وطنِ عزیز پاکستان کی مشکلات اور مختلف قسم کے بحرانوں کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست سے اخلاقی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں اور بدقسمتی سے 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ والا اصول اب پورے معاشرے میں رائج ہو چکا ہے۔ ماضی میں ہمارے سیاست دان ہزارہا سیاسی رنجشوں کے باوجود تہذیب اور اخلاق کا دامن نہیں چھوڑتے تھے اور اپنے سخت ترین سیاسی حریفوں کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے الفاظ کا چنائو بڑی احتیاط سے کیا کرتے تھے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمے بازیاں اور سازشیں قیام پاکستان سے لے کر آج تک جاری ہیں لیکن یونین کونسل کے اجلاسوں سے صوبائی و قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا تک‘ جب بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور نظریات کے حامل رہنما اکٹھے ہوتے تو سامنے آنے پر ایک دوسرے کا احترام کرتے اور اپنے سے سینئر اور بزرگ سیاست دانوں کے لیے اپنی نشست چھوڑ دیتے۔ نوے کی دہائی میں ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ کچھ تیز ہوا‘ بعض رہنمائوں کی جانب سے حریف سیاسی قیادت سے متعلق نازیبا الفاظ کا استعمال بھی دیکھنے میں آیا لیکن ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت اس عمل کو پسند نہیں کرتی تھی اور ایسا کرنے والے کے فعل اور عمل کو ذاتی قرار دے کر اس سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا جاتا تھا۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں سے باز رہنے اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے افعال کا حصہ نہ بننے کا عہد کیا۔ سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس میثاق پر معاہدے کی روح کے مطابق عمل نہ ہو سکا؛ تاہم پھر بھی سیاسی کلچر میں بہتری ضرور آئی اور روایتی حریفوں میں تلخیاں کم ہوئیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران جوں جوں سوشل میڈیا نے ترقی کی اور سیاسی مہم جوئی کا مرکز و محور ڈیجیٹل میڈیا بنا تو ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بہتان طرازی نے زور پکڑا اور سیاسی اقدار دفن ہونے لگیں۔ سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے ہزاروں بلکہ لاکھوں جعلی ناموں سے فیک اکائونٹس بنا رکھے ہیں جن سے نہ کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی بڑے چھوٹے کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہماری نوجوان نسل سے سیاسی اقدار چھین لی ہیں اور شاید اب اقبال کے شاہینوں نے حصولِ اقتدار کے لیے طوفانِ بدتمیزی‘ گالم گلوچ‘ توڑ پھوڑ‘ مار کٹائی اور ہٹ دھرمی کو ہی سیاست سمجھ لیا ہے۔ گزشتہ روز شہرِ اقتدار میں ہلڑ بازی دیکھی تو سوچا کہ نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ یہ ہماری سیاست نہیں۔
سیاست (Politics) ساس سے مشتق ہے جو یونانی زبان کا لفظ ہے‘ اس کے معانی شہر و شہر نشین کے ہیں۔ اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں۔ اہلِ مغرب فنِ حکومت کو سیاست کہتے ہیں‘ امورِ مملکت کا نظم و نسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں سیاست کا لفظ تو موجود نہیں؛ البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں بلکہ قرآنِ مجید کا بیشتر حصہ سیاسی و سماجی موضوعات کے حوالے سے ہی ہماری رہنمائی کرتا ہے‘ مثلاً عدل و انصاف‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی و ان کی حمایت‘ ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیاء کرام اور اولیاء کرام کا اندازِ سیاست بھی قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت 247میں ارشاد فرمایاہے ''اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بے شک اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے‘ تو (وہ) کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی‘ (نبی نے) فرمایا: بے شک اللہ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے‘ اور اللہ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے‘ اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے‘‘۔ اس آیت سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفے کی نفی ہوتی ہے جو سیاسی مدار کے لیے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں‘ سیاست دان کے لیے ذاتی طور پر غنی ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم و شجاع ہونا چاہیے۔
بطور کارکن صحافی میں نے اپنے تین دہائیوں پہ محیط کیریئر کے دوران متعدد بار طاقت کے نشے میں چور افراد کی جانب سے دھمکیاں برداشت کیں‘ مجھ پر مقدمات کیے گئے، حتیٰ کہ قتل تک کی دھمکیاں ملیں‘ کروڑوں روپے کے لیگل نوٹسز بھی متعدد بار بھگتے اور عدالتوں کے چکر بھی کاٹے‘ لیکن گزشتہ کچھ عرصے کے دوران تو ہر تحریر پر ہی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی خبر ہو یا کالم‘ وہ کسی ایک سیاسی فریق کو پسند آتا ہے اور دوسرا فریق یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ اس کے خلاف ہے حالانکہ وہ خبر یا آرٹیکل تو محض عوامی مسائل یا امنگوں کی ترجمانی کے لیے لکھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسے ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں جن سے حریف رہنمائوں کی تضحیک ہوتی ہے لیکن مجال ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی قیادت کی جانب سے آج تک اپنے کارکنوں کو تحمل‘ برداشت‘ اخلاق اور کردار کا درس دیا گیا ہو بلکہ سیاستدان ایسے ٹرینڈز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
گزشتہ روز بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی کچہری میں چند سیاسی کارکنوں کی جانب سے توڑ پھوڑ اور صحافیوں پر تشدد کیا گیا لیکن اس میں افسوسناک امر یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے وہاں موجود صحافیوں کو تحفظ دینے کے بجائے مزید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے بھی نوٹس لے کر انتظامیہ اور پولیس حکام کو طلب کر لیا ہے جبکہ ملزمان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقد مہ درج کرکے تقریباً دو درجن سے زائد سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا بیان بھی سامنے آیا ہے کہ توڑ پھوڑ کوئی اور کرے اور ڈنڈے بے گناہ صحافی کھائیں‘ اب ایسا نہیں چلے گا۔
یہ تو ایک واقعہ ہے‘ اب تو روزانہ ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ نوجوان سوشل میڈیا پر ٹرینڈز دیکھ کر جوش میں ہوش کھو بیٹھتے ہیں اور اپنی سیاسی قیادت کو خوش کرنے کے لیے توڑ پھوڑ سمیت لڑائی جھگڑے کرکے قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس سارے عمل سے ان کے سیاسی حریفوں کو نہیں بلکہ مملکت یا پھر کسی غریب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب تو جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں اورکہیں بھی رونما ہونے واقعے کی مکمل فوٹیج فوری طور پر مل جاتی ہے یا کوئی نہ کوئی شخص اپنے موبائل فون کے ذریعے کیمرے میں محفوظ کر لیتا ہے جس سے ہلڑ بازی کرنے والوں کی شناخت آسانی سے ہو جاتی ہے اور پھر انہیں مقدمات بھگتنا پڑتے ہیں‘ جیل جانا پڑتاہے‘ ضمانتوں اور رہائی کے لیے وکلا کو بھاری فیسیں دینا پڑتی ہے اور اس ساری اذیت کے علاوہ ان سیاسی کارکنوں کے اہلِ خانہ کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی قیادت تو صرف بیانات کی حد تک ہی اپنے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتی ہے اور بعض غریب سیاسی کارکنوں کو ضمانت کے لیے بھی مدد فراہم نہیں کی جاتی جس سے ان کے گھر والوں کو فاقہ کشی کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے۔
حقیقت میں موجودہ سیاسی بحرانوں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور اپنے کارکنوں کو صبر‘ تحمل اور اخلاقیات کا درس دے اور کارکنان کی سیاسی تربیت کی جائے‘ انہیں بتایا جائے کہ صحافی تو سب کے لیے یکساں کام کرتے ہیں تو پھر انہیں عزت اور سہولتیں فراہم کرنا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ قومی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے کیونکہ یہ نہ تو حکومت وقت کی ملکیت ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی فریق کی‘ بلکہ عوام کے ٹیکس سے ہی بنتی ہیں اور توڑ پھوڑ کی صورت میں اُن کی مرمت پر بھی عوام کا ٹیکس ہی لگتا ہے۔ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے کارکنوں کو سیاسی اقدار کا پابند بنایا جائے اور نظم و ضبط سکھایا جائے‘ ورنہ آج جو بویا جائے گا کل کو وہی کاٹنا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved