گمان تھا کہ سپریم کورٹ کا صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے فیصلہ وہ تمام قانونی ابہام دور کردے گا جنہوں نے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ہمیں جکڑ رکھا تھا لیکن اس فیصلے پر حکومتی 'اگر مگر‘ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے نوے دن میں الیکشن کروانے کے حوالے سے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا جبکہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے تین دو کی اکثریت سے واضح فیصلہ دیا ہے کہ صوبائی الیکشن نوے روز کے اندر اندر ہوں گے۔ مزید لکھا کہ اگر صوبائی گورنر الیکشن کی تاریخ نہیں دیں گے تو پھر صدرِ مملکت تاریخ دیں گے‘ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ رعایت بھی دی کہ اگر صدر کی صوبوں میں الیکشن کے حوالے سے دی گئی تاریخ تک الیکشن کمیشن اپنی تیاری مکمل نہیں کر پاتا تو تمام فریقین کی مشاورت سے تاریخ کو تھوڑا بہت ایڈجسٹ یعنی آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک مکمل اور جامع فیصلہ ہے جس میں تمام فریقوں کے ساتھ ساتھ آئین کی ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا ہے لیکن وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل شہزاد الٰہی نے اس فیصلے کے ایک اختلافی نوٹ‘ جو جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے‘ کو بنیاد بنا کر دعویٰ کیا کہ میری رائے میں یہ درخواستیں چار‘ تین کے تناسب سے خارج ہو گئی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ اپنے نوٹ میں لکھتے ہیں کہ ابتدائی طور پر نو جج صاحبان اس بنچ کا حصہ بنے‘ ان میں سے دو جج صاحبان (جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی ) کوئی فیصلہ یا آبزرویشن دیے بغیر بنچ سے علیحدہ ہوگئے۔ اس کے بعد مزید دو جج صاحبان (جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی) بنچ سے علیحدہ ہوئے لیکن علیحدہ ہونے سے پہلے وہ اس پٹیشن کو مسترد کر گئے تھے۔ یوں ان دونوں معزز جج صاحبان کے لکھے نوٹ اس کیس کے ریکارڈ کا حصہ بن گئے۔ اب حکومت نے معزز جج صاحب کے اسی نوٹ کو بنیاد بنا کر اس کی تشریح یوں کی ہے کہ فیصلے کو اکثریتی جج صاحبان نے مسترد کر دیا۔ اس تاویل نے نئے بحث مباحثے کے در کھول دیے ہیں اور یہ نظر آتا ہے کہ حکومت اس صورتحال سے فائد ہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔
اصولی طور پر سیاسی فیصلے سیاست کے ایوانوں میں ہونے چاہئیں۔ عوام کے نمائندے منتخب ہوکر ان ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ سیاست دان مگر اب اپنے فیصلے خود مل بیٹھ کر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کبھی مقتدرہ کو پکارا جاتا ہے تو کبھی عدلیہ کو۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیاں تحلیل ہوئیں۔ منتخب حکومتیں ختم ہوئیں۔ اب آئین ایک راستہ وضع کرتا ہے کہ جہاں حکومتیں ختم ہوئی ہیں وہاں عوام کی رائے سے نئی حکومتیں منتخب ہونی چاہئیں۔ الیکشن کمیشن ایک بااختیار ادارہ ہے اور انتخابات کرانے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے۔ انتخابات کب ہوں گے‘ اس کی تاریخ کون دے گا‘ اس معاملے پر جب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں‘ ایک سیاسی تھیٹر لگا ہوا ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ سیاسی فریقین آپس میں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالتے لیکن بات نہیں بنی۔ پھر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور منگل 28فروری کو سیاسی جماعتوں کو ایک موقع بھی دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے موقع دینے کے باوجود سیاسی جماعتیں الیکشن کی تاریخ پر متفق نہ ہو سکیں۔ قصہ مختصر‘ بات نہ بنی۔ عدالت نے از خود نوٹس میں فریقین کو تفصیل سے سنا اور اپنی آبزرویشنز بھی دیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت نوے روز میں الیکشن لازم ہیں۔ عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے۔ مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دے گا‘ اس کا تعین کرنا ہے۔ صرف قانون کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نہ دے رہی ہے۔ عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کررہی ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے اسی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ گورنر اگر 85ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89ویں دن کا کہہ سکتا ہے۔ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن سینیٹ‘ صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے۔ آئین کے مطابق گورنر صوبائی انتخابات کی تاریخ دیتا ہے۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ گورنر کا کہنا ہے اسمبلی کے ازخود تحلیل ہونے کے بعد وہ کیسے تاریخ دے سکتے ہیں۔ عدالتی کارروائی کے یہ کچھ اہم نکات تھے۔ اسی سماعت کے دوران صدرِ مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صدر نے فیصلہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں۔ خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی۔ انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر کا اختیار ہے۔صدر کو خیبر پختونخوا الیکشن کے لیے تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ اس کارروائی پر ایک نظر ڈالیں تو اب یہ واضح ہو چکا کہ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے۔
خیر بات جہاں سے شروع کی وہیں سے آگے بڑھاتے ہیں کہ سیاست دانوں کو اپنی لڑائی اپنے گھر میں لڑنی چاہیے تھی۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بھی منگل 28فروری کو آخر کار لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور مختلف عدالتوں میں پیشیاں بھگتیں۔ تین مقدمات میں کپتان کی ضمانت منظور ہوگئی۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ ان پیشیوں کے موقع پر اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکن بھی اپنے قائد سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچے۔ کہیں پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں‘ کہیں سکیورٹی اہلکاروں سے الجھے۔ جوڈیشل کمپلیکس میں بھی کچھ توڑ پھوڑ ہوئی۔ کچھ دن پہلے جب کپتان لاہور ہائی کورٹ پہنچے تھے‘ تب بھی ان کے ساتھ کارکنوں کا جمِ غفیر تھا۔ خان صاحب مختلف مواقع پر مختلف موقف اپناتے رہے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ایک موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اور وہ ہے فوری الیکشن۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم کیں۔ اور پھر یہی لڑائی سیاست کے ایوانوں سے ہوتی ہوئی عدالت تک جا پہنچی۔ حکومتی اتحاد کا موقف ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے چاہئیں۔ دو صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں پھر کسی کی بھی حکومت بنتی ہے تو اس کے بعد ہونے والے قومی اسمبلی کے الیکشن میں غیر جانبداری کا عنصر نظر نہیں آئے گا۔ ایک نیوٹرل نگران سیٹ اَپ کو ہی تمام اسمبلیوں کے الیکشن کرانے چاہئیں۔ خیر ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے اور وہ یہ کہ الیکشن تو ہونے ہیں‘ جلد یا بدیر۔ قومی اسمبلی کی مدت میں بھی اب تو کچھ ہی مہینے باقی ہیں۔ ایسے میں سیاسی قیادت کو اپنی لڑائی اپنے گھر میں لڑنا ہوگی۔ الیکشن کب ہونے ہیں۔ الیکشن کس انداز میں ہونے ہیں کہ ان کی شفافیت پر سوال نہ اٹھے‘ یہ تمام چیزیں سیاستدانوں کے سوا کسی اور فریق نے طے نہیں کرنی۔ اب بھی جو الیکشن ہوں گے‘ اس میں ہارنے والا فریق بہت مشکل سے نتائج کو تسلیم کرے گا۔ اس کی بڑی وجہ سیاست دانوں میں بڑھتی خلیج ہے۔ اس دوری کو ختم کرنا ہوگا۔ ایسے سمجھدار سیاست دان‘ جو پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں‘ انہیں رابطوں کا ذریعہ بننا ہوگا۔ ورنہ الیکشن ہو بھی جائیں تو تقسیم‘ نفرت اور دوری ختم نہیں ہوگی۔ عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں‘ دل بھی بڑا کریں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کیساتھ بات چیت کی راہ نکالنے کے لیے اپنے اہم نمائندوں کو متحرک کریں۔ ملک کے معاشی حالات کسی مہم جوئی اور انتشار کی اجازت نہیں دیتے۔ مل جل کر راہ نکالنے کے لیے مل بیٹھنا ضروری ہوگا۔ سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے۔ عوام کے فیصلے عوامی نمائندوں کو کرنا ہوں گے۔ اور اپنے نمائندے عوام کو منتخب کرنا ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved