پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات حکومت کے لیے زمیندار کی سترہ گھوڑوں سے متعلق وصیت والی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ حکایت ہے کہ کسی گائوں میں ایک بڑے زمیندار کا انتقال ہوا تو اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد جب اس کی وصیت کھولی گئی تو ایک مسئلہ پیش آ گیا۔ اس کی باقی کی جائیداد تو اس کے وارثان‘ جن میں اس کے تین بیٹے شامل تھے‘ میں بخوبی تقسیم کر دی گئی لیکن مرحوم زمیندار نے اپنے گھوڑوں سے متعلق عجیب و غریب وصیت کی تھی اور یہ معاملہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ مرنے والا اپنے پیچھے 17 گھوڑے چھوڑ کر گیا تھا جو اس کی وصیت کے مطابق اس طرح تقسیم کیے جانے تھے کہ سب سے بڑے بیٹے کو کل گھوڑوں کی تعداد کا نصف، منجھلے بیٹے کو گھوڑوں کی کُل تعداد کا ایک تہائی اور سب سے چھوٹے بیٹے کو کُل گھوڑوں کا نواں حصہ ملے۔ اب یہ کسی طور بھی ممکن نہیں ہو رہا تھا کیونکہ سترہ گھوڑوں کا نصف ساڑھے آٹھ بنتا تھا۔ ان گھوڑوں کو فروخت بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وصیت میں درج تھا کہ نہ تو ان قیمتی گھوڑوں کو بیچا جائے گا اور نہ ہی ان میں کوئی کمی کی جائے گی۔ جب سترہ گھوڑوں کا نصف ہی ممکن نہیں ہو سکا تو تیسرا یا نواں حصہ کیونکر ممکن ہوتا۔ اس گائوں اور اردگرد کے دیہات اور قصبات کے مانے تانے عقل مند اور جانے پہچانے سرپنچ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ کسی کی بھی سمجھ میں اس تقسیم کا کوئی حل نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ جب سب لوگ مایوس ہو کر بیٹھ گئے تو خدا کا کرنا یہ ہوا کہ بادشاہ کے ایک مشیر کا اپنے سپاہیوں اور خادمین کے ساتھ اس گائوں کے قریب سے گزر ہوا۔ گائوں کے قریب مجمع لگا دیکھ کر مشیر نے اپنے خادمین کو رکنے کا اشارہ کیا تو گائوں کے چند بڑے بزرگ ان تینوں نوجوانوں کو لے کر آگے بڑھے اور مشیر کو پورا ماجرا سنانے کے بعد اس سے درخواست کی کہ ان بچوں کے باپ کی وصیت کا کوئی حل نکالا جائے۔شاہی مشیر نے اصل وصیت منگوائی اور اپنے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے اس وصیت کو دو دفعہ بغور پڑھا۔ کچھ دیر اس نے سوچ بچار کی اور پھر گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ اس نے حکم دیا کہ فوراً سبھی گھوڑے سامنے خالی میدان میں لا کر کھڑے کیے جائیں۔ اس کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ اب اس نے اپنے ایک ملازم کو اشارہ کیا کہ میرا گھوڑا بھی لے جاکر سامنے خالی میدان میں کھڑا کر دو۔ ملازم نے مشیر کا گھوڑا میدان میں کھڑے باقی سترہ گھوڑوں کیساتھ کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد شاہی مشیر نے گائوں کے لوگوں کی موجودگی میں تینوں نوجوانوں کے باپ کی وصیت کو بہ آوازِ بلند پڑھا۔ سب سے اس وصیت کی تصدیق کرانے کے بعد شاہی مشیر نے زمیندار کے سب سے بڑے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ سامنے میدان میں کھڑے اٹھارہ گھوڑوں میں سے وہ اپنا حصہ یعنی نصف گھوڑے لے کر علیحدہ ہو جائے۔ زمیندار کا بڑا بیٹا آگے بڑھا اور نو گھوڑے لے کرالگ کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے منجھلے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ 1/3 یعنی چھ گھوڑے لے کر علیحدہ ہو جائو۔ اس کے بعد اس نے وصیت کا تیسرا حصہ بلند آواز سے پڑھا اور اٹھارہ گھوڑوں کا 1/9 حصہ یعنی دو گھوڑے سب سے چھوٹے بیٹے کے سپرد کر دیے۔ اب میدان میں صرف شاہی مشیر کا گھوڑا کھڑا تھا اور وصیت کے عین مطابق سترہ گھوڑے اس کے بچوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ گائوں کے سبھی افراد شاہی مشیر کی ذہانت پر دنگ رہ گئے۔
اس وقت پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے مابین الیکشن کا معاملہ زمیندار کی وصیت والی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس طرح سترہ گھوڑوں کی تقسیم مشکل ہو رہی تھی‘ اسی طرح ان دونوں فریقوں کے مابین کسی شے پر اتفاق نہیں ہو رہا بلکہ ہر ایشو پہلے سے بھی زیادہ تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے چند دن بعد تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دیے جنہیں اس وقت کے قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے تسلیم کر لیا اور پی ٹی آئی کے 20 منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس بھی الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا مگر بعد ازاں سپیکر آفس نے سابقہ نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا کہ استعفوں کی منظوری ضابطۂ کار کے مطابق نہیں تھی‘ اس لیے ہر رکن کو الگ الگ‘ ہاتھ سے لکھا ہوااستعفیٰ پیش کرنا ہو گا اور سپیکر آفس میں فرداً فرداً پیش ہو کر اپنے استعفے کی تصدیق کرنا ہو گی۔ یہ بحران گزشتہ سال کے آخر تک یونہی برقرار رہا۔ 25 دسمبر 2022ء کو قومی اسمبلی کے ترجمان نے ایک باقاعدہ لیٹر ایشو کیا‘ جو اِس وقت بھی قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ہے‘ جس کا متن ہے ''پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کے لیے بلایا جائے گا، پی ٹی آئی کے ہر ممبر قومی اسمبلی کو ذاتی حیثیت میں اپنے استعفیٰ کی تصدیق کرنا ہو گی، پی ٹی آئی کے ممبرانِ قومی اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کے لیے قومی اسمبلی کے طریق کار 2007ء کے قواعد و ضوابط کے ذیلی قاعدہ43 کے پیراگراف (B) کے تحت بلایا جائے گا‘‘۔ یہ خط شاہ محمود قریشی کے 22 دسمبر کے خط کے جواب میں لکھا گیا تھا جس میں اجتماعی طور پر استعفوں کی منظوری کی درخواست کی گئی تھی۔سپیکر قومی اسمبلی اس موقف پر ڈٹے رہے کہ جب تک اراکین قومی اسمبلی میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ اپنے چیمبر میں بلا کر استعفوں کی تصدیق نہیں کروں گاتب تک استعفے منظور نہیں ہوں گے۔ مگر جیسے ہی عمران خان نے ایک انٹرویو میں راجا ریاض کے اپوزیشن لیڈر اور نورعالم خان کے پبلک اکائونٹ کمیٹی کے چیئرمین بن جانے کے تناظر میں قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا تو دھڑا دھڑ استعفوں کی منظوری کے نوٹیفکیشن جاری ہونے لگے اور چند ہی دنوں میں تمام اراکین کے استعفے منظور کرلیے گئے۔ چونکہ پہلے پی ڈی ایم کو ایک سو تئیس نشستوں پر ضمنی الیکشن منظور نہیں تھا‘ اس لیے مرحوم زمیندار کی وصیت کی طرح یہ منظوری اس کے لیے سترہ گھڑوں والی وصیت بن گئی تھی مگر جب عمران خان نے پی ڈی ایم کے لے پالک اپوزیشن لیڈر کی سیٹ اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کو اپنے ہاتھ میں لینے کا عندیہ دیا‘ جھٹ پٹ تحریک انصاف کے سو سے زائد اراکینِ قومی اسمبلی کا استعفیٰ منظور کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ جب بھی قومی اسمبلی تحلیل ہو تو نگران حکومت کا قیام اپنی خواہشات کے مطابق عمل میں لایا جا سکے۔ گزشتہ روز جب پی ٹی آئی اراکین نے سپیکر قومی اسمبلی کو اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے حوالے سے خط لکھا تو سپیکر نے جواب دیا کہ ''قانون و آئین اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے تحت استعفے منظور کر چکا ہوں، اب واپسی ممکن نہیں‘‘۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ جو استعفے منظور کیے گئے وہ 11 اپریل 2022ء سے نافذ العمل بتائے گئے حالانکہ اس کے بعد جون اور پھر دسمبر میں سپیکر صاحب ہر رکنِ اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کیلئے طلب کر رہے تھے۔ رجیم چینج تو ہو گیا لیکن جو وصیت حکومت کے حوالے کی گئی تھی وہ عمران خان کی مقبولیت کی صورت میں اس کے گلے پڑ چکی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر عمران خان کی بطور امیدوار کثیر ووٹوں کے ساتھ کامیابی اور اب راجن پور کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی فتح سترہ گھوڑوں کی تقسیم سے زیادہ پیچیدہ صورت اختیار کر چکی ہے۔ پنجاب اور کے پی میں من پسند انتظامی افسران کی بھر مار کر نے کے بعد بھی حکومت انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔
اس پر بنیے کی وہ مثال شدت سے یاد آنے لگتی ہے جو ایک جٹ کی چھاتی کے اوپر بیٹھا ہوا مسلسل روتا جا رہا تھا۔ اردگرد کھڑے لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اسے پیچھے سے پکڑ کر گرا دیا ہے‘ اب اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھے ہو لیکن پھر بھی روئے جا رہے ہو؟اس نے کہا: میں رو اس لیے رہا ہوں کہ یہ جب نیچے سے اٹھے گا تو دوبارہ مجھے مارے گا۔ اب یہی خوف حکومت کو الیکشن کے حوالے سے لاحق ہے۔ ایسے میں صرف یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ خدا ہمارے حال پر رحم کرے اور کہیں سے بادشاہ کے مشیر کا گزر ہو جائے جو پیچیدہ ترین مسئلے کو چٹکیاں بجاتے ہوئے حل کر دے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved