تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     01-03-2023

بھرم ٹوٹ رہے ہیں

ایک کے بعد ایک پرت سرکتی جارہی ہے اور سبھی حقائق سامنے آرہے ہیں کہ آخر یہ ملک اِس حالت کو کیسے پہنچا؟تمام راز آشکار ہورہے ہیں کہ اِس ملک کو کس طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ یہ بھی علم ہو رہا ہے کہ اِس لوٹ مار میں سب کے سب شریک رہے ہیں۔ اب سب کچھ سامنے آرہا ہے کہ اِس سرزمین کو مافیاز کا ملک کیسے بنایا گیا اور اِس سے کیاکیا فوائد حاصل کیے گئے۔ کیسے قوم کو نعروں کے دھن سنا کر سلایا جاتا رہا۔ ابھی تو محض آغاز ہے‘ معلوم نہیں آگے کیا کیا دیکھنے کوملے۔ یہی قانونِ قدرت ہے کہ آخر ایک نہ ایک دن کچا چٹھاکھلنا ہی ہوتا ہے‘ سو ساجھے کی ہنڈیا اب بیچ چوراہے پر پھوٹ رہی ہے۔ یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعدسب کے خیالات ایک جیسے ہی ہوجاتے ہیں۔ سب کے سب مخالفانہ آوازوں کوکچلنے کی شدید خواہش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد سب کی شدید خواہش یہی ہوتی ہے کہ اُن کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو زور و جبر سمیت کسی بھی حربے سے چپ کرا دیا جائے۔ اِس کی ایک مثال پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ ہے۔ یہ قانون سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے 2016ء میں متعارف کرایا تھا۔ تب اِس کے خلاف خود اس جماعت کے اندر سے بھی آوازیں اُٹھی تھیں کہ کل کو یہ قانون ہمارے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے لیکن جب کانوں پر کروفر اور طاقت کے پردے پڑ چکے ہوں‘ گردنیں غرور سے اکڑ چکی ہوں تو مزاج کے خلاف باتیں کانوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ تب تحریک انصاف نے اِس کی بہت مخالفت کی تھی اور اِسے ڈریکونین قانون قرار دیا تھا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو سبھی کو اُمید تھی کہ وہ اِس قانون کاخاتمہ کرے گی لیکن وہ تو چار قدم مزید آگے چلی گئی۔ اِس جمہوریت پسند اور میڈیا نواز حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے اِسے مزید خوفناک بنا دیا۔ آرڈیننس کے نتیجے میں دفعہ بیس کے تحت ہتکِ عزت کے قابلِ ضمانت جرم کو ناقابلِ ضمانت بنا دیا گیا۔ اِسے فوجداری قوانین کے زمرے میں داخل کر دیا گیا جس کی کم از کم سزا پانچ سال مقرر کی گئی؛ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی ایک درخواست کے نتیجے میں اس قانون کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا گیا تھا وگرنہ شاید پورا معاشرہ ہی جنگل کا منظر پیش کرنے لگتا۔ مطلب یہ کہ اِس قانون کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی حکومتیں ایک پیج پر نظر آئیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب اِس حوالے سے میز ایک مرتبہ پھر حرکت پذیر ہے۔
آج وہ تمام جماعتیں اقتدار میں ہیں جنہوں نے عمران حکومت کے پیکا آرڈیننس کی شدید مخالفت کی تھی اور اِسے آزادیٔ اظہارِ رائے پر بہت بڑی قدغن قرار دیا تھا۔ آج وہ سب جماعتیں چپ سادھے بیٹھی ہیں‘ وجہ صرف یہ ہے کہ اِنہیں حصہ بقدرِ جثہ مل چکا ہے۔ جب عمران حکومت کو رخصت کرنے کی تیاری ہورہی تھی‘ تب یہ ساری جماعتیں اپنا اپنا شیئر طے کر رہی تھیں۔ اب چونکہ وزارتوں سے لطف اُٹھایا جارہا ہے اور شاندار مراعات بھی حاصل ہیں لہٰذا اب کسی کو قوم کا درد ستا رہا ہے نہ ہی مہنگائی کی تاریخی شرح دکھائی دے رہی ہے۔ اب انہیں ملک میں بڑھتی دہشت گردی سے بھی کوئی سروکار نہیں رہا۔ اب ہماراملک اتنے ''شاندار‘‘ انداز میں چل رہا ہے کہ ماضی میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ حکومت میں آئے روز روٹھ کر اپنا حصہ بڑھانے والی ایم کیو ایم بھی اب چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ دیگر اتحادی جماعتیں بھی مزے میں ہیں لہٰذا آج حکومتی اتحاد کی نظروں سے ملک کو دیکھیں تو ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس اتحادی حکومت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو سب سے زیادہ حصہ ملا ہے لہٰذا دونوں جماعتیں شیروشکر ہوکر ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کررہی ہیں۔ جانے والے اپنے دورِ اقتدار میں مخالفین کو رلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے اور آج والے جانے والوں کو خون کے آنسو رلا رہے ہیں۔ اس انتقامی سیاست میں معیشت و قوم کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی رکنے میں نہیں آ رہا اور خوفناک بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں بھی حالات میں بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ ہرکوئی اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کررہا ہے۔ جن کا کام انتخابات کرانا ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ابھی وہ اِس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جن کا کام سکیورٹی فراہم کرنا ہے، وہ بھی عذر پیش کر رہے ہیں۔ بیوروکریسی کے دفاتر سیاست کا گڑھ بن چکے ہیں۔ سی سی پی او لاہور کے معاملے پر جو حالات دیکھنے کو ملے‘ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھ چکے ہیں کہ سابقہ سی سی پی او لاہور کے دفتر میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے رہنما کثرت سے دکھائی دیتے تھے اور اب تحریک انصاف کے رہنما۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت میں جو کام ایک جماعت کے لیے غلط ہوتا ہے‘ دوسرے وقت میں وہی کام دوسری جماعت کے لیے جائز حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔
کل تک جھوٹے مقدمات کا شور مچانے والے آج خود اسی گندگی میں لتھڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کیا تو دہشت گردی کا پرچہ‘ کسی سیاسی مخالف پر تنقید کی تو دہشت گردی کا پرچہ، کسی فیصلے پر تنقید کی تو دہشت گردی کا پرچہ؛ یعنی دہشت گردی نہ ہوگئی کوئی مذاق ہوگیا۔ ایسے پرچے درج کرانے والوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ حاصل وصول کچھ نہیں ہونا لیکن مقصد مخالفین کو عدالتوں‘ کچہریوں میں گھسیٹنا ہوتا ہے۔ جب رانا ثناء اللہ پر منشیات برآمدگی کا پرچہ درج ہوا تھا‘ہم نے تب بھی کھل کر اِس کے خلاف لکھا تھا۔ آج کہاں ہیں وہ افراد جو قسمیں کھایا کرتے تھے؟ مگر دوسری طرف کیا ہو رہا ہے؟ وقت نے کروٹ بدلی ہے تو کل تک جو خود مظلوم تھے‘ آج دوسروں کو ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ یہ سب مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسا کرنے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اِس طرح کے سیاسی مقدمات سے عدالتوں کے بوجھ میں ہی اضافہ ہوتا ہے۔ کئی صورتوں میں وہ دباؤ نہ صرف محسوس کرتی ہیں بلکہ سیاسی معاملات کو سیاسی ایوانوں میں حل کرنے کا سجھائو بھی دیتی رہی ہیں۔ عمران خان کی لاہور ہائیکورٹ یا اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کے موقع پر کیا ہوا؟ اتنا بڑا ہجوم عدالت میں پہنچ گیا تھا کہ شہر کا سارا نظم و نسق ہی خراب ہو گیا۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ اب یہ کارگزاریاں سب کو پوری طرح سمجھ آچکی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مخالفین کے خلاف کیسز کے نام پر کیا ہو رہا ہے‘ دہشت گردی کے پرچوں میں کتنی حقیقت ہے اور یہ کہ ملک و قوم کی خدمت کے نام پر حکومت سنبھالنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ سب کے بھرم پوری طرح سے ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسے میں آڈیو، وڈیو ٹیپس نے الگ غلغلہ مچا رکھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ابھی ایسی سینکڑوں ٹیپس خفیہ گوشوں میں پڑی ہیں‘ اندازہ لگائیے کہ جب وہ سامنے آئیں گی تو کیا بھونچال آئے گا۔ایک دوسرے کی مخالفت میں ہم اپنی اصل ذمہ داریاں بھول چکے ہیں۔ ملک دہشت گردی کی زدمیں ہے‘ معاشی طور پر یہ زمیں بوس ہوا جا رہا ہے اور ہم آڈیو، وڈیوٹیپس لیک کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ ہمارے مخالفین کے ہاتھوں میں تو جیسے ایک بہانہ آگیا ہے۔ ہرروز ہمارا مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ سب نے مل کو پاکستانی قوم کو فقیر بنا دیا ہے۔ ہر طرف ہماری بھد اُڑ رہی ہے لیکن ہمیں کسی بات کی پروا ہی نہیں۔ اُمید کا اب یہی ایک پہلو دکھائی دیتا ہے کہ اگر بھرم ٹوٹنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو شاید اسی خاک سے نئی تعمیر ہو۔ سب کے چہروں سے نقاب اُترتے رہے تو شاید اسی میں سے بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ ایک موہوم سی اُمید ہے کہ شاید اربابِ اختیار کو کچھ خیال آ جائے اور سوئی ہوئی قوم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائے۔ نعروں‘ بڑھکوں اور خوابوں کی دنیا سے نکل کر ہم حقیقت کی دنیا میں قدم رکھ دیں۔ بظاہر یہ اتنا آسان نہیں کہ دہائیوں کے دوران بُنے گئے تانے بانے کو بکھرتے ہوئے دیکھنا بہت دل گردے کا کام ہے۔ اقتدار کی راہداریوں کو الوداع کہنا آسان کام نہیں‘ مگر آس اور اُمید پر ہی دنیا قائم ہے۔ شاید اِن خراب ترین حالات سے ہی کوئی بہتری کی صورت نمودار ہوجائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved