تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     03-03-2023

رسہ کشی اور سیاسی تعطل

تمام تر اعتراضات اور پیچیدہ آئینی سوالات کے سائے میں آخرِکار سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے دو اور تین کے تناسب سے اپنے فیصلے میں پنجاب و خیبرپختونخوا میں نوے دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے صدر پنجاب اور گورنر خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ دیں۔ وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولتیں فراہم کرے۔ اکثریتی فیصلے میں صدرِمملکت کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے 20فروری کے اعلان کو خیبر پختونخوا کی حد تک کالعدم کردیا گیاہے جبکہ صوبہ پنجاب کی حد تک صدر کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے قراردیاہے کہ اگر9 اپریل کوپنجاب میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے توباہمی مشاورت سے تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔ واضح عدالتی فیصلے کے باوجود حکومت قانونی عوامل کو زیادہ گنجلک اور سیاسی تضادات کا دائرہ وسیع تر کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ قانونی توضیحات و تنقیحات کی بوقلمونی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اٹارنی جنرل شہزادعطا الٰہی اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی فیصلے کی تشریح چار‘ تین کے تناسب سے درخواستوں کے مسترد ہو جانے کے زاویۂ نظر سے کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ دو صوبوں میں انتخابات کرانے کے ایشو پہ ازخود نوٹس کیس کی شروعات نو رکنی بینچ کی تشکیل سے ہوئی جس میں شامل دو فاضل جج صاحبان نے لارجر بینچ میں شریک چار ساتھی ججزکی طرف سے اٹھائے گئے تکنیکی اعتراض کے باعث خود کو بینچ سے الگ کر لیا لیکن اسی پہلی سماعت ہی میں دو ججوں نے ازخود نوٹس کو بلاجواز اور سپیکر پنجاب اسمبلی کی درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر مستردکرنے کی رائے دے کر اس مقدمے کا رخ متعین کر دیا‘ اس لیے دوججزکی بینچ سے رضاکارانہ علیحدگی کے بعد اس کیس کو پہلی سماعت کے تاثر سے نکالنے کی خاطر چیف جسٹس کو سات کے بجائے پانچ رکنی بینچ تشکیل دینے پہ اکتفا کرنا پڑا جس میں پھر دو ججز نے ازخود نوٹس اور درخواستوں کوناقابلِ سماعت قرار دیا۔ اس طرح یہ فیصلہ تین کے مقابل چار ججوں کے استرداد پہ محیط ہے۔ لاریب‘ جس پُرزور اور پیچیدہ عہد میں عدالتی فیصلوں کو سیاسی محرکات پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کی روایت عام ہو وہاں ہر دلیل اپنا تضاد خود پیدا کر لیتی ہے۔ وفاقی وزیرقانون اور اٹارنی جنرل کے موقف سے قطع نظر‘ اس اہم کیس کی سماعت کے دوران نو رکنی بینچ میں شریک ججز نے جس طرح اپنی قانونی فراست کا استعمال کیا وہ ہمارے عقلی ارتقا کا زینہ اور مستقبل کے دبستانوں کی تشکیل کا محرک نظر آیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے اپنے فہم کے مطابق تشریحات کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی تضحیک آمیز تشریح کررہی ہے، وزیرقانون کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایسی تشریح زیب نہیں دیتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن نہ کرانے سے توہینِ عدالت لگے گی اور 90 روز کے بعد نگران حکومتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے سات رکنی بنچ ختم کر کے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا تھا‘ آئین میں نگران حکومت 90روز سے ایک دن آگے نہیں بڑھ سکتی؛ تاہم سپریم کورٹ نے صدرِ مملکت اور الیکشن کمیشن کو مشاورت کے ساتھ مشروط طور پر الیکشن کی تاریخ کچھ آگے بڑھانے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ اگر صدر اور الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے نہیں کرتے تو نگران حکومتیں 90روز میں ختم ہوجائیں گی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ دونوں ہائی کورٹس میں درخواستیں ابھی تک زیرِسماعت ہیں، فیصلے کی تشریح وہاں بھی ہوسکتی ہے۔
رومی کہتے تھے کہ زندگی کے کھیل میں کچھ قوانین ایسے ضرور ہونے چاہئیں جنہیں وہ بھی تسلیم کریں جو ان کی خلاف ورزی کی قوت رکھتے ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ التباسات کی دھند میں بھٹکتے کاروانِ ملت کو اپنی منزل کے نشان صاف نظر آنے چاہئیں۔ ہماری قومی قیادت کب تک ایک بزدل بڑھیا کی مانند دنیا کے آلام سے گھبرا کر کنجِ عافیت میں پڑی رہے گی؟ سیاست دانوں کو اپنی کمزور حیثیت پر قناعت کرنے کے بجائے اِس کشمکش میں پارلیمنٹ کے دائرۂ اختیارکا دفاع کرنا پڑے گا، بصورتِ دیگر غیرشخصی قوتیں عوام کے حقِ حاکمیت کو نگلتی جائیں گی۔ اگر ہم غور کریں توگزشتہ سال اپریل کے پہلے عشرے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی عدم اعتماد کے ذریعے برطرفی کے بعد سے اب تک‘ گیارہ مہینوں پہ محیط پُرجوش سیاسی جدوجہد کے باوجود سیاست کا دھارا ہموار بہتا رہا۔ پی ٹی آئی اراکین کے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے اورلاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے علاوہ جیل بھرو تحریک جیسے حربے استعمال کرنے کے باوجود عوامی قوت کے ذریعے حکومت کو الیکشن کرانے پر مجبورکرنے کی ہرکوشش صدابصحرا ثابت ہوئی؛ تاہم خان صاحب مقدمے بازی کے ذریعے ایک ایسا سیاسی بحران پیدا کرنے میں کامیاب ضرور ہو گئے جس کی لہریں تادیر حکومت کو وقفِ اضطراب رکھیں گی لیکن اس کشمکش کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ یہی نامطلوب جدلیات ہمارے فکری ارتقا کا زینہ بنتی دکھائی دیتی ہے۔ بظاہر یہی لگا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران سماجی انصاف کے حصول، سیاسی و جمہوری آزادیوں اور مساوات کے نعروں کے جلو میں جاری جدوجہد فیصلہ کن مراحل میں داخل ہونے والی ہے اور یہی مظاہربہت جلد قومی مستقبل کا تعین کریں گے۔
ہمارے معاشرے میں بڑے پیمانے پر محرومی کے تناظر میں ناقابلِ قبول عدم مساوات کے خاتمے اور سماجی و اقتصادی حقوق کے نہایت پُرکشش نعروں نے ہی ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد عمران خان کو مقبولیت کے بامِ عروج تک پہنچایا مگر افسوس کہ دونوں سطح کے نیچے پائے جانے والے مہیب حقائق کو سمجھنے میں تاخیر کرکے اس انمول موقع کو گنوا بیٹھے؛ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی باقیات نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے اجتماعی قومی قیادت کو شریکِ سفر بنا کر ضیاء الحق جیسے مطلق العنان آمر کو 1985ء میں عام انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا تھا، اس کے برعکس پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنی سولوفلائٹ اور ادارہ جاتی ڈھانچے کے اندر سے حمایت تلاش کرنے کی موہوم کوشش کے باعث سیاسی تنہائی کی تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے کی تقدیر قبول کرکے اپنی راہ کی مشکلات بڑھا لیں۔
عمران خان اور ان کے حامی فوری انتخابات کے لیے زور لگا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت امسال اکتوبر یا شاید اسمبلیوں کی مدت بڑھا کر اگلے سال اگست میں انتخابات کرانے کا تہیہ کیے بیٹھی ہے۔ اس رسہ کشی کے نتیجے میں بظاہر یہ ملک ایک ایسے سیاسی تعطل کی طرف بڑھ رہا ہے جو نقصان دہ تنازع میں بدل سکتا ہے۔ ہماری مملکت جو پہلے ہی معاشی بحران اور ہولناک سیلاب کے بعد ہونے والی تباہی سمیت کئی نادیدہ چیلنجز سے نمٹ رہی ہے‘ سیاسی بدامنی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ 1998ء کی طرح‘ آئی ایم ایف نے پہلے سے طے شدہ شرائط میں اچانک اضافہ کرکے حکومت کی مشکیں کس دی ہیں۔ آئی ایم ایف شرحِ سود بڑھانے، بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور مستقل سرچارج، ایکسچینج ریٹ کو افغان باڈر ریٹ سے منسلک کرنے اور بیرونی فنانسنگ پر تحریری یقین دہانی کیلئے بضد ہے۔ شرحِ سود میں اضافہ ہو گیا ہے، مزید شرائط پر پیش رفت جاری ہے۔ مسلم لیگ (نواز) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب بھی ان کی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو عالمی اداروں کے رویے بدل جاتے ہیں۔ 1990ء میں عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی نوازشریف کو پریسلر ترمیم جیسی مہلک پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 1998ء میں دوسری مدتِ اقتدار میں بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے سخت پابندیاں عائد کرکے لیگی حکومت کو منقارِزیر پہ رکھا اور اب جب ہماری مملکت کی نیّا ایک قسم کے خود پیدا کردہ سیاسی بحران میں ہچکولے کھا رہی تھی‘ عالمی مالیاتی اداروں نے دانستہ مشکلات بڑھا کرہمارے سیاسی تنازعات کو دوچند کر دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved