تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     03-03-2023

سپریم کورٹ کا صائب فیصلہ

بدھ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ سنا یا جس میں دونوں صوبوں میں نوے روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا یہ فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے دیگر تین اراکین کے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور از خود نوٹس کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا کی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے یعنی جہاں گورنر نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا‘ وہاں انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی جانب سے ادا کی جانی چاہیے اور جہاں گورنر کے حکم سے اسمبلی تحلیل نہیں کی گئی‘ وہاں عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری صدر کو ادا کرنی ہوگی۔اس لیے الیکشن کمیشن فوری طور پر صدرِ مملکت سے مشاورت کرے اور اگر 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی بھی جاسکتی ہے۔بادی النظر میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بڑا جامع اور آئینی اقدار کا عین عکاس ہے۔ اس ازخود نوٹس کیس کے حوالے سے جن معزز جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھے‘ اُنہیں اختلاف اس از خود نوٹس کیس پر تھا نہ کہ نوے دن میں انتخابات کروانے پر۔کیونکہ جب آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے روز میں وہاں نئے انتخابات کے انعقاد کا واضح حکم موجود ہے تو اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں رہنا چاہیے۔
گوکہ تحریک انصاف سمیت اکثریتی حلقوں کی طرف سے اس فیصلے کو صائب قرار دیا جا رہا ہے لیکن حکومتی موقف اس سے کچھ مختلف ہے۔ اس فیصلے پر ابتدائی ردِعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ پٹیشن تین دو کی اکثریت سے منظور نہیں بلکہ چار تین کی اکثریت سے مسترد ہوئی ہے۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ ابتدائی طور پر نو رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا‘ جس سے دو معزز جج صاحبان‘ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے رضاکارانہ طور پر خود کو علیحدہ کر لیا تھا جس کے بعد 23فروری کو بنچ میں شامل مزید دو معزز جج صاحبان جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا اور یکم مارچ کو مزید دو معزز ججوں نے پٹیشن کو مسترد کیا اور تین نے قابلِ سماعت قرار دیا۔ اس طرح وزیر قانون کے مطابق مجموعی طور پر سات جج صاحبان نے اس مقدمے میں فیصلہ سنایا ہے‘ جن میں سے چار نے ان درخواستوں کو ناقابلِ سماعت جبکہ تین نے قابل سماعت قرار دیا۔ یوں اکثریتی فیصلہ ان درخواستوں کے خلاف آیا ہے اور اب حکومت کو اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست بھی دائر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی نے بھی اعظم نذیر تارڑ کے موقف کی تائید کی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے وکیل کا حکومت کی اس منطق پر کہنا تھا کہ ان کے سامنے تو پانچ رکنی بنچ ہی تھا اور انہوں نے اس بنچ کے سامنے ہی دلائل دیے اور پھر فیصلہ بھی اس پانچ رکنی بنچ نے ہی سنایا ہے۔ حیرت ہے کہ وزیر قانون اس واضح فیصلے کی تعبیر اس انداز میں کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق اگر حکومت سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانے گی تو پھر یہ انارکی پھیلانے کے مترادف سمجھا جائے گا کیونکہ بنچ کے سامنے خود حکومتی وکلا نے پوری بحث کی ہے اور اب اگر حکومت یہ فیصلہ نہیں مانتی تو پھر ایسے میں صرف لفظ انارکی ہی ذہن میں آتا ہے۔حکومت کی طرف سے اس فیصلے کی خود ساختہ تعبیرات کے بعد یہی نظر آ رہا ہے کہ حکومت نوے دن میں انتخابات کے انعقاد کے حق میں نہیں۔ اس رویے سے ملک میں عدم استحکام کی نئی لہر اُبھر سکتی ہے۔ بہر حال‘ حکومتی موقف جو بھی ہو‘ اب الیکشن کمیشن پر لازم ہے کہ وہ دونوں صوبوں میں نوے روز میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ نوے دن میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ کا اعلان نہیں کر سکتا کیونکہ صوبوں میں یہ گورنر کا اختیار ہے اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں صدرِ مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
دیکھا جائے تو عوام بڑی بے صبری سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے منتظر تھے اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو جیل بھرو تحریک معطل کرنے اور انتخابی مہم شروع کا اعلان بھی کر دیا ہے لیکن خان صاحب شاید آئین کے آرٹیکل 105کی مکمل تشریح سے روشناس نہیں ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 105 میں واضح لکھا ہے کہ مردم شماری کے دوران پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات آئین کے آرٹیکل 51سے متصادم تصور ہوں گے۔ آرٹیکل 51کے مطابق مردم شماری کے حتمی نتائج کی روشنی میں پہلے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی اور پھر انتخابات ہوں گے۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کی روشنی میں اگر دو صوبوں میں جنرل الیکشن ہوتے ہیں تو یہ 2017ء کی مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہوں گے جبکہ قومی‘ سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کروائے جائیں گے‘ ملک میں دو الگ الگ حلقہ بندیوں پر انتخابات قانونی طور پر درست نہیں۔ ملک میں نئی مردم شماری کا آغاز یکم مارچ سے ہو چکا ہے اور 30اپریل کو اس کے گزٹ نوٹیفکیشن کی صورت میں حتمی نتیجہ سامنے آنا ہے۔ اب اگر نئی مردم شماری ہونے کے باوجود پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کرائے جاتے ہیں تو اس سے آئین کے آرٹیکل 51کی افادیت پر سوال اُٹھتا ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ حکومتی وکلا نے سپریم کورٹ کے روبرو مردم شماری کا مسئلہ کیوں نہیں رکھا‘ اگر وہ ایسا کرتے تو عدالت اپنے فیصلے میں اس پہلو کو بھی مد نظر رکھتی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو دلائل دیتے کہ نئی مردم شماری کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل نے ستمبر 2021ء میں کیا تھا جس پر چاروں وزرائے اعلیٰ کے دستخط بھی موجود ہیں‘ اس لیے نئی حلقہ بندیوں سے قبل نئے انتخابات کا انعقاد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد متوقع سوالات یہ بھی ہیں کہ ملک کے شدید معاشی مسائل کا شکار ہونے کے باوجود کیا حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 55 ارب روپے کے مالی وسائل فراہم کر سکے گی۔ نیز کیا روز افزوں دہشت گردی کے پیش نظر انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لیے حکومت پولیس اور فوج کی مطلوبہ نفری کی فراہمی یقینی بنا سکے گی۔ان عوامل کے پیش نظر حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کر سکتی ہے۔ اصولی طور پر سپریم کورٹ کے اس صائب فیصلے کی روشنی میں نئے انتخابات کے انعقاد میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہیے تاکہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو سکے۔ اسی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت بھی گمبھیر مسائل میں گھر چکی ہے۔ ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے‘ گزشتہ روز حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے شرح سود 20 فیصد کر چکی ہے اور ڈالر ہے کہ مسلسل بے قابو ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام قائم کیے بغیر معاشی استحکام کا قیام ناممکن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved