''عوام دوست پاکستان‘‘ کیا ہے؟ سیاسی جماعت؟ این جی او؟ یا پھر کوئی تحریک؟
کہتے ہیں 'المعنی فی بطن الشاعر‘۔ شعر کا صحیح مفہوم شاعر ہی بتا سکتا ہے۔ یہ 'شعر‘ فرخ سہیل گوئندی صاحب کا ہے۔ اس کی تشریح ہم انہی سے پوچھیں گے کہ اس شعر میں شاعرکیا کہنا چاہتا ہے۔ فرخ صاحب فکری و سیاسی تجربات کے حوالے سے صاحبِ دیوان ہیں اور میرؔ صاحب کے اس مصرع کے مصداق کہ 'درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا‘۔ یہ 'شعر‘ مگر نیا ہے۔ اس لیے اس نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
معاصر اہلِ قلم‘ جو لکھتے وقت صرف ایک قلم کو کافی نہیں سمجھتے‘ اس میں علم و فکر کی روشنائی کو بھی لازم قراردیتے ہیں‘ گوئندی صاحب ان میں نمایاں ہیں۔ ان کے تین امتیازات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک کتاب لکھنے کے لیے کئی کتب کا مطالعہ ضروری سمجھتے ہیں۔ اکثر لکھنے والے اس تکلف کے قائل نہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک نظامِ فکر رکھتے ہیں اور اس کو امرِ واقعہ بنانے کے لیے میدانِ عمل میں برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ عصری لغت میں بیان کریں تو وہ 'ایکٹوسٹ‘ بھی ہیں۔ تیسرا یہ کہ انہوں نے دنیا دیکھ رکھی ہے۔ ایک مورخ کی نگاہ کے ساتھ بلادِ عالم کا سفر کیا ہے۔ وہ ان شہروں میں چل کر گئے ہیں جہاں فکری تحریکوں نے جنم لیا اور ان خطہ ہائے زمین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جن پر تاریخ لکھی گئی۔ ان کا سفر نامہ ''میں ہوں جہاں گرد‘‘ بیسویں صدی کی نظری تاریخ کا معتبر ریکارڈ ہے۔
گوئندی صاحب کے تاریخی مطالعے میں جو بات ہمارے لیے بطور خاص اہم ہے‘ وہ ترکیہ سے ان کا تعلقِ خاص ہے۔ عثمانیوں کی تاریخ سے لے کر معاصر ترکیہ تک‘ ان کی معلومات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ترکیہ میں انہوں نے طویل قیام کیا۔ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے جب وہ کوئی حل تجویز کرتے ہیں تو اس میں ان معلومات سے ماخوذ بصیرت کی جھلک ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک حل 'عوام دوست پاکستان‘ کا تصور ہے۔
''عوام دوست پاکستان‘‘ فرخ گوئندی صاحب کی شرح کے مطابق کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ سیاسی جماعت کی منزل اقتدار ہے۔ ہم خیال یا جدید دور میں 'ہم مفاد‘ مل کر ایک جماعت بناتے اور مروجہ طریقوں کو اپناتے ہوئے‘ اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقتدار کی یہ جدوجہد اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کے تحت‘ حلقہ ہائے انتخاب میں کامیابی سے اقتدار کے دروازے وا ہوتے ہیں۔ اس کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ ایک حلقے میں کس کو سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ یوں سیاسی جماعتیں امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں۔
''عوام دوست پاکستان‘‘ کوئی این جی او بھی نہیں۔ گوئندی صاحب جب اس بات کا انکار کرتے ہیں تو غالباً ان کی مراد ایسی غیرسرکاری تنظیمیں ہیں جو سول سوسائٹی کے دائرے میں بروئے کار آتی ہیں اور عام طور پر غیرملکی ڈونرز کی معاونت سے کام کرتی ہیں۔ فکری حوالے سے دیکھئے تو سرمایہ دارانہ نظام نے جن سماجی اداروں کو جنم دیا‘ ان میں ایک سول سوسائٹی بھی ہے۔ وہ جب‘ عوام دوست پاکستان‘ کے این جی او ہونے کی نفی کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پس منظر میں یہ خیال بھی موجود ہے۔ 'غالباً‘ اور 'اندازہ‘ جیسے الفاظ میں نے اس لیے استعمال کیے ہیں کہ یہ 'شاعر‘ کی نہیں‘ کالم نگار کی شرح ہے۔
اگر یہ سیاسی جماعت نہیں اور کوئی این جی او بھی نہیں تو پھر کیا ہے؟ گوئندی صاحب نے اس کا جو تعارف لکھا ہے‘ اس میں اسے عوام کا ایک 'پلیٹ فارم‘ کہا گیا ہے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ یہ 'ایک عوامی فکری و شعوری تحریک‘ ہے۔ بزبانِ شاعر‘ اس کی شرح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
''ہمارا منشور 1973ء کے آئین کی وہ تمام شقیں ہیں جو یہاں شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہیں۔ اور ہمارا نصب العین اسی متفقہ آئین کی شق نمبر تین ہے جس میں کہا گیا ہے: ریاست‘ ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرہ قائم کرنے اور اس کے بنیادی اصول‘ کہ ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے اور اس کے کام کے مطابق اجرت دی جائے‘ کو بتدریج پورا کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے‘‘۔
ریاست نے یہ ذمہ داری قبول تو کی مگر اس کو ادا نہیں کیا۔ ریاست کوئی 'شخص‘ نہیں۔ یہ دراصل کچھ اشخاص کے ہاتھوں بروئے کار آتی ہے۔ جدید ریاست ایک عمرانی معاہدے پر کھڑی ہوتی ہے۔ اب ریاست میں سے جو لوگ ریاست کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں‘ وہ اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں‘ اسی کو آئین کہتے ہیں۔ ریاستی مناصب پر فائز افراد جب اپنے فرائض سے غافل ہوتے ہیں تو ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر پاتی۔ ان کو اس جانب متوجہ کرنے کے لیے‘ زندہ معاشروں میں ایسی عوامی تحریکیں اٹھتی ہیں جو ان لوگوں کو غفلت سے روکیں۔ 'عوام دوست پاکستان‘ بھی ایسی ہی ایک تحریک ہے۔
تعارف میں کہا گیا ہے: ''ہم عوام دوست پاکستان کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں‘ طالب علموں‘ خواتین اور شہریوں کے بلا(امتیازِ) رنگ و نسل‘ بلا مذہبی تفریق‘ مل کے عوام کے حقوق‘ شعور کو‘ پاکستان کی سیاست سے لے کر تحریروں‘ ادب اور میڈیا کو موضوع بنانا چاہتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ عوام اپنی آواز بلند کریں گے اور اسی پلیٹ فارم سے عوامی مسائل کا حل بھی تلاش کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ہم عوام فکر و دانش اور منطق و دلیل کے ساتھ اپنی آواز بلند اور پُرامن اور آئینی دائروں میں رہ کر اپنے حقوق کے حصول کی جد وجہد کریں گے‘‘۔
'تحریک‘ کا تصور بیسویں صدی کی عالمگیر سیاسی و فکری تحریکوں کے ساتھ مقبول ہوا۔ اس کے لیے ان تحریکوں نے جو لائحہ عمل اختیار کیا‘ اس کے مطابق مختلف سماجی طبقات کی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان کے مابین موجود فکری وحدت نے انہیں ایک دوسرے کا دست و بازو بنایا۔ یوں معاشرے میں ایک تحریک اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ اس کا آخری مقصد اقتدار کا حصول تھا۔ اشتراکی تحریک انہی خطوط پر اٹھی اور اسلامی تحریک بھی۔ کیا 'عوام دوست پاکستان‘ کی تحریک کا مقصد بھی یہی ہے؟
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ 5مارچ کو لاہور میں اس تصور سے اتفاق رکھنے والوں کو جمع کیا گیا ہے۔ اس تاسیسی کنونشن میں‘ یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس تحریک کا کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اہم تر سوال یہی ہے کہ آئین کی جس شق کو منشور قرار دیا گیا ہے‘ اس کو ایک واقعہ بنانے کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے۔ سماجی تحریکیں عام طور پر اُن لوگوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں جن کے ہاتھ میں ریاست کی باگ ڈور ہے۔ وہ یہ باگ اپنے ہاتھ میں نہیں لیتیں۔ ان کا کردار ایک پریشر گروپ کا ہوتا ہے۔ 'عوام دوست پاکستان‘، کس طرح اپنے نصب العین تک پہنچے گی‘ اس کے لیے ہمیں تاسیسی کنونشن کے فیصلوں کا انتظار کرنا ہے۔
فرخ سہیل گوئندی صاحب اور ان کے احباب نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ عوامی شعور کو بیدار کرنا ہے۔ شعور کی بیداری کے نام پر بے شعوری کے کچھ مظاہر ہم دیکھ چکے اور کچھ آج کل دیکھ رہے ہیں۔ گوئندی صاحب اپنے فکری اور سیاسی پس منظر کے باعث جانتے ہیں کہ شعوری تبدیلی کیا ہوتی ہے اور اس کے لوازم کیا ہیں۔ میں ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔ اقتدار کی کشمکش سے دور اور سماجی سطح پر اٹھے والی ہر آواز‘ جس کا مقصد عوام کی شعوری سطح کو بلند کرنا ہے‘ ایک نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved