پہلا سوال ہی یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے مطابق کراچی کی جو تین بڑی جماعتیں مسلح گروہ رکھتی ہیں ، اپنے حامیوں کو زک پہنچنے پر خاموش کیسے رہ پائیں گی ۔ ابھی صرف ایک گروہ دہائی دے رہا ہے ، آنے والے دنوں میں دوسرے \"مظلوم \"بھی آہ وزاری میں شریک ہو جائیں گے ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ جو سیاسی قوتیں برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف مسلّح جدوجہد کر رہی ہیں اور اس جدوجہد میں ہزاروں بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان کے خلاف بھی کوئی قدم اٹھانا چاہیے یا نہیں؟ مثال کے طور پر شہرِ قائد کی حد تک ان سب پر اگلے عام انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی جائے تو کیسا ہے ؟ جون 2009ء میں بہاولپور سمیت 16صوبوں کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے ،یہ سینیٹر محمد علی درّانی ہی تھے ، جنہوںنے پہلی بار اس لے پر مصرعہ اٹھایا تھا۔ تجزیہ نگار حیران تھے کہ درّانی صاحب اتنے بڑے کھلاڑی کب سے ہو گئے ؟ پھر یہ خواب انہوںنے اس وقت کیوں نہ دیکھا، جب ڈیڑھ سال قبل وہ پرویزمشرف کے وزیرِ اطلاعات تھے ۔عہد و پیماں ٹوٹنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے راستے بالاخر نون لیگ سے الگ ہوئے تو پنجاب میں گورنر راج لگا کر صوبہ فتح کرنے کی ناکام کوشش ہوئی۔ واضح اکثریت سے محروم نون لیگ اس ہم خیال گروپ کو ساتھ ملا کر حکومت چلاتی رہی ، جس کا ضمیر انتخابات میں شکست کے بعد اچانک جاگ اٹھا تھا۔ زرداری حکومت کی کارکردگی صفر تھی اور الیکشن سر پہ آپہنچا تو قاف لیگ اور مسلم لیگ فنکشنل کو ساتھ ملا کر اس نے جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ ہدف یہ تھا کہ احساسِ محرومی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نون لیگ سے یہ علاقہ چھین لیا جائے۔ دوسری طر ف صوبہ ہزارہ کا مطالبہ اسی دن شدّت پکڑ گیا تھا، جب اے این پی نے سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھ کر ایک \"تاریخ ساز\"فتح حاصل کی تھی۔ جنوبی پنجاب اور ہزارہ، ایم کیو ایم نے دو نئے صوبوں کا بل پیش کیا تو عوامی نیشنل پارٹی اورنون لیگ سے اس کی ٹھن گئی ۔ جواباً سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کی گئی ۔ اس پر سندھی قوم پرست بپھر اٹھے ۔ نون لیگ کے ہاتھ سے ہزارہ چھیننے کے لیے تحریکِ انصاف نے علاقے کے عوام سے نئے صوبے کا وعدہ کیا ۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے ۔ پیر کے روز کُل جماعتی کانفرنس میںقیامِ امن کی خاطر تمام سیاسی جماعتیں وفاقی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں ۔ نئے صوبوں کے مطالبے کے بعد اب وہ بری طرح منقسم ہیں ۔ ستمبر 2010ء میں محب وطن جرنیلوں سے انقلاب برپا کردینے کی درخواست اس عالم میں کی گئی تھی کہ خود وہ حکومت میں شامل تھے؛ لہٰذا میڈیا کوتو کم از کم ہر صدمے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ طالبان سے مذاکرات میں جن مذہبی رہنمائوں کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق ان میں سرفہرست ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ امریکہ نے ان سے افغان طالبان سے مذاکرات میں مدد کے لیے رابطہ کیا توانہوںنے تعاون پر آمادگی ظاہر کی ؛البتہ ان کی ابتدائی شرائط یہ تھیں : امریکہ فوری طور پر افغانستان سے نکل جائے اور ہر قسم کے فوجی اڈے ختم کر دے ، کرزئی حکومت کی حمایت ترک اور ڈرون حملے فوراً روک دے ۔یہ معصومانہ خواہشات مان لی جاتیں تو مذاکرات کے لیے باقی کیا بچتاتھا؟ جہاں تک مولانا فضل الرحمٰن کا تعلق ہے ، ان کے تعاون کی ایک قیمت ہے ۔ بلوچستان میں وہ وزارتِ اعلیٰ یا گورنر کا عہدہ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف قوم پرست انہیں باہر رکھنے کی جان توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔ دوسرا مطالبہ غالباًپختون خوا کی صوبائی حکومت کوغیر مستحکم کرنے کے لیے نون لیگ کی حمایت ہوگا۔ عالمی رائے عامہ اب ڈرون حملوں کی مخالف ہے ؛لہٰذا سلامتی کونسل سے رجوع کا فیصلہ بروقت ہے لیکن یہ معاملہ بھی قبائلی علاقوں ، بالخصوص شمالی وزیرستان پہ حکومتی رٹ قائم کرنے سے جُڑا ہے ۔عالمی میڈیا میں ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا چاہیے کہ ایشیا میں امریکہ کی حریف القاعدہ مشرقِ وسطیٰ میں اس کی حلیف کیوں ہے ؟ کیا خلیج میں اپنے قدم جما کر وہ عالمی امن کے لیے خطرہ نہ بنے گی ؟ شمالی وزیرستان ڈرون حملوں کا سب سے بڑا ہدف اور دہشت گردوں کا گڑھ ہے ۔ماضی میں امریکہ کی طرف سے فوجی کارروائی کے شدید اصرار کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں معاہدے کیے گئے ۔ملالہ یوسف زئی کا واقعہ پیش آیا تو سوشل میڈیا کا اصرار یہ تھا کہ اب شمالی وزیرستان پر یلغار کر دی جائے گی۔ بہرحال اس بار مذاکرات ناکام رہے تو دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔ ماضی میں سوات اور جنوبی وزیرستان میں بے مثال عسکری کامیابیاں حاصل کی گئیں ۔ جنوبی وزیرستان میں یخ بستہ موسم کے عادی عسکریت پسند سردی کی شدت کے منتظر تھے کہ حملہ آور ہوں ۔ان معصوموں کو کچھ خبر نہ تھی کہ ان کا دماغ درست کرنے کے لیے سیاچن کے جوان منگوائے جائیں گے ۔ بہرحال اب چند اہم سوالات اور بھی ہیں ۔ مثلاً چند ماہ قبل طالبان خود مذاکرات کی پیشکش کر رہے تھے لیکن مئی 2013ء میں تحریکِ طالبان کا نائب سربراہ ولی الرحمٰن ڈرون حملے میں قتل ہواتو اس نے اپنی پیشکش واپس لے لی تھی ۔ اب بھی کوئی اہم طالبان کمانڈر امریکہ کے ہاتھوں قتل ہو سکتاہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اپنی انتخابی مہم میں نون لیگ اور تحریکِ انصاف نے طالبان سے مذاکرات کااعلان کیا تھا۔ ان کی انتخابی مہم کسی بھی نقصان سے محفوظ رہی لیکن دونوں جماعتیں اقتدار میں آئیں تو طالبان نے پوری قوت سے کارروائیاں جاری رکھیں ۔ دوسری طرف سزائے موت پر عمل درآمد ملتوی کرنے سے طالبان کے دہشت گرد بھی مستفیض ہو رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ طالبان نے اپنے ساتھیوں کو پھانسی دینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔ خیر سگالی کی یہ یک طرفہ ٹریفک حکومتی کمزوری ظاہر کرتی ہے ۔ دہشت گردوں کے حملے اگر جاری رہے تو سزائوں پہ عمل درآمد شروع کر دینا چاہیے۔ اس صورت میں سیاسی اور مذہبی قیادت کو کھل کر ان لوگوں کی مذمت کرنی چاہیے، جو جہاد کے اسلامی اصولوں میں سے کسی ایک کی پیروی بھی نہیں کرتے ۔ مذاکرات یا جنگ، ان کو اب آخری موقعہ دینا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved