زندگی میں جامعیت کا تصور محال ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بیشتر معاملات اِس طور طے پا جائیں کہ کہیں کوئی تشنگی باقی نہ رہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ اِس دنیا میں کسی کے لیے ہر اعتبار سے جامعیت ممکن نہیں۔ بیشتر معاملات میں ہم ادھورے پن کا شکار رہ جاتے ہیں۔ یہ بالکل فطری معاملہ ہے کیونکہ سب کے لیے ایسا ہی معاملہ ہے۔ سب کو اپنی ضرورت یا خواہش سے کم پر سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔ جو کچھ بھی انسان چاہتا ہے اُس سے کہیں کم پر سمجھوتا کرنا کسی بھی اعتبار سے ایسی بری بات نہیں جس پر شرمندہ ہوا جائے یا احساسِ کمتری محسوس کیا جائے۔ کوئی بھی اِس دنیا میں اکیلا نہیں۔ انسان معاشرتی حیوان ہے یعنی الگ تھلگ رہ نہیں سکتا۔ انسان باہم مل کر رہتے ہیں۔ مل کر رہنے کی صورت میں کچھ دو اور کچھ لو کے اصول کی بنیاد پر ہی کام ہوتا ہے۔ کسی معاملے میں ہمیں ادھورے پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کسی معاملے میں کسی اور کو۔ یہ اصول چونکہ سب کے لیے ہے اِس لیے غلط بھی نہیں ہوسکتا اور عدل کے اصول کے منافی بھی نہیں۔ دنیا چونکہ ہر آن بدلتی رہتی ہے اس لیے کبھی کسی کے لیے موافق کیفیت پیدا ہوتی ہے اور کبھی یکسر ناموافق۔ کبھی کبھی ہم کسی جواز یا محنت کے بغیر ایسی حالت پاتے ہیں جس میں ہمارے لیے فوائد ہوتے ہیں۔ تب ہم کوئی شکوہ نہیں کرتے۔ جب حالات ناموافق ہوں اور ہمیں الجھنوں سے دوچار کریں تب ہم پریشان ہو اُٹھتے ہیں اور شکوے گلے کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ خیر‘ اس پر بھی حیرت کیسی کہ یہ تو انسانی فطرت اور مزاج کا معاملہ ہے۔
سڈنی جے ہیرس نے کہا تھا ''ہمارا مخمصہ اور المیہ یہ ہے کہ ہم تبدیلی سے نفرت بھی کرتے ہیں اور محبت بھی‘ اور یہ دونوں کام بیک وقت ہوتے ہیں‘‘۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہم بالعموم یہ چاہتے ہیں کہ چیزیں اور معاملات جُوں کے توں رہیں اور بہتر ہوجائیں۔ یہ بہت عجیب سوچ ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ تبدیلی ناگزیر حقیقت ہے۔ ہم دن رات تبدیلیاں دیکھتے ہیں، اپنے آپ کو بھی بدلنے پر مجبور پاتے ہیں اور پھر بھی اس خواہش کے حامل رہتے ہیں کہ کچھ نہ بدلے۔ سو‘ دو سو یا کئی سو سال پہلے کی دنیا کیسی ہوگی اِس کا درست ترین اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ جب فوٹو گرافی کا فن ایجاد نہیں ہوا تھا تب تک ہاتھ سے تصویریں بنائی جاتی تھیں۔ کئی سو سال پہلے کی بہت سی تصویریں ہم تک منتقل ہوئی ہیں۔ ہم اُن تصویروں کی مدد سے اُن زمانوں کے بارے میں بہت کچھ دیکھ، سوچ اور سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری دنیا ہر عہد میں بدلتی رہی ہے۔ اِتنا فرق ضرور ہے کہ ہزاروں سال قبل تبدیلی کا عمل خاصا سست رفتار تھا۔ چار‘ پانچ سو سال پہلے تک تبدیلی کا عمل زیادہ تیز نہیں تھا۔ انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا تھا کم و بیش اُسی ماحول میں زندگی بسر کرتا تھا۔ تبدیلیاں تب بھی رونما ہوتی تھیں تاہم گزشتہ اشیا و خدمات بھی موجود رہتی تھیں۔ ماحول بدلتا تھا مگر اِتنا اور ایسا نہیں کہ کسی سے پہچانا ہی نہ جائے۔ ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک یہی کیفیت تھی۔ عمارتیں بھی برقرار رہتی تھیں۔ معمولات بھی زیادہ تبدیل نہیں ہوتے تھے۔ ہاں‘ انسان بدلتے جاتے تھے۔ انسان تو روز بدلتا ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر بوڑھے ہوتے جاتے ہیں مگر ہمیں اِس کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ بات اِتنی سی ہے کہ یہ عمل خاصا سست رفتار ہے۔ جب دنیا سست رفتاری سے تبدیل ہوتی تھی تب زندگی کا خاصہ زیادہ تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ پیشے اور مہارتیں برقرار رہتی تھیں۔ ہم بہت کچھ سیکھتے تھے مگر جو کچھ پہلے سیکھا تھا اُسے بھولنا یا ترک کرنا ہماری مجبوری نہیں ہوا کرتا تھا۔ مارکیٹ میں کوئی نئی چیز آتی تھی تو پہلے سے موجود چیزوں کو یکسر بے مصرف نہیں بناتی تھی۔ کسی چیز کے غیر متعلق اور بے کار (obsolete) کا تصور عام نہ تھا۔ نئی چیزیں اپنا رنگ جماتی تھیں مگر پچھلی یا پہلے سے موجود چیزوں کو بے مصرف بنانے کی منزل سے دور رہتی تھیں۔
آج کی دنیا اِتنی مختلف ہے کہ ڈیڑھ‘ دو سو سال پہلے کے انسان کو زندہ کیا جائے تو وہ ابتدائی لمحات میں یہ سوچے گا کہ اُسے کسی اور سیارے پر جگایا گیا ہے! آج کی زندگی اِتنی بدلی ہوئی اور پیچیدہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کے انسان اِسے، اِس کے تقاضوں اور مسائل کو سمجھنے میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتے۔ ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جس میں ہزاروں سال سے چلی آرہی بیشتر اشیا و خدمات ناکارہ و بے مصرف ہوچکی ہیں۔ چند ایک شعبوں کو محض اس لیے زندہ رکھا گیا ہے کہ وہ ہماری شناخت کا حصہ ہیں۔ جو کچھ گزشتہ سو سال کی مدت میں ایجاد ہوا ہے اُس نے ہزاروں برس کی میراث کو تہس نہس کردیا ہے۔ تبدیلی کا معاملہ اشیا و خدمات تک محدود نہیں رہا۔ اخلاقی اور ثقافتی اقدار بھی ایسی بدلی ہیں کہ پہچانی نہیں جاتیں۔ برق رفتار تبدیلیوں کے نتیجے میں زندگی کا ڈھانچا کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ زندگی کی ہماہمی دل و دماغ پر قیامت ڈھانے پر تلی ہوئی ہے۔ اب دل و دماغ کو ہلچل کی نذر ہونے سے بچانے کی کوئی صورت ہے؟ یقینا ہے۔ تبدیلی سے ہم آہنگ رہنا اِس صورتِ حال کا واحد حل ہے۔ بعض تبدیلیاں باریک ہوتی ہیں یعنی دکھائی نہیں دیتیں۔ اُنہیں بغور دیکھنا اور سمجھنا پڑتا ہے۔ جو تبدیلیاں بہت نمایاں ہوتی ہیں اُن کے حوالے سے غیر معمولی تیزی دکھائی جانی چاہیے۔ بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ہمارا رِسپانس زیادہ اور تیز رفتار ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جواب دیے بغیر بھی وہ ڈھنگ سے جی سکتا ہے تو یہ محض خوش فہمی ہے۔ تبدیلیوں پر معقول ردِ عمل کا اظہار کیے بغیر کوئی بھی ڈھنگ سے جی سکتا ہے نہ کامیاب ہوسکتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بہتر تو ہو جائے مگر تبدیل نہ ہو یعنی یہ کہ ظاہری طور پر کچھ نہ بدلے۔ مثلاً ہماری خواہش یہ ہے کہ کسی عمارت کو گرایا نہ جائے بلکہ اُسی کو اس قابل بنایا جائے کہ زیادہ لوگوں کو اپنے اندر سموئے، اُنہیں سہولت بہم پہنچائے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ جب تک کسی عمارت کو گراکر نئی، زیادہ منزلوں والی عمارت معرضِ وجود میں نہ لائی جائے تب تک زیادہ لوگ کیونکر استفادہ کرسکتے ہیں؟ شہروں میں زمین کم پڑتی جاتی ہے تو نئی عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ جہاں کبھی مکان ہوا کرتے تھے وہاں اب کئی منزلہ عمارتیں کھڑی ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگوں کو رہائش کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا ممکن نہ ہو۔ 120 گز کے مکان پر معمولی اور عمومی سا مکان بنا ہو تو آٹھ دس افراد استفادہ کرتے ہیں۔ اُسی پلاٹ پر چار منزلہ عمارت کھڑی کی جائے تو نصف درجن گھرانوں کو بہتر رہائش کی سہولت مل پاتی ہے۔ شہروں کا عمودی پھیلاؤ ہی ممکن ہے اور یوں زیادہ لوگوں کو بہتر رہائشی سہولتیں معقول قیمت پر فراہم کی جاسکتی ہیں۔ تبدیلی اپنے ساتھ بہت کچھ لاتی ہے اور بہت کچھ لے جاتی ہے۔ ماحول کی ظاہری صورت کو تبدیل ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ ہم خود بھی تو زندگی بھر بدلتے جاتے ہیں۔ کل ہم بچے تھے‘ آج جوان یا ادھیڑ عمر ہیں۔ کل بوڑھے ہوچکے ہوں گے۔ ہم کب پہلے سے رہے ہیں؟ جب ہم اپنے وجود میں ظاہری تبدیلی نہیں روک سکتے تو ماحول میں ظاہری تبدیلی روکنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
عام آدمی تبدیلی کے حوالے سے ''میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو‘‘ والی سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ جو کچھ ہماری زندگی میں اچھی تبدیلیاں لارہا ہوتا ہے وہ ہم خوشی خوشی قبول کر لیتے ہیں۔ جن تبدیلیوں سے ہمارے مفادات پر ضرب لگتی ہے اُن سے ہم الرجک ہی نہیں ہوتے بلکہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ایسا کرنے کی گنجائش کم ہے۔ سوچنا چاہیے کہ جن تبدیلیوں سے ہمیں فائدہ پہنچا ہے اُنہی سے کسی نہ کسی کو نقصان بھی پہنچا ہوگا۔ اگر ہم صرف اپنا مفاد ذہن نشین رکھیں تو دنیا نہیں چل سکتی۔ سوال اجتماعی مفاد کا ہے۔ تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں گی‘ دنیا کا رنگ ڈھنگ اور حلیہ بدلتا رہے گا۔ البتہ ہر تبدیلی آپ سے مثبت سوچ کی طالب رہتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے میں غلطی مت کیجیے۔ تبدیلیاں محض درونِ خانہ کا معاملہ نہیں بلکہ اِن سے ظاہری شکل بھی بدلتی ہے۔ ایسا ہوتا رہے گا اور آپ کو قبول کرنا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved