ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔ یہ جو وقت ہم دیکھ رہے ہیں‘ یہی فیصلہ کرے گا کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہو گی یا کسی ایسے فرد یا گروہ کی‘ جس کے پاس بے پناہ طاقت اور وسائل ہوں۔ فیصلہ کرنا ہو گا کہ معاشرہ آزاد ہو گا یا محبوس۔ یہ ثابت کرنے کا وقت بس آ ہی چکا ہے کہ ہم انسانوں کے معاشرے میں رہ رہے ہیں یا کسی جنگل میں؟ شاید وقت یہ بھی فیصلہ کر دے یا کوئی ایسی لکیر کھینچ دی جائے جس سے کسی کو بھی آئین شکنی اور قانون کو اپنے حق میں موڑنے سے خوف آنے لگے۔
ملکی حالات کو دیکھ کر کسی تردید کے بغیر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ لوگ اب خوف کے بت توڑ کر باہر نکل رہے ہیں اور ایسے میں فریقِ مخالف کا بدحواس ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس بدحواسی میں گرفتاریوں، کردار کشی اور مخالفانہ مہمات میں تیزی آتی جائے گی مگر حالات کے بدلتے دھارے کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ معاشرتی تفریق بھی شاید مزید گہری ہوتی جائے اور آخر میں صرف دو ہی گروہ نظر آئیں گے۔ ایک وہ جو عوام، آئین کی سربلندی اور قانون کے بلاتفریق نفاذ کے ساتھ کھڑا ہو گا اور دوسرا وہ جو اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اور عیش و عشرت کی زندگی کو برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہو گا۔ تاریخ کا سبق مگر یہی ہے کہ گروہِ ثانی کی شکست یقینی ہے۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے مگر جن کی عقلوں پر حرص و ہوس اور طاقت کے خمار کے دبیز پردے پڑے ہوں وہ دیوار پر لکھی تحریر کو کیونکر پڑھ سکتے ہیں؟ جنہوں نے حالات کی نبض جاننی ہو‘ ان کے لیے راجن پور میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 193 کے لیے ہوئے ضمنی الیکشن کا نتیجہ بھی کافی ہے۔ تحریک انصاف کے امیدوار محسن لغاری نے 90 ہزار سے زائد ووٹ لے کر لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی ہے۔ باقی تمام امیدواران کے ووٹ ملا کر بھی پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ غالباً یہی وہ خوف ہے جو اونچے ایوانوں میں دبکے ہوئوں کو لاحق ہے۔ وہ جو عوام کو اپنی طاقت بتاتے تھے‘ اب عوام ہی میں جانے سے گریزاں اور خوف کا شکار ہیں۔ اس خوف کا اظہار اداروں کے حوالے سے ہونے والی بیان بازی میں نمایاں تر ہے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں کے بعد اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جارحانہ بیان بازی شروع کر دی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ایک مہذب معاشرے کی طرح‘ ملک کی عدلیہ کے دیے گئے فیصلوں کو تسلیم کر کے اس سسٹم پر اعتماد کا اظہار کرتے لیکن چشمِ فلک نے عجب نظارہ دیکھا کہ جب سپریم کورٹ نے آئینِ پاکستان کی تشریح کرنے کیلئے لارجر بنچ بنایا‘ حکمران گروہ اور کسی نہ کسی طریقے سے حکومت سے مستفید ہونے والے یک زبان ہو کر اس طرح پل پڑے جیسے ان کے کسی ذاتی مسئلے میں دخل اندازی کی گئی ہو۔ ایک دم سے نجانے کیا ہوا کہ وکلا تنظیمیں تک منتشر نظر آنے لگیں۔ ہر کوئی عجیب و غریب قسم کے دلائل دینے کو بے تاب ہوا جا رہا تھا۔ سوال اٹھایا گیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دنوں ہی میں الیکشن کرانا لازمی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ گزشتہ پچاس سالوں میں کبھی نہیں اٹھایا گیا، گزشتہ پانچ دہائیوں میں بے شمار نظیرات مل جاتی ہیں کہ اس آئینی نکتے کی وضاحت کی گئی ہو اور اس کا نفاذ بھی یقینی بنایا گیا ہو۔
آئین کے تحت تحلیل کی جانے والی صوبائی حکومتوں میں مرضی کی نگران حکومتیں قائم کی جا سکتی ہیں‘ دور دراز کے ملکوں میں کئی سالوں سے مقیم من چاہے افسران کو واپس بلا کر پسندیدہ پوسٹوں پر تعینات اور درجنوں انتظامی عہدوں پر ٹرانسفرز کیے جا سکتے ہیں‘ جنہوں نے اسمبلیاں تحلیل کیں ان کے خلاف نت نئے مقدمات درج کرائے جا سکتے ہیں‘ جیل بھرو تحریک کے سیاسی قیدیوں کو عادی مجرموں کی طرح دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر گلی کوچوں میں گھمایا جا سکتا ہے‘ لیکن اس آئین کا احترام نہیں کیا جا سکتا جس نے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دہشت گردی جیسی سنگین دفعات لگا کر 48 سے زائد مقدمات درج کرا سکتے ہیں لیکن عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ووٹوں کا‘ ان کے حقِ رائے دہی کا سامنا نہیں کر سکتے۔ ملک کا باشعور طبقہ‘ جس میں آئین اور قانون کی کتاب پڑھنے اور پڑھانے والے بھی شامل ہیں‘ ایک ہی بات کہہ رہا ہے کہ نوے روز میں انتخابات کرانا لازمی ہے۔ حتیٰ کہ پی ڈی ایم کی مرکزی جماعت کے دو تسلیم شدہ آئینی ماہرین چودھری اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ بھی ملک کے ہر ٹی وی چینل پر کہہ رہے ہیں کہ پارٹی کا موقف اپنی جگہ‘ مگر آئین کی رو سے پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے نوے روز کے اندر اندر انتخابات نہ کرانا آئین کی پامالی اور اس سے غداری ہو گا مگر لگتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کیلئے نوے روز میں انتخابات کا مطالبہ کوئی چڑ بن چکا ہے کہ اس کا ذکر سنتے ہی وہ ادھر ادھر بدکنے لگتے ہیں۔ اگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو پھر عوام سے گھبراہٹ کیوں؟ جب جمہوریت ہی سیاست ہے تو عوام کو ان کا جمہوری حق دینے میں اس قدر گھبراہٹ کیوں؟
جب تحلیل کی جانے والی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے آئینی تقاضوں کے مطابق الیکشن کمیشن اور صوبوں کے گورنر حضرات نے ایک ماہ تک تاریخ نہیں دی تو پھر لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ نوے روز میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ جب صدرِ مملکت نے‘ جو اس ملک کے آئینی سربراہ اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں‘ نے یہ دیکھا کہ ملک انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے اور کوئی بھی ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام نہیں کر رہا ہے تو انہوں نے آئین کے مطابق پہلے تو الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ اس مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈا جائے‘ جس کا کوئی جواب نہ ملنے پر انہوں نے ایک اور خط لکھا کہ چیف الیکشن کمشنر ایوانِ صدر آ جائیں تاکہ باہمی مشاورت سے کوئی حل نکالا جا سکے مگر جوابی خط لکھتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدیدار کو کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ کا معاملہ عدالت میں ہونے کے باعث الیکشن کمیشن انتخابات کے معاملے پر صدرِ پاکستان کے دفتر سے مشاورت نہیں کر سکتا۔
میرے سامنے اس وقت سبز جلد والی آئین کی کتاب دھری ہے۔ جو صریحاً یہ کہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کی بھیجی گئی سمری پر گورنر اگر دو دن تک اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ گورنر کوئی منتخب نمائندہ تو ہوتا نہیں۔ جس جماعت کے پاس مرکز میں طاقت ہوتی ہے‘ وہ اپنے خاص بندوں کو گورنر بنا دیتی ہے جو آئین و قانون سے زیادہ پارٹی کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 101 سے 105 تک میں گورنرز کی ذمہ داریوں کا صریحاً احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک نظر ان آرٹیکلز پر ڈالیے اور پھر گورنرز کے موجودہ طرزِ عمل کا جائزہ لیں، کیا ان میں ذرا سی بھی مماثلت نظر آتی ہے؟ شاید اگر گورنر حضرات آئینی تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کا اعلان کر دیتے تو اب تک ان کی چھٹی ہو چکی ہوتی۔ بد قسمتی سے ہر کوئی آئین و قانون سے انحراف کرتا نظر آ رہا ہے۔ اب آخری امید ملک کی اعلیٰ عدلیہ ہی سے وابستہ ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جاری کیس میں دورانِ سماعت یہ استفسار کیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا اس حوالے سے کوئی توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہوئی جس پر بتایا گیا کہ 14 فروری کو لاہور ہائیکورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا ہے۔ صدر کے خطوط کا بھی ذکر ہوا کہ 8 فروری کو صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا کہا تھا۔ جو لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ از خود نوٹس کے بعد معاملہ طول پکڑے گا، پی ڈی ایم کے وکلا کئی دن تک بحث کو جاری رکھیں گے‘ یقینا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے ان ریمارکس نے انہیں مایوس کیا ہو گا کہ ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں‘ جہاں آئین خاموش ہے وہاں قانون موجود ہے، کل (28 فروری کو) کیس کو ہر صورت ختم کرنا چاہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved