وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ کوشش کریں گے کہ جوڈیشل کمپلیکس پر حملے کے کیس میں عمران خان کو گرفتار کریں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر حملے میں دو علیحدہ مقدمات درج کیے گئے ہیں جس میں ابھی تک 29 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے‘ جوڈیشل کمپلیکس میں کبھی اس طرح نہیں ہوا‘ وہاں توڑ پھوڑ کی گئی جس پر دو مقدمات درج کیے گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے عمران خان سمیت تمام افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے آئی جی اسلام آباد کو کہا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں جو کچھ ہوا اور صحافیوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا‘ اس کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ اس کیس میں عمران خان کو گرفتار ہونا چاہیے۔ عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ کو پتا ہے کہ آپ عدالت میں آرہے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں کو اکٹھا کرکے مسلح افراد کو ساتھ لائے اور چڑھائی کر دی، ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس نیت سے آ رہے ہیں۔ یہ لوگ عدالت میں پیش ہونے کے لیے نہیں بلکہ حملہ کرنے کے لیے آئے اور باضابطہ طور پر سوچ کر آئے کہ ہمیں اس طرح سے اندر جانا ہے۔
ویسے تو وزیر داخلہ صاحب کی پوری پریس کانفرنس مختلف تضادات اور خواہشات کا مجموعہ تھی مگر یہ کہنا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے عمران خان سمیت تمام افراد کی شناخت کرلی گئی ہے‘ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ عمران خان کی عدالت میں پیشی کے وقت کا ایک ایک منظر کیمروں میں ریکارڈ ہو چکا ہے۔سب کو معلوم ہے کہ خان صاحب عدالت میں پیش ہوئے تھے، لہٰذا یہ کہنا کہ سی سی ٹی وی کی مدد سے شناخت کی گئی ہے، اپنا مذاق بنوانے والی بات ہے۔ دوسرا اہم نکتہ‘ صحافیوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا‘ اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عندیہ دینا ہے۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اسلام آباد پولیس اپنے ہی خلاف کارروائی کرے گی؟ صحافیوں پر کس نے تشدد کیا‘ یہ سب کچھ کیمروں میں ریکارڈ ہو چکا ہے۔ سبھی صحافتی تنظیموں کے مذمتی بیانات اٹھا کر دیکھ لیں‘ کسی لگی لپٹی کے بغیر وفاقی دارالحکومت کی پولیس کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپنی پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ صاحب تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں کا بیان بھی چلا دیتے تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی۔ جہاں تک ''جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس‘‘ میں چیئرمین تحریک انصاف کو ملوث کرنے اور گرفتار کرنے کی بات ہے‘ یہ حکومت کی خواہش تو ہو سکتی ہے‘ مگر اس میں کتنی حقیقت ہے‘ یہ بات سب کو معلوم ہے۔
اب ذرا چند دوسرے حقائق کا ایک جائزہ لے لیں۔ عمران خان اسلام آباد کی تین عدالتوں میں پیش ہوئے‘ اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ کے دو بنچز کے سامنے پیش ہوئے اور سب کیسز میں ان کی ضمانت ہو گئی۔ ان کیسز اور ان کے وزن کی بات فی الحال رہنے دیتے ہیں وگرنہ قانونی ماہرین اس حوالے سے کیا آرا رکھتے ہیں‘ وہ سب پر واضح ہے۔ یہ کیسز بھی ایسے ہی ہیں جیسے جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس میں حکومت عمران خان کو ملوث کرنا چاہتی ہے ۔ ایک کیس نام نہاد ''فارن فنڈنگ‘‘ سے متعلق تھا، ایک کیس الیکشن کمیشن حملے سے متعلق تھا حالانکہ پی ٹی آئی کے کچھ کارکنان نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج کیا تھا مگر اپنے گھر میں بیٹھے عمران خان پر مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ مقدمہ بھی کوئی عام نہیں دہشت گردی کا۔ بہرکیف‘ عمران خان لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہوئے‘ عدالتی کارروائی شروع ہوئی‘ عمران خان کی ضمانتیں منظور ہوئیں اور وہ واپس گھر کو روانہ ہو گئے۔ جو لوگ جلوس کی صورت میں عمران خان کی لاہور ہائیکورٹ اور پھر اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشیوں پر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں وہ شاید 11 اگست 2020ء کے وہ مناظر فراموش کر چکے ہیں جب اراضی کیس میں مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ کی نیب میں پیشی ہوئی تھی۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کورائیونڈ میں کچھ زمینوں کی انکوائری کے سلسلے میں نیب لاہور کے دفترطلب کیا گیا تھا۔ اس انکوائری میں شامل ہونے کیلئے وہ جب رائیونڈ سے ٹھوکر نیاز بیگ لاہور پہ واقع نیب کے دفتر کی جانب روانہ ہوئیں تو ان کے ساتھ لیگی رہنمائوں کی درجنوں گاڑیاں تھیں۔ جب یہ قافلہ نیب دفتر کے باہر پہنچا تو باقاعدہ پلاننگ کے تحت ہنگامہ آرائی شروع کر دی گئی تاکہ نیب میں حاضری نہ دینی پڑے۔ نیب دفتر کے باہر شدید قسم کی ہنگامہ آرائی کی گئی جس کی فوٹیج ہر ٹی وی چینل کے پاس موجود ہے جبکہ اس روز موقع پر موجود لوگ بھی اس کی گواہی دیں گے کہ کس طرح گاڑیوں میں بھر کر لائے گئے کارکنان نے گاڑیوں سے اترتے ہی ڈگیوں سے وہ تھیلے نکالے جن میں پتھر بھرے گئے تھے (اس حوالے سے وڈیوز موجود ہیں)۔ ایک گاڑی تو ایک ایم پی اے کی تھی جس میں پتھروں کے توڑے پڑے تھے(یہ گاڑی بعد میں پولیس نے برآمد بھی کر لی تھی، لیگی رہنما نے موقف اپنایا تھا کہ وہ پھول کی پتیاں تھیں جنہیں پتھر بنا کر پیش کیا گیا) کئی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں جعلی تھیں۔ جیسے ہی یہ قافلہ نیب کے دفتر کے باہر رکا، کارکنوں نے پولیس پر پتھرائو شروع کر دیا۔ لاہورکے ہسپتالوں کے ریکارڈ کے مطا بق اس روز لیگی کارکنوں کے پتھرائو کے سبب چار پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے تھے۔ پتھروں کے تھیلوں والی کہانیاں کوئی افسانہ نہیں بلکہ آج بھی ٹی وی چینلز کے آرکائیو اور یو ٹیوب سمیت سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر وہ وڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں۔ پولیس پر پتھرائو کے ردعمل میں جب پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی تو پھر پورا علاقہ میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ کئی گھنٹوں تک یہ سلسلہ جاری رہا، آخرکار نیب پیشی کو منسوخ کر دیا گیا۔ اب بتائیے کہ عمران خان جب لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو کیا ایک گملا بھی ٹوٹا؟ کسی ایک گاڑی کو بھی نقصان پہنچا؟ وہ الگ بات کہ کچھ عناصر نے پوری کو شش کی تھی کہ مخصوص گروپوں کو ان کے سامنے کھڑا کر ہنگامہ کرایا جائے لیکن عمران خان کی حمایت میں آنے والے وکلا کی تعداد چونکہ بہت زیا دہ تھی اس لیے یہ حربہ ناکام رہا۔ جبکہ نیب پیشی پر سنگ باری چند منٹوں تک نہیں بلکہ ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک جاری رہی۔ کیا عمران خان کی عدالتوں میں پیشیوں سے قبل کسی پولیس اہلکار پر پتھرائو ہوا؟ کیا عدالتوں کے شیشے ٹوٹے؟ کیا عدالتی کارروائی معطل ہوئی؟ دونوں بار عدالتی کارروائی چلتی رہی اور باہر کارکن پُرامن طور پر موجود رہے۔ آج وفاق میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے اور نیب اس کے ماتحت ایک ادارہ ہے۔ اس لیے آگے بڑھ کر حکومت کو نیب کے اخراجات کا ریکارڈ چیک کرنا چاہئے تاکہ پتا چل سکے کہ اگست 2020ء میں لیگی کارکنوں کی سنگ باری سے نیب کے دفتر کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ کتنا تھا۔ پارکنگ میں کھڑی کتنی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے تھے‘ کون کون سے اہلکار دفتر میں محبوس ہو کر رہ گئے تھے۔ نہ صرف تمام حقائق کا اندازہ ہو جائے گا بلکہ تمام چہرے بھی سامنے آ جائیں گے۔
نیب لاہور کے دفتر میں ہنگامہ آرائی کے چند گھنٹوں بعد ماڈل ٹائون لاہور سے ایک پریس کانفرنس کی گئی جو آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ اس میں مریم نواز صاحبہ کی طرف سے تسلیم کیا گیا کہ وہ ڈیڑھ گھنٹے تک اپنی گاڑی میں نیب دفتر کے باہر موجود رہیں۔موجودہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اسی پیشی کے تناظر میں کہا تھا کہ مریم نواز پر ''لیزر گن ‘‘ سے حملہ ہوا اور ان کی گاڑی کے بلٹ پروف شیشے ٹوٹ گئے۔ لیگی اراکینِ اسمبلی نے اس پیشی سے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''آج کی نیب پیشی سے انہیں بہت فائدہ ہوا ہے۔ کل تک جو کہتے تھے کہ مسلم لیگ نواز منجمد ہو گئی ہے‘ آج کے بعد سب کو پتا چل گیا ہو گا کہ نوا زلیگ متحرک ہو چکی ہے‘‘۔ یہیں پر بس نہیں‘ 26 مارچ 2021ء کو نیب نے دوبارہ مریم نواز صاحبہ کو طلب کیا تو ایک بار پھر انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کارکنوں کی معیت میں نیب آفس جائیں گی جس پر نیب نے باقاعدہ طور پر لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ عدالت لیگی قیادت کو کارکنوں کے ہمراہ نیب آفس میں پیشی سے روکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved