تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     04-03-2023

زندگی کی چاشنی نہیں رہی

ہم جو مے کدوں کی باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اجتماعی حالات کو چھوڑیے اور فقط اپنی شاموں کی فکر کیجئے‘ ہماری سمجھ تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی‘ اب ہمت بھی ہار بیٹھے ہیں۔ اس لیے کہ جو ہو رہا ہے اور جو حالات ہمارے سامنے ہیں‘ ہمارے تمام تصورات سے بالا ہو گئے ہیں۔ خرابی تو تھی‘ نوحہ کرتے تھے اور اس رونے میں ماہر بھی ہو گئے تھے لیکن جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ نوحہ گری سے بہت آگے جا چکا ہے۔ کافی عرصے سے ایڈورڈ گبن کی لازوال تصنیف 'دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میرے زیرِ مطالعہ ہے۔ موڈ ہو یا فرصت ملے تو چند صفحات پڑھ لیے جاتے ہیں۔ رومن ایمپائر کے زمانۂ زوال کی داستان پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی کہانی سامنے آ رہی ہے۔ روم کے تخت پر ایسے ایسے نکمے بیٹھے یا بٹھائے گئے کہ ان کے حالات پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اتنے نکمے روم کے نہ تھے جتنے اپنے دیس کے ہیں۔
وہی عیاشی‘ وہی لاپروائی اور وہی نکما پن۔ ہمارے حالات دیکھئے تو سہی‘ کرپشن کی داستانیں جو کہ الف لیلوی قسم کی تھیں‘ ان کے کرداروں کو اس بدنصیب قوم کے اوپر بٹھا دیا گیا۔ سلطنتِ روم میں اکثر قیصر‘ روم میں تعینات فوج جنہیں 'پری ٹوریئن گارڈ‘ کہتے تھے‘ کی پسند کے ہوتے تھے۔ گارڈ کے بپھرے جوانوں نے کسی کو تخت پر بٹھا دیا‘ اس کے عوض سونے کی شکل میں بھاری معاوضہ لیا اور ریخت و زوال کی داستان جاری رہی۔ یہاں بھی دیکھ لیں کون تخت پر بیٹھا ہے۔ کرپشن کی داستانیں تو ایک طرف رہیں‘ جو تخت پر بیٹھے ہیں‘ ان کی صلاحیتوں کا بھی کچھ اندازہ کیا جائے۔ جنابِ وزیراعظم‘ جو اپنے منصب کے لحاظ سے کم لگتے ہیں اور کسی کامیڈی شو کے مرکزی کردار کا تاثر زیادہ دیتے ہیں‘ اور جناب اسحاق ڈار کی صورت میں جس ٹوڈر مَل کو خالی خزانے پر بٹھا دیا گیا ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حالات کا کوئی ادراک نہیں لیکن بڑھکیں مارتے آئے اور گرتی ہوئی معیشت کا چند ماہ میں وہ حال کر دیا کہ باہر کے ساہوکار اور اس ملک کے باشندے دونوں حیران۔ لیکن جن کی یہ چوائس تھے‘ جنہوں نے ان کو ان کی مسندوں پر بٹھایا‘ اپنی خو میں مگن ہیں۔ دماغوں پر ایسے تالے لگے ہوئے کہ ہر سوچ سے قاصر۔ دماغوں میں ایک ہی خیال ہے کہ عوام سے رجوع نہیں کرنا اور فلاں شخص کا راستہ روکنا ہے۔ کوئی صلاحیت نہیں اور کچھ آگے قدم لینے سے مکمل انکاری۔ اپنی دنیا میں یہ لوگ جی رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے سلطنتِ روما زوال پذیر تھی اور روم میں متعین پری ٹورئین گارڈ ہرچیز سے غافل‘ سوائے اپنی تمناؤں کے۔
کچھ سمجھ نہیں آرہا کہاں پھنس گئے ہیں۔ ضد کی کوئی حد ہوتی ہے‘ ناسمجھی کی بھی‘ لیکن یہاں کوئی ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ اعلیٰ ترین عدالت کے منصفوں نے وہ کر دیا جو ان کے بس میں تھا۔ انہوں نے حکم دے دیا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوں تو نئے انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور انہیں الیکشن کرانا پڑیں گے۔ ان کا فیصلہ تو آ گیا لیکن کتنے ہیں جن پر کپکپی طاری ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں گیا تو ان کا حشر کیا ہوگا۔ عوام نے جوتے نہیں اٹھانے‘ افراتفری نہیں کرنی لیکن جب انتخابات میں اپنی رائے دینی ہے تو کھوکھلے اقتدار کی مسندوں پر جو بیٹھے ہیں‘ اُن کا بینڈ باجا ہو جائے گا۔ یہ سب کو معلوم ہے‘ اسی لیے تمام قوتِ عقل اس نکتے پر لگی ہوئی ہے کہ راہِ انتخابات سے فرار کیسے حاصل کیا جائے۔ ایوانِ صدر سے بھی اعلان آ گیا ہے کہ پنجاب کے انتخابات ایک فلاں تاریخ تک کرا دیے جائیں۔ بھاگنا تو چاہیں گے لیکن کہاں تک بھاگیں گے؟ صرف ان ریشہ دوانیوں تک بات رہتی تو کچھ اتنا نقصان نہ ہوتا لیکن ان چالوں اور سازشوں کے ساتھ ساتھ عوام کا کچومر نکلا جا رہا ہے۔ عام آدمی سٹیٹ بینک کی مقرر کردہ شرحِ سود کی باریکیوں کو تو شاید نہ سمجھے لیکن مہنگائی کو تو سمجھتا ہے اور مہنگائی وہاں تک پہنچ چکی ہے جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ روپے کی قیمت اتنی جا گری ہے کہ ڈر لگنے لگا ہے کہ عام اشیا قوتِ خرید سے باہر ہو جائیں گی۔
اور دیکھئے تو سہی‘ یہ سب کچھ ہوا کیسے۔ ایک چلتی ہوئی حکومت تھی‘ حالات مثالی نہ تھے لیکن یہاں حالات کب مثالی رہے ہیں‘ معمول کی زندگی چل رہی تھی اور کسی حاجی صاحب کی دانست میں کچھ سوجھا اور انہوں نے سارا نظام درہم برہم کر دیا۔ جو کسی بلدیاتی انتخاب لڑنے کے قابل نہ تھے‘ ان کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ ان مانگے کے مداریوں نے کیا کرنا تھا۔ جوں ہی یہ آئے‘ حالات بگڑتے گئے اور ایسے بگڑے کہ کسی کی گرفت میں نہ رہے۔ یوں تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری پچھتر سالہ تاریخ زوال کی ایک لمبی داستان ہے لیکن اصل میں جو آج کل ہمارے سامنے ہے‘ یہ پچھلے دس گیارہ ماہ کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہاں نہ پوچھ گچھ‘ نہ کوئی شنوائی۔ جن صاحب کا ذکر کیا گیا ہے‘ ان سے کبھی پوچھ گچھ ہوگی کہ حضور آپ نے یہ کیا توکیا کیوں؟ وہ صاحب اور ان کے دائیں بائیں دو تین ساتھی‘ بس ان کا یہ ماجرا ہے۔ کوئی مشاورت نہیں‘ کہیں اس نکتے پر بحث نہ ہوئی‘ بس جو مزاجِ یار میں آیا وہ کر دکھایا۔ آپ تو سکھی کہ ذاتی وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن قوم کی کیا حالت کر دی ہے؟
اب تو بس کیجئے‘ اس قوم پر کچھ رحم کیجئے۔ رجوع قوم سے کریں‘ عوام کو فیصلہ کرنے دیں کیونکہ فیصلے کے جو نتائج ہوں گے‘ اچھے یا برے‘ وہ عوام کو بھگتنے ہیں۔ آپ کہاں سے قوم کی امنگوں اور حسرتو ں کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں؟ سوچ اتنی اعلیٰ ہوتی‘ کارکردگی کچھ اچھی ہوتی تو قوم ان حالات کو نہ پہنچتی۔ لیکن جب تباہی ہوگئی‘ ستیاناس ہو گیا‘ اب تو گھمنڈ کی چوٹیوں سے کچھ نیچے آئیے۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیں‘ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ قومی مفاد کی نزاکتوں کو آپ ہی سمجھتے ہیں۔ قوم سب کچھ دیکھ چکی ہے‘ بچہ بچہ سمجھ چکا ہے کہ ملک کی تقدیر کے حوالے سے کیا کھلواڑ کیا گیا ہے۔ موجودہ تکالیف کے درمیان بھی قوم اس امر کے لیے بے تاب ہے کہ اسے اپنی رائے کے اظہار کا موقع میسر ہو۔ آپ نے جو کرنا تھا کر چکے۔ مزید اس قوم کے ساتھ کیا کھیلنا ہے؟
حضور! یہ تو آپ جان گئے ہوں گے کہ حالات کو سنبھالا دینا آپ کے بس کی بات نہیں۔ جن کو آپ لے کر آئے ہیں‘ ان کے بارے میں کیا بات کرنی‘ وہ تین میں نہ تیرہ میں۔ اپنے بارے میں سوچئے کہ آخری عدالت سپریم کورٹ نہیں بلکہ عوام کی عدالت ہے۔ عوا م سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں۔ اس نکتے کو سمجھ جائیے حضور۔ ہاتھ پیر جو مارے جا رہے ہیں‘ بے سود ہیں‘ تنکوں کے سہارے سے آنے والے طوفان کو روکا جا سکتا ہے؟ ایک دفعہ اس طوفان نے آنا ہے‘ عوام نے رائے دینی ہے۔ پنجاب کے انتخابات کب تک روکے جا سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کا حکم آ چکا ہے‘ قصرِ صدارت کی طرف سے بھی اعلان ہو چکا ہے۔ عوام کے موڈ کو بھی آپ جان چکے ہوں گے۔ عقلمندی اِسی میں ہے کہ بے جا کی ضد چھوڑ دی جائے‘ اپنی اَنا کو دھڑکتے سینوں سے نکال کر ایک طرف رکھ دیا جائے۔ مسئلہ کسی کی ضد کا نہیں رہا‘ مسئلہ اب قوم کی بقا کا ہے۔ مزید بے وقوفیوں کا متحمل یہ ملک نہیں ہو سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved