مدینہ منورہ کا پرانا نام یثرب تھا۔ یہاں دو عرب قبائل اوس اور خزرج آباد تھے جبکہ یہودیوں کے بھی تین قبیلے اس شہر میں بستے تھے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ آنے والے تمام لوگوں کے پاس جاتے اور اسلام کی طرف ان کو دعوت دیتے تھے۔ یثرب سے مکہ آنے والے ایک قافلے کا حال مؤرخین نے بیان کیا ہے۔ یہ بنواوس کا ایک وفد تھا جو ابوالحیسرانس بن رافع کی قیادت میں مکہ آیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ قریش سے خزرج کے مقابلے پر مدد طلب کریں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ایک قافلہ آیا ہے ۔ آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا: کیا تمہیں کو معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس کس لیے آیا ہوں؟ انہوں نے کہا: بتائیے کس لیے آئے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں اللہ کا پیغام پہنچاؤں۔ میں اللہ کی طرف سے اس کے بندوں کی جانب اس کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ میری دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اللہ تعالیٰ نے میرے اوپر کتاب بھی نازل کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنِ پاک کی بعض آیات بھی ان کو پڑھ کر سنائیں۔
قافلے میں ایک نوجوان تھا جس کا نام ایاس بن معاذ بیان ہوا ہے۔ اس نے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو اور قرآنِ مجید کی آیات سنیں تو کہا: اے میری قوم کے لوگو! خدا کی قسم جس مقصد کے لیے تم آئے ہو اس سے کہیں زیادہ بہتر یہ پیغام ہے۔ اس پر سردارِ وفد انس بن رافع نے اسے بری طرح سے ڈانٹا، مٹی کی مٹھی بھر کر اس کے منہ پر پھینک دی اور کہا: میری عمر کی قسم! ہم اس مقصد کے لیے نہیں آئے بلکہ اس سے زیادہ بہتر مقصد ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ایاس اس موقع پر خاموش ہوگیا۔ پھر یہ لوگ کچھ دنوں کے بعد واپس مدینہ چلے گئے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جنگِ بعاث کا واقعہ رونما ہوا۔ اس جنگ میں دیگر لوگوں کے ساتھ ایاس بھی قتل ہوگیا۔
ابن کثیر نے محمود بن لبید کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایاس مسلمان ہوگیا تھا۔ اس کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ ہم اس کی زبان سے ہر وقت لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اللّٰہ اکبر، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور سُبْحَانَ اللّٰہِ کے کلمات سنا کرتے تھے۔ ایاس بڑی خوبیوں کے مالک نوجوان تھے، مگر اللہ کی مشیت معلوم نہیں کیا تھی کہ انہیں بہت تھوڑی مہلت ملی اور وہ قبائلی جنگ کی نذر ہوگئے۔ ابھی ان کی زیادہ تربیت نہ ہوئی تھی کہ وہ اسلام کے تفصیلی احکام جان سکتے؛ البتہ ان کی زبان جس طرح ایک اللہ کی تحمید وتقدیس اور تہلیل سے تر رہتی تھی، اس سے ان کے ایمان کی شہادت ملتی ہے۔ واللہ اعلم! (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، ص: 544)
ابوزرعہ الرازی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: ''رافع بن مالک اور معاذ بن عفراء کا قبولِ اسلام‘‘۔ رافع کے پوتے معاذ بن رافعہ بن رافع اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد رافع بن مالک اور ان کے خالہ زاد معاذ بن عفراء مدینہ سے مکہ گئے۔ وہاں ایک پہاڑی سے اترے تو ان دونوں نے دیکھا کہ ایک شخص درخت کے نیچے بیٹھا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم نے سوچا کہ اس شخص کے پاس جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ وہ ہماری سواریوں کی دیکھ بھال کرے تاکہ ہم بیت اللہ کا طواف کر آئیں۔ ہم اس کے پاس آئے اور اسے جاہلیت کے طریقے کے مطابق سلام کیا۔ اس نے اسلامی طریقے کے مطابق ہمیں جواب دیا۔ ہمیں یہ جواب عجیب لگا تو ہم نے کہا: آپ کون ہیں؟ انہوں نے نہایت ہی اپنائیت کے ساتھ کہا: آپ اپنی سواریوں سے تو اتریں؛ چنانچہ ہم اپنی سواریوں سے اتر آئے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ مکہ میں کسی شخص نے نبوت کا اعلان کیا ہے تو ہم نے اس سے کہا کہ وہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور مختلف قسم کی باتیں بتاتا ہے وہ کہاں ہوگا؟ اس شخص نے کہا: اَنَا ہُوَ۔ (میں ہی تو وہ شخص ہوں) جب ہم نے سنا کہ وہ اپنے آپ کو نبی بتارہا ہے تو ہم نے کہا: پھر ہمارے سامنے اپنا دین پیش کیجیے۔
اس موقع آپﷺ نے ہمارے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور ہم سے پوچھا کہ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ نے۔پھر پوچھا کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ نے۔ اس کے بعد پوچھا: یہ بت جن کی تم پوجا کرتے ہو، انہیں کس نے بنایا ہے؟ ہم نے جواب دیا: ہم نے خود ان کو بنایا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا: خالق عبادت کا زیادہ حق دار ہے یا مخلوق؟ ہم نے کہا: خالق۔ اب ہم سمجھ گئے تھے کہ واقعی جس شخص سے ہم مکالمہ کررہے ہیں وہ اللہ کے سچے رسولﷺ ہیں۔ آپﷺ نے اس موقع پر فرمایا: تم نے کبھی سوچا کہ اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کی عبادت کرنا زیادہ اچھی بات ہے یا اس ہستی کی عبادت کرنا جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ میں تم سے لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی شہادت کا مطالبہ کرتا ہوں اور اللہ کی عبادت کی طرف تمہیں دعوت دیتا ہوں۔ اس کے ساتھ صلہ رحمی کا احترام اور دشمنی، بغض اور ناروا لوگوں پر غصہ کرنے سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہوں۔
یہ باتیں سن کر دونوں نے سنجیدگی کے ساتھ غوروخوض کیا۔ رافع کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں خانہ کعبہ کا طواف کرآؤں جبکہ معاذ بن عفراء ان کے پاس بیٹھا رہا۔ خانہ کعبہ کے طواف کے ساتوں چکر مکمل کرکے میں نے پانسہ نکالا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر محمدﷺ سچے رسول ہیں تو ان کا نام نکل آئے۔ سات مرتبہ میں نے یہ عمل دہرایا اور ہر مرتبہ آپﷺ ہی کا نام نکلتا رہا۔ پھر میں نے خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا: اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ۔ لوگ میرے گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے: یہ مجنون ہے، صابی ہوگیا ہے۔ میں نے جواب دیا: صابی نہیں، مومن ہوا ہوں۔ پس میں آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔
میرے ساتھی معاذ نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ اب آپ کا چہرہ وہ نہیں جس کے ساتھ آپ خانہ کعبہ کی طرف گئے تھے۔ میرے ساتھ معاذ بھی ایمان لے آیا۔ (عربوں کے ہاں پانسہ نکالنا بہت معروف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مدنی دور میں اسے حرام کردیا اور شیطانی اعمال میں سے قرار دیا۔ جب حضرت رافع نے پانسہ نکالا وہ بالکل ابتدائی دور تھا۔یہ ان کا اخلاص تھا کہ ہر مرتبہ حق کی بالادستی ہی ثابت ہوتی رہی۔ انہیں صابی کہنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ وہ صحابی ہوگیا ہے نہ کہ صابی)
اس موقع پر آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان دونوں صحابہ کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سمجھائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے ہمیں سورۃ العلق اور سورۂ یوسف سنائیں۔ پھر ہم عمرہ کرنے کے بعد مکہ سے مدینہ کی طرف آئے اور اپنی قوم کو اپنے اسلام کے بارے میں بتایا۔ اب یثرب کے لوگوں کو اسلام سے آشنائی ہونے لگی اور اس پاک دھرتی کے لوگ خود اپنے شہر سے چل کر تلاشِ حق میں منبعِ ہدایت کی طرف رختِ سفر باندھنے لگے۔ کیا خوش نصیب لوگ تھے اور کیا پاکیزہ دھرتی ان کا مسکن تھی۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص: 427)۔
یہ اسی خوش نصیب یثربی قافلے اور پاکیزہ صفت قائدﷺ کی برکات تھیں کہ مکہ کے بعد مدینہ دنیا کی سب سے پاکیزہ بستی بن گئی۔ اہلِ ایمان کے دل مکہ کی طرف بھی کھنچتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مدینہ جاکر تو دل چاہتا ہی نہیں کہ یہاں سے آدمی کوچ کرے۔ اسی شہر کو دھرتی کے سینے پر پہلی اسلامی ریاست کا مرکز ہونے کا شرفِ عظیم حاصل ہوا۔
طبقات میں ابن سعد نے لکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی قبیلے کو بھی نہیں چھوڑا جس تک دعوت نہ پہنچی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ آغاز میں ان قبائل میں سے اکثروبیشتر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس میں ابولہب اور دیگر قریشی معاندین کا بھی بڑا گھناؤنا کردار ہے۔ جب آپﷺ دعوت پیش کرتے تو ساتھ ہی ابولہب ان کی مخالفت میں لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے آپ پر مٹی پھینکتا اور صابی، مجنون اور نہ معلوم کیا کچھ کہتا۔ اس پر کئی قبائل کے لوگ کہتے کہ اگر اس شخص کی بات سچی ہوتی تو اس کے قبیلے اور خاندان والے کیوں اس کی مخالفت کرتے۔ آپﷺ نے مختلف مواقع پر حج کے موسم میں یا میلوں اور بازاروں کے مواقع پر اپنی دعوت کا کام جاری رکھا۔
ہجرت سے قبل آپ نے بنوعامر بن صعصعہ، بنومحارب بن خصفہ، بنوفزارہ، بنوغسان، بنوحنیفہ، بنوسلیم، بنوعبس، بنونضر، بنوالبکا، بنوکندہ، بنوکلب، بنوحارث بن کعب، بنوعذرہ، بنوخضارمہ سب قبائل تک اپنا پیغام پہنچا دیا تھا، مگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حوصلہ نہیں ہارا۔ آپﷺ اپنا کام مسلسل کرتے رہے۔ مختلف قبائل میں سے اِکا دُکا خوش نصیب شخص حلقہ بگوشِ اسلام ہوجاتا۔ ایک شخص کے بھی مسلمان ہونے سے آپﷺ بے انتہا مسرور ہوتے۔ (طبقات ابن سعد، ج: 1، ص:216 تا 217)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved