو۔ انہیں پتا ہے کہ کسی کی ہمت نہیں کہ اُن سے جوابدہی کرے۔''برائون صاحب‘‘ کو یہی نظام سوٹ کرتا ہے تو وہ بھلا کیوں اِسے تبدیل کرے گا؟ اب عوام نے عمران خان سے یہ اُمیدیں وابستہ کررکھی ہیں کہ شاید وہی کوئی کرشمہ کردکھائیں۔ تمام اختلافی باتوں سے ہٹ کر‘ اگر دیکھا جائے تو کم از کم ایک تبدیلی تو دیکھنے میں آرہی ہے کہ خوف کی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔ محسوس ہو رہا ہے کہ اب یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے اور شاید اِسی میں سے کوئی خیر کی صورت نکل آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved