توبہ کے معنی ہیں: ''رجوع کرنا‘‘، ''تَائِب‘‘ بندے کی صفت ہے اور''تَوّاب‘‘ (بہت زیادہ توبہ کرنے والا) قرآنِ کریم میں اللہ کے مقبول بندوں کے لیے آیا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے۔ بندے کی توبہ کا مطلب: ''اس کا شرک سے توحید کی طرف، کفر سے اسلام کی طرف، نفاق سے اِخلاص کی طرف، مَعصیت سے اِطاعت کی طرف، فِسق و فجور سے تقویٰ کی طرف اور گناہ سے نیکی کی طرف پلٹ کرآنا‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے ''تَوَّاب‘‘ ہونے کا مطلب: ''اس کا عفو کرم اور مغفرت کے ساتھ بندے کی طرف توجہ فرمانا ہے‘‘۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (1) ''(حقیقی مومن وہ لوگ ہیں) جو توبہ کرنے والے، (اللہ کی) عبادت کرنے والے، (اس کی) حمد و ثنا کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ (کے دین) کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے نبی!) مومنوں کو خوشخبری سنائیے‘‘ (توبہ: 112)، (2) ''میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا (توّاب) اور نہایت مہربان ہوں‘‘ (البقرہ: 128)، (3) ''کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتاہے اور ان کے صدقات کو قبولیت سے نوازتا ہے اور بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘ (توبہ: 104)۔
چونکہ بندوں کا توبہ کرنا اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے، اس لیے مبالغے کے ساتھ ''تَوَّاب‘‘ (بہت زیادہ توبہ کرنے والا) بندے کی صفت کے طور پر بھی قرآنِ مجید میں آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بے شک اللہ بہت زیادہ توبہ کرنیوالوں اور بے حد پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (البقرہ: 222)۔
یہ عنوان میں نے اس لیے منتخب کیا ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی آفت آئے، سیلاب آئے، زلزلہ آئے، طوفانِ باد و باراں ہو، خشک سالی ہو تو کہا جاتا ہے کہ سب اجتماعی توبہ کریں اور''یومِ توبہ و استغفار‘‘ منائیں۔ قرآن کریم اور احادیث مبارَکہ میں توبہ کی ترغیبات، قبولیتِ توبہ کی بشارتیں اور اس کے نتیجے میں فلاحِ دنیا اور نجاتِ اُخروی کی نوید موجودہے۔ سورج گرہن کے موقع پر ''صَلٰوۃُ الْخسوف‘‘، قحط سالی کے موقع پر ''صَلٰوۃُ الْاِسْتِسْقَاء‘‘ اور یومِ عرفہ کی شام اجتماعی دعا کا شِعار ثابت ہے؛ تاہم استغفار توبہ کے معنی کو شامل ہے۔
توبہ کا تعلق قلب اور روح سے ہے، ''نَفْسِ لَوَّامَہْ‘‘ یعنی ضمیر کی بیداری سے ہے، یہ خود احتسابی (Self Accountability) اور اصلاحِ نفس (Self Rectification) کا ایک باطنی اور روحانی عمل ہے۔ یہ معنویت سے عاری لفظوں کی تکرار نہیں ہے کہ کوئی خوش گلو نعت خواں ٹیلی وژن پر یا کسی دینی پروگرام میں ''میری توبہ توبہ‘‘ یا ''میری توبہ قبول ہو‘‘ کا منظوم کلام پڑھ لے اور ناظرین و سامعین عقیدت سے سن لیں، تو سب کی توبہ ہو گئی اور سمجھ لیا جائے کہ یہ کافی ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ میری نظر میں یہ توبہ کی حقیقت اور روحِ توبہ سے ماوَرَا ایک عمل ہے اور یہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تصور توبہ کا استخفاف ہے۔ اس قلبی عمل کی تحریک اور ترغیب انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی روح میں جوہرِ ایمان کے زندہ ہونے اور زندہ رہنے کی دلیل ہے، یہ بیم و رَجا کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے، یعنی بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خَشیت بھی اعلیٰ درجے کی ہو اور اس کی رحمت پر یقین بھی انتہائی درجے کا ہو۔ خوفِ الٰہی معصیت کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کی زنجیر بن جاتا ہے اور رحمتِ باری تعالیٰ پر یقین اس کی رحمت کی طرف بے اختیار لپکنے پر برانگیختہ کرتاہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کے گناہ گار بندوں کے لیے نجات و مغفرت کا ایک بہت بڑا سہارا ہے اور اس کی بے پایاں رحمت پر امید کی اِس سلگتی ہوئی چنگاری کے ''شعلۂ جوّالہ‘‘ بننے کے لیے انسان کی روح کو بے قرار کر دیتا ہے: ''(اے نبی!) کہہ دیجیے! اے میرے وہ بندو! جو (گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کر چکے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ (تمہارے) تمام گناہوں کو بخش دے گا، بے شک وہی بہت بخشنے والا بے حد مہربان ہے‘‘ (الزمر: 53)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر اس آیت کے بدلے میں مجھے پوری دنیا (کی دولت) دیدی جائے، تو بھی یہ سودا مجھے قبول نہیں ہو گا، اس پر ایک شخص نے عرض کی: اگر کسی نے شرک کیا ہو، تو رسول اللہﷺ (کچھ دیر) خاموش رہے، پھر آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! اگر اس نے شرک کیا ہو، تب بھی(اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلاہے)‘‘ (مسند امام احمد: 22362)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک کی معافی توبہ کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اگر کفر و شرک سے توبہ کرکے صدقِ دل سے ایمان قبول کر لیتاہے، تو اس کے لیے رسول اللہﷺ کی یہ بشارت موجود ہے۔ ایک طویل حدیث میں راوی بیان کرتے ہیں: حضرت عمرو بن عاصؓ کی موت کے وقت ہم حاضر ہوئے تو انہوں نے ہمیں بتایا: ''جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام (کی حقانیت) کو ڈال دیا، تو میں نبیﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، رسول اللہﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تومیں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا، انہوں نے عرض کی: (بیعت سے پہلے) میری ایک شرط ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: بولو! کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کی: میرے (ماضی کے) گناہوں کو بخش دیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام زمانۂ کفر و شرک کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت اُس سے پہلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حج اُس سے پہلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘ (مسلم: 192)۔ یہ بشارت اس اسلام کے لیے ہے جو کسی خوف یا طمع کے سبب سے یا کسی کی محبت میں سرشار ہو کر شادی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس دین کی حقانیت کو دل سے تسلیم کرکے قبول کیا جائے اور ہجرت کی حقیقت کو رسول اللہﷺ نے ان کلمات میں بیان فرمایا: ''(حقیقی) مہاجر وہ ہے جو ہر اس چیز کو ترک کر دے، جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 10)۔ اسی طرح گناہوں سے پاک صاف ہونے کی بشارت اُس کے لیے ہے جس کا حج اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو تو کسی صورت میں معاف نہیں فرماتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جس کے لیے چاہے (دیگر) گناہوں کو بخش دیتا ہے‘‘ (النساء: 48)۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا محمل یہ ہے کہ جب تک بندہ کفر و شرک سے توبہ نہ کرے، بلکہ اس پر ڈٹا رہے اور اسی پر اس کی موت واقع ہو تو وہ ناقابلِ معافی ہے۔ پس توبہ کے روحانی اور ارتقائی مدارج حسبِ ذیل ہیں:
(1) اپنی معصیت کا اقرار و اعتراف (Confession)۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''بے شک بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘ (بخاری: 4141)۔ (2) اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت و شرمساری کا اظہار۔ سورۃ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ضمیر کو ''نفسِ لوّامہ‘‘ یعنی گناہ پر ملامت کرنے والا قرار دیا ہے اور اس کی قسم فرمائی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''نَدامت توبہ (کی روح) ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 4252)۔ مشہور مسئلہ ہے کہ صغیرہ گناہ پر اصرار بھی اسے کبیرہ بنا دیتا ہے۔ چونکہ استغفار ندامت کی علامت ہے، اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے استغفار کر لی، اس نے (گناہ) پر اصرار نہیں کیا۔
(3) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عفو و کرم اور مغفرت کی التجا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ''اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو، جس کا عرض تمام آسمان اور زمینیں ہیں، جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘ (آل عمران: 133)، (4) آئندہ کے لیے اس کا ارتکاب نہ کرنے کا عہد۔ (5) معصیت کا تعلق حقوق اللہ کی پامالی سے ہو یا حقوق العباد سے۔ دونوں صورتوں میں شریعت میں اس کی تلافی (Rectification & Compensation) کا جو طریقہ مقرر ہے، اس کے مطابق اس کی تلافی کرنا، مثلاً ماضی کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا، ماضی کی واجب الادا زکوٰۃ کی ادائی، جس بندے کا حق غصب کیا ہے، اس سے معافی طلب کرنا اور غصب شدہ مال کو واپس کرنا وغیرہ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''کیا تم جانتے ہو کہ مُفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کی: ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے، جس کے پاس درہم (و دینار) اور دنیاوی ساز و سامان نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: میری امت میں مُفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے نامۂ اعمال میں نمازیں، روزے اور زکوٰۃ سب کچھ ہو گا، ( لیکن اس کے ساتھ ساتھ) اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر (بدکاری کی) تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا، کسی کا (ناحق) خون بہایا ہو گا، کسی کو (ظلماً) مارا ہو گا، تو ان سب حق داروں کو اُن کے حقو ق کے بدلے میں اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی، پھر جب دوسروں کے حقوق کے بدلے میں دینے کے لیے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی، تو اُن کے گناہ اُس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (مسلم: 2581)۔
(6) اللہ تعالیٰ سے اس پیمانِ وفا پرقائم رہنے کی توفیق طلب کرنا۔ توفیق کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک مقصد کے لیے اسباب کو بندے کے حق میں سازگار بنانا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور پرہیز گاری اختیار کی اور اس نے اچھائی کی تصدیق کی، تو ہم عنقریب اس کے لیے (جنت تک رسائی کو) آسان کر دیں گے‘‘ (اللّیل:5 تا 7)۔ رسول اللہﷺ کا ارشادہے: ''تم میں سے ہر ایک کے لیے جنت یا جہنم میں ٹھکانا مقدر ہے، صحابہ نے عرض کی: ''یا رسول اللہﷺ! کیا ہم اپنی تقدیر پر توکل کریں (اور عمل سے دستبردار ہو جائیں)‘‘، آپﷺ نے فرمایا: (نہیں!) تم (نیک )کام کیے جاؤ، ہر ایک کے لیے اُس کے مقصد تک رسائی کو آسان کر دیا جاتاہے، سو جو اہلِ سعادت میں سے ہے، اس کے لیے سعادت کے کاموں کو آسان کر دیا جائے گا اور جو اہلِ شقاوت میں سے ہے وہ اپنے لیے بدبختی کے کاموں میں آسانی سمجھے گا، پھر آپﷺ نے سورۃ اللیل کی مندرجہ بالا آیات تلاوت فرمائیں‘‘ (بخاری: 1362)۔ الغرض توبہ قُربِ باری تعالیٰ کے لیے ایک باطنی تبدیلی اور روحانی ارتقاکا نام ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved