تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-03-2023

گردن کا سریا اور کاسۂ گدائی

آخر پاکستان کی حکومت دبے دبے لفظوں میں اور عوام کھلے عام آئی ایم ایف کو برا بھلا کیوں کہتے ہیں؟ ہمارے پڑھے لکھے دانشور بھی آئی ایم ایف کو ایک وِلن کی طرح کیوں پیش کرتے ہیں؟ آخر آئی ایم ایف ہمیں وہ کیا بات کہتا ہے جس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور وہ ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے جس پر ہم اسے مطعون کرتے ہیں؟
دنیا میں کوئی کاروبار‘ کوئی کمپنی حتیٰ کہ کوئی دکان بھی اس صورت میں تادیر نہیں چل سکتی کہ اس کی آمدنی کم ہو‘ اخراجات زیادہ ہوں اور اوپر سے بدانتظامی ایک اضافی جوتا ہو‘ جو مسلسل سر پر برس رہا ہو تو ایسا کاروبار‘ کمپنی یا دکان جلد یا بدیر بند ہو جاتی ہے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہماری ملکی آمدنی کم ہے‘ اخراجات زیادہ ہیں اور اس پر مستزاد ہماری بدانتظامی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے تین ہی طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ آمدنی بڑھائی جائے‘ دوسرا یہ کہ اخراجات کم کیے جائیں اور تیسرا یہ کہ ان دونوں کاموں کو بیک وقت کیا جائے یعنی آمدنی بڑھائی جائے اور اخراجات کم کیے جائیں لیکن ان تینوں کاموں کے لیے جس صلاحیت اور نیت کی ضرورت ہے‘ وہ ہم میں مفقود ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں آمدنی بڑھانے‘ اخراجات کم کرنے کا کہتا ہے اور ان کاموں کے لیے درکار صلاحیت کے پیدا کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس پر ہمارے پڑھے لکھے دانشور بھی آئی ایم ایف سے ناراض ہیں اور ہمہ وقت اسے پاکستان کا دشمن‘ ملکی آزادی اور سالمیت کے خلاف سازشوں میں مصروف اور ہماری معاشی ناکہ بندی کرنے والے ادارے کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے اخراجات کم کریں‘ بے کار اور بے فائدہ قسم کی سبسڈیز دینے سے پرہیز کریں جس کی رقم بالواسطہ یا بلاواسطہ غریب آدمی کے بجائے سیٹھ‘ سرمایہ دار اور صنعت کار کی جیب میں جا رہی ہے۔ اور مسلسل گھاٹے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کرنے‘ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور تازہ ترین مطالبے میں سرکاری افسران کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا پابندبنانے کے مطالبات شامل ہیں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں‘ اس میں کون سی چیز ناجائز ہے اور کون سا مطالبہ غلط ہے؟
گزشتہ مہینے ملتان سے کراچی گیا تو سرکاری ایئر لائن نے مجھ سے اس سیکٹر پر ریٹرن ٹکٹ کے عوض چالیس ہزار روپے اینٹھے اور اس کے باوجود یہ ادارہ ہر سال کئی سو ارب کا خسارہ کرتا ہے۔ برسوں سے بند پڑی ہوئی سٹیل ملز کا بھی یہی حال ہے۔ پاکستان ریلویز بھی اسی قسم کا سفید ہاتھی ہے۔ بجلی والا معاملہ ان سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔ پی ایس او خسارے میں ہے۔ ان چار پانچ ظاہری سفید ہاتھیوں کے علاوہ دیگر کئی ڈھکے چھپے سوراخ ہیں جن میں ہر سال کئی سو ارب روپے غرق ہو جاتے ہیں۔ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے گندم مہنگے داموں خرید کر سستے داموں فروخت کرنے کی مد میں بینکوں کا پانچ سو ارب روپے سے زیادہ قرضہ ادا کرنا ہے اور ہر سال اس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کھاد کے سیکٹر میں بھی یہی حال ہے۔ پنجابی میں اس کے لیے ایک نہایت ہی مناسب کہاوت ہے مگر بہرحال وہ کہاوت یہاں لکھنے کیلئے ہرگز مناسب نہیں‘ اس لیے اسے رہنے ہی دیں؛ تاہم موجودہ صورتحال میں یہ کمپنی زیادہ دیر چلنے کی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت میں موجود ان بڑے بڑے سوراخوں کو بند کرنے کا کہہ رہا ہے مگر اللے تللوں میں مصروف حکمران اور ٹیکس چور عوام‘ دونوں اخراجات کم کرنے اور آمدنی بڑھانے کے آئی ایم ایف کے مطالبوں کو ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے آئی ایم ایف ہمیں لوٹ رہا ہے۔ ظاہر ہے ہر قرض دینے والا اپنے قرض کی واپسی کے لیے آپ کی معاشی صورتحال کو سامنے رکھے گا۔ اپنے قرض کی واپسی کے لیے آپ سے مالی ضمانتیں طلب کرے گا اور آپ کے کاروبار کی بیلنس شیٹ کا جائزہ لے کر آپ کو قرض دینے کی ہامی بھرے گا۔ اگر آپ کو یہ منظور نہیں تو قرض لینے پر اور قرض دینے والے پر لعنت بھیجیں۔ اپنے گھر پر آرام سے بیٹھیں اور قرض دینے والے کو اپنے گھر آرام سے رہنے دیں۔
اس ملک کے سرکاری افسروں کا ٹیکس ان کی تنخواہ سے ہی منہا ہو جاتا ہے اور سرکاری افسر ٹیکس کی اس ادائیگی کا‘ جو دراصل ان سے پوچھے بغیر اور ان کی رضامندی معلوم کیے بنا ان کی تنخواہ سے کاٹ لی جاتی ہے‘ ایسے ذکر کرتے ہیں جیسے انہوں نے رضاکارانہ ٹیکس دے کر اس ملک پر احسانِ عظیم کیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سرکاری افسران کی نوے فیصد سے زائد تعداد ٹیکس تو ادا کرتی ہے لیکن ریٹرنز فائل نہیں کرتی۔ اور بھلا کیوں نہیں کرتی؟ صرف اس لیے کہ ان کی جائیداد‘ بینک بیلنس اور دیگر اثاثوں پر پردہ پڑا رہے۔ کماؤ محکموں میں نوکری کرنے والوں کے کروڑوں روپے کے اثاثے پردۂ غیب میں چھپے رہتے ہیں۔ ایسے اکثر افسران نے یہ اثاثے اپنے گھر والوں کے نام لگا رکھے ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر افسران کی بیویاں کسی نہ کسی کاروبار کا شوشہ چھوڑے رکھتی ہیں۔ کسی نے بوتیک کھول رکھا ہے‘ کوئی فوڈ انڈسٹری میں ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے۔ ان افسران کی بیگمات کے نام نہاد کاروبار جو اکثر خسارے میں چل رہے ہوتے ہیں‘ ان کی ساری ناجائز کمائی کو وائٹ کرنے کے کام آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کی ساری ناجائز کمائی اور کرپشن کا پیسہ بڑے مزے سے اپنا رنگ بدل کر سیاہ سے سفید ہو جاتا ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حکومت پاکستان کا گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس تک کا ہر افسر نہ صرف اپنا ٹیکس گوشوارہ بھرے اور اپنے تمام تر اثاثے بشمول بیرونِ پاکستان ڈکلیئر کرے بلکہ زیر کفالت گھر کے افراد کے نام پر موجود اثاثے بھی ظاہر کرے۔ میرے خیال میں یہ ایسا مطالبہ ہے جو آئی ایم ایف کے بجائے خود حکومت کو عرصہ پہلے لاگو کر دینا چاہیے تھا۔ اپنی نالائقی‘ بے حسی اور نااہلی کے باعث اگر یہ کام ہم خود نہیں کر سکے تو ہمیں آئی ایم ایف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہمارے معاشی بحران کی آڑ میں آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ کرکے اور ہمارا راستہ صاف کرکے ہماری دیرینہ خواہش پوری کر دی ہے۔ اگر کنویں میں گرے ہوئے گدھے کے ساتھ پنجابی محاورے والا سلوک ہو جائے تو اس خوشی میں ہمیں ایک بڑی شخصیت کے اثاثوں کی تفصیلات لیک کرنے کے جرم میں صعوبتیں جھیلنے والوں کو تو ایوارڈ دینا چاہیے۔
ہم معاشی حالت کے حوالے سے فقیروں سے بدتر ہیں جبکہ ہماری انا کا کوہِ ہمالیہ آسمان کو چھو رہا ہے۔ ہم عملی طور پر فقیر اور دماغی طور پر بادشاہ ہیں۔ ہماری شاہ خرچیاں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم دنیا کی امیر ترین قوم ہیں جبکہ حالت یہ ہے کہ اب ہمیں دوست ممالک بھی پیسے دینے کے بجائے آئی ایم ایف کی جانب سے کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں۔ فضول خرچیوں اور سخاوتوں کا یہ عالم ہے کہ خالی خزانے کی رکھوالی کے لیے ایک عدد وزیر خزانہ رکھا ہوا ہے اور تقریباً ہر سرکاری محکمہ بنیادی مقصد کی انجام دہی کے لیے بھی اپنے افسروں کو الگ سے انعامات اور الاؤنس بانٹنے میں مصروف ہے۔ وزیراعظم نے وفاقی سیکرٹریٹ کے گریڈ 17سے بائیس تک کے افسروں کو ان کی بنیادی تنخواہ کا 150فیصد ایگزیکٹو الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور پوائنٹ آف سیل فیس سے حاصل ہونے والے ریونیو سے اِن لینڈ ریونیو افسران کو نوازنے کے لیے کامن پول بنایا جا رہا ہے۔ یعنی کام نہ کرنے کے عوض خالی تنخواہ اور کام کرنے کے عوض علیحدہ سے الاؤنس دیا جائے گا۔ ایک طرف سخاوتیں کی جا رہی ہیں‘ دوسری طرف آئی ایم ایف کو گالیاں نکالی جاتی ہیں۔ آئی ایم ایف کو گالیاں دینے سے پہلے اپنی حرکتیں ٹھیک کریں‘ گردن کا سریا اور کاسۂ گدائی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved