مجھے نہیں علم کہ میری یہ تحریر تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت یا علمائے کرام تک پہنچتی ہے یا پھر یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے‘ لیکن یہ خلوصِ نیت سے لکھے ہوئے چند الفاظ ہیں جو میں بارگاہِ الٰہی میں اس دعا کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں کہ اگر یہ اس قوم کو کسی بہتر سمت کی جانب لے جا سکتے ہیں تو انہیں پذیرائی عطا فرمائے اور ان حلقوں کو اس پر غور کرنے کی توفیق دے جو حالات کے اس نازک موڑ پر اہم ترین مذاکرات کرنے جا رہے ہیں، اور اگر یہ الفاظ سراسر غلط سوچ کا نتیجہ ہیں تو انہیں حرفِ غلط کی طرح پڑھنے والوں کے ذہنوں سے مٹادے(آمین)۔ میں نے طویل عرصہ تک افغان جہاد کو بہت قریب سے دیکھا اور مجاہدین کی آپس کی لڑائی کے بعد ملا محمد عمر کی قیادت میں اُبھرنے والی تحریکِ طالبان کے ایک ایک لمحے کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہے۔ سیّد الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جبہّ مبارک‘ جس پر ملا محمد عمر نے بیعت لی تھی، کی حرمت جس طرح افغان طالبان کے دل میں تھی، وہ حیرت انگیز تھی۔ ہر کسی کے دل میں ایک ہی مقصد تھا کہ ان کے ہاں بدامنی، خانہ جنگی اور بدحالی کا علاج صرف اور صرف شریعت کا نفاذ ہے اور پھر تاریخ نے افغانستان کے وہ پانچ پُرامن سال دیکھے جن کی نظیر گزشتہ سو سالہ افغان تاریخ میں نہیں ملتی۔ امریکہ کا حملہ، جہاد کا آغاز، پاکستان کا امریکہ کو اپنی سرزمین دینا اور ہر لحاظ سے اُس کا فرنٹ لائن اتحادی بننا، یہ بھی میرے سامنے ہے۔ یہ وہ عوامل تھے جن کے نتیجے میں تحریکِ طالبان پاکستان نے جنم لیا۔ ایک طویل جنگ، ایک اذیت ناک دور۔ دونوں اطراف سے لوگ اپنے اللہ کے حضور جا پہنچے‘ جہاں ان کا حساب ان کی نیتوں اور اعمال کے مطابق ہوگا۔ اس ساری جنگ کے دوران جنہوں نے طالبان کی جانب سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا‘ انہیں ان کے رہنمائوں ، کمانڈروں اور تربیت کاروں نے جہاد کا درس دیا اور اعلیٰ وارفع مقصد یہ بتایا کہ ہم اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اورنظام کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ، امریکہ اور اُس کے وفادار ہیں۔ پوری دنیا کے میڈیا نے اسے لائف سٹائل کی جنگ قرار دیا۔ طالبان پر الزام لگا کہ یہ اپنا نظریہ بزور شمشیر ٹھونسنا چاہتے ہیں‘ یہ پاکستان کی ریاست کو نہیں مانتے، آئین کو نہیں مانتے، جمہوریت کو نہیں مانتے۔ طالبان کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا حالانکہ ریاست، آئین اور جمہوریت کو نہ ماننے والے گروہ ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں اور ان میں کئی مسلح جدوجہد کرنے والے بھی ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ لائف سٹائل کی جنگ ہے‘ لیکن آج کے دور میںلائف سٹائل ہوتا نہیںبلکہ بنایا جاتا ہے۔ اسے دو چیزیں بناتی ہیں۔ نصابِ تعلیم اور میڈیا۔ بچے جس ماحول‘ جن ہیروز اور جس طرزِ زندگی کی کہانیاں جس زبان میں پڑھیں گے ویسا ہی اس معاشرے کالائف سٹائل بنتا چلا جائے گا اور میڈیا میں یہ طاقت ہے کہ جب اور جو چیز چاہے بِکوادے اور جیسا چاہے ملبوس ، کھانا، گانا اور عفت و عصمت کا معیار مقبولِ عام کروا دے۔ بزورِ شمشیر شریعت کے نفاذ کے ساتھ ایک اور سوال نتھی کیا گیا کہ ہم کس کی شریعت نافذ کریں‘ یعنی کون سے فرقے کی؟ الزامات در الزامات اور گیارہ سالہ جنگ کی تباہ کاریوں سے گزرنے کے بعد طالبان اور حکومت اب مذاکرات کی میز پر آر ہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب آپ کسی مذاکراتی میز پر بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کی آئینی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے طالبان کو یہ بحث پہلے روز ہی ختم کر دینی چاہیے کہ آئین، ریاست یا حکومت ان کے نزدیک غیر قانونی ہے اور یہ کہ حکومت نے ان کی حیثیت کو مانا ہے جو انہیں مذاکرات کی میز پر لا رہی ہے ۔ ایسے میں قیدیوں کی رہائی، مرنے والوں کے معاوضے، تباہ حال گھروں کی مرمت اس قدر چھوٹے مطالبے ہیں کہ مجھے قندھار کے شہر میں ملا محمد عمر کے ہاتھ میں پکڑے سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہّ مبارک سے حیا آرہی ہے۔ کیونکہ تحریکِ طالبان پاکستان بھی قندھار کے اس تاریخ ساز لمحے سے متاثر ہو کر وجود میں آئی تھی۔ ایسے میں مطالبات کی بلندی اور عظمت بھی اسی سطح کی ہونی چاہیے۔ یہ لائف سٹائل کی جنگ ہے تو مذاکرات کا آغاز اس بات سے کیا جانا چاہیے کہ پاکستان کے عوام نے جو آئین مرتب کیا ہے وہ کیسا لائف سٹائل چاہتا ہے اور یہ کہ یہ آئین حکومت سے جن اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے‘ انہیں نافذ کر دیا جائے۔ اس ضمن میں آئین کی دفعات کے مطابق پانچ بنیادی مطالبے رکھنے مناسب ہوں گے۔ یہ ایسے مطالبات ہیں جن کے بارے میں پوری امت میں کوئی اختلاف نہیں۔ 1۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل38 (ایف) کے تحت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ رباء یعنی سود کو جتنا جلد ممکن ہو ختم کرے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کسی اور برائی کے خلاف مستقل اعلانِ جنگ نہیں کیا سوائے رباء یعنی سود کے۔ دنیا بھر کے معاشی ماہرین اور تمام فرقوں کے علما بینکنگ سسٹم کو سود سمجھتے ہیں اور پوری دنیا پر ا ب اس کی برائیاں روز ِروشن کی طرح واضح ہوچکی ہیں۔ عموماً اس کے متبادل کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے، لیکن اس پر بھی اب سیر حاصل کام ہو چکا ہے اور صرف تین ماہ کے اندر پورا نظام غیر سودی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ مطالبہ آئینِ پاکستان کی ایک اہم آرٹیکل کے نفاذ کا مطالبہ ہوگا اور اس پر کسی فقہ کے عالم کو اختلاف نہیں ہوگا۔ 2۔آئین کا آرٹیکل31(2) الف حکومت پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ مسلمان کے لیے عربی زبان سیکھنے اور قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کرے‘ یعنی لوگوں کے لیے قرآن پاک پڑھنا اتنا آسان ہو جانا چاہیے جیسے بغیر کسی مشکل کے غالب، اقبال، وارث شاہ، شاہ لطیف، رحمان بابا اور مست توکّلی کو پڑھتے ہیں۔ ان سب شاعروں کے ترجمے اپنے اندر اصل روح نہیں سمو سکتے تو پھر اللہ کے کلام کو کیسے ترجمے سے دلوں پر اُتارا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں عربی کی تعلیم لازمی ہونی چاہیے اور پورے قرآن پاک کو عربی میں سمجھنا لازمی قرار دیا جائے۔ عام لوگوں کے لیے کریش پر وگرام کے ذریعے یہ کام کیا جائے۔ اس ضمن میں ملک میں نہ اساتذہ کی کمی ہے اور نہ ہی ایسی کتابیں نایاب ہیں جن سے قرآنی عربی سیکھی جا سکے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں میں بچے کم از کم چار زبانوں کا علم لازماً سیکھتے ہیں‘ اس لیے یہ طالب علموں پر کوئی اضافی بوجھ نہ ہوگا۔ یوں قرآن پاک عام آدمی ویسے ہی سمجھ سکے گا جیسے وہ عام شاعری یا نثر سمجھتا ہے۔ قرآن پاک پڑھانے پر کسی مسلک اور فقہ میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ آئین پاکستان کے تحت حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔ 3۔تیسری اہم ترین چیز نصابِ تعلیم اور ذریعۂ تعلیم ہے۔ دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور ترقی کی ہو۔ اس ملک پر امریکہ کے ڈرون حملوں سے بھی زیادہ خطرناک وہ نصابِ تعلیم ہے جو انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے وجہ سے نافذ العمل ہے۔ بچہ ابتدائی عمر ہی میں مغربی معاشرے کی نظمیں، کہانیاں اور کردار اپنے ذہن پر نقش کر لیتا ہے۔ یہیں سے وہ بنیاد استوار ہوتی ہے جو نئی نسل کو مغرب سے مرعوب، اپنے ماحول سے برگشتہ اور اپنے دین سے لاتعلق بناتی ہے۔ پاکستان کا آئین حکومت پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنائے اور سرکاری کام اُردو میں کیے جائیں۔ اس وقت دفاتر‘ عدالتوں اور دیگر سرکاری اداروں میں اُردو بلکہ مقامی زبان میں کاروبار ہوتا ہے لیکن منافقت کا عالم یہ ہے کہ تحریر کے لیے انگریزی زبان استعمال ہوتی ہے۔ سائنس کے علوم کو چھوڑ کر باقی تمام دفتری معاملات میں اور خصوصاً تعلیم کیلئے اُردو کو صرف چند ماہ میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ تمام بیرونی یونیورسٹیوں کے اس ملک میں امتحانات لینے پر پابندی کا مطالبہ کریں۔صرف ایک ہی نصابِ تعلیم میں امتحانات ہوں۔ 4۔آئین پاکستان کا آرٹیکل 37 حکومت پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت اور نشرو اشاعت کی روک تھام کرے ۔ میڈیا والے آزادی کا بہانہ بنائیں گے لیکن انہیں باقی تمام معاملات‘ جن میں کرنٹ افیئرز وغیرہ شامل ہیں‘ میں اپنا ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی آزادی دیں‘ لیکن اشتہارات ، ڈرامہ اورمعاشرتی موضوعات کو آئین کے تحت دی گئی پابندیوں کے مطابق ڈھالا جانا چاہیے۔ اس کی خلاف ورزی پر جرمانوں اور سزائوں کا اعلان ہو کہ اس روش سے ایسے خوفناک جرائم جنم لیتے ہیں جن کا بعد میں حل بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ 5۔آئین پاکستان کے تحت حکومت کے لیے قانون سازی کرنے کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشارت لازم قرار دی گئی ہیں۔ اس معاملے پر مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک سال کے عرصے میں ان پر قانون سازی کر دی جائے۔ یہ ایسی سفارشارت اور ایسے مطالبات ہیں کہ اگر ان پر صرف پانچ سال ہی مکمل روح کے ساتھ عمل درآمد ہوگیا تو اس معاشرے میں شریعت نافذ کرنے کی آواز خودبخود بلند ہونا شروع ہو جائے گی اور کوئی اس سے انکار نہیں کر سکے گا۔ اگر مطالبات کے حوالے سے عوام کا بہانہ بنایا جائے تو مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ ان پانچ مطالبات پر آئین کے تحت ریفرنڈم کروالیا جائے۔ میں آپ کو پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ لوگ قیدی بھی چھوڑ دیں گے، تاوان بھی ادا کر دیں گے، روپیہ بھی دیں گے، شرعی عدالتیں بھی قائم کرنے کو کہیں گے لیکن ان پانچوں آئینی مطالبات کو ماننے میں تامل ظاہر کریں گے۔ یہ طالبان کے اسلحے اور طاقت سے نہیں ڈرتے‘ قرآن کے علم اور اُسی کی حقانیت سے ڈرتے ہیں اور مذاکرات میں بہترین اور کامیاب وہ ہوتا ہے جو صورتحال سے فائدہ اٹھائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved