جمعہ کے روز الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے 30 اپریل سے 7 مئی تک کی تواریخ تجویز کی تھیں‘ جس کے بعد صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن کی مشاورت سے پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں گورنر خیبرپختونخوا سے بھی جواب مانگا ہے کیونکہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی تھی تو انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی انہی کا آئینی اختیار ہے۔ پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے علاوہ بظاہر کوئی راستہ نہیں بچا ہے‘ گورنر کو بہر طور الیکشن کا اعلان کرنا ہی پڑے گا مگر اس سوال اب یہ ہے کہ کیا اعلان کے مطابق دونوں صوبوں میں انتخابات کا انعقاد ہو پائے گا؟ ہماری دانست میں دونوں صوبوں میں اعلان کے مطابق الیکشن کا انعقاد آسان نہیں ہو گا۔ ابھی بہت کچھ ایسا ہے جو سامنے آنا باقی ہے کیونکہ الیکشن کا انعقاد ایسے حالات میں ہونے جا رہا ہے کہ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے‘ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی تقریباً تمام کڑی شرائط مان لی ہیں لیکن اس کے باوجود پروگرام بحال نہیں ہو پایا ہے۔ اس موقع پر خان صاحب کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ جو بوجھ انہوں نے اٹھانا تھا‘ آج وہ بوجھ اتحادی حکومت اٹھا رہی ہے کیونکہ آج اگر پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو انہیں بھی ایسے ہی معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا‘ مگر تحریک انصاف کی قیادت قوم کو پورا سچ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہماری مجبوری ہے‘ مہنگائی کی حالیہ لہر کا تعلق بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے ہے‘تحریک انصاف پر ہی کیا موقوف‘ ہر اپوزیشن کا یہی وتیرہ ہوتا ہے کہ حالات سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود وہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کرتی ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اگلے تین برس تک آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت آئے گی‘ اسے بھی انہی مالی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشی بحران کے کچھ اسباب اندرونی ہیں اور کچھ بیرونی۔ کمزور حکومتوں نے مصلحت کے تحت کبھی بھی بیرونی وجوہات کا ذکر نہیں کیا ہے؛ تاہم ہمارے دیرینہ دوست ملک چین نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کا سبب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیاں ہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور قرض دینے والے ممالک پاکستان کی معاشی صورتحال میں مدد کریں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چین نے پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی ہو بلکہ اس سے قبل جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا‘ چین نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملک واپسی اور مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ کے عہدے سے اس لیے ہٹایا گیا تھا تاکہ مالی مشکلات کو ختم کیا جا سکے‘ تاہم بسیار کوشش کے باوجود اسحاق ڈار صاحب معاشی اہداف کے حصول میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ چند ماہ پہلے جس طرح مفتاح اسماعیل پر تنقید کی جا رہی تھی‘ ٹھیک اسی طرح آج اسحاق ڈار پر تنقید کی جا رہی ہے‘ کچھ حلقے تو انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں؛ تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ کیا اسحاق ڈار کو عہدے سے ہٹانے کے بعد مالی مشکلات ختم ہو جائیں گی؟ ہرگز نہیں‘ بلکہ قوی امکان ہے کہ وزیر خزانہ کی تبدیلی سے مالی بحران مزید بڑھ جائے گا کیونکہ ہر شخص اپنے وژن کے مطابق کام کرتا ہے جیسا کہ مفتاح اسماعیل کے جانے کے بعد اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے بغیر ملک کو چلانے کی کوشش کی تو معاشی بحران گمبھیر ہو گیا۔ معاشی بحران کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اعلان کے باوجود الیکشن کا انعقاد آسان نہیں ہوگا۔ ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور یہ عمل یکم اپریل تک مکمل ہونا ہے اور اس کے حتمی نتائج 30اپریل تک متوقع ہیں جس کے بعد الیکشن کے لیے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ یہ دراصل تحریک انصاف کا ہی منصوبہ ہے۔ نئی مردم شماری سے جب حلقہ بندیاں تبدیل ہو جائیں گی تو کیا دو صوبوں میں پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات ہوں گے اور کچھ عرصہ کے بعد قومی‘ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی نشستوں پر نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات ہوں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا انتخابات کے بعد مالی بحران ختم ہو جائے گا؟ ان سوالوں کے منطقی جواب تلاش کیے بغیر الیکشن میں جانا ایک مشقِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
دوسری طرف اگلے روز چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا ایک میڈیا بریفنگ میں کہنا تھا کہ مقتدرہ کے ساتھ ان کی کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ جیسے مقتدرحلقوں کے ساتھ ان کے تعلقات تو مثالی ہیں لیکن کوئی مخالف خواہ مخواہ ان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خان صاحب نے اپنے اس بریفنگ میں آرمی چیف سے ملنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ شاید انہیں دشمن سمجھا جا رہا ہے۔ خان صاحب سیاست دان ہیں‘ وہ بظاہر جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہیں؛ تاہم ان کے ہر عمل سے کسی نہ کسی طرح جمہوری اقدار کو نقصان پہنچتا ہے۔ خان صاحب کو اگر کسی کے ساتھ ملنا اور بیٹھنا چاہیے تو وہ سیاست دان ہیں مگر وہ اپنے حریف سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب وہ حکومت میں تھے تب بھی اور اب جبکہ اپوزیشن میں ہیں تب بھی حریف سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ان کا رویہ کافی سخت ہے۔ خان صاحب حریف سیاست دانوں کو جن القابات سے پکارتے رہے ہیں‘ وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے مقتدرہ مخالف رویہ اپنائے رکھنے کے بعد اب وہ اس ملاقات کے متمنی کیوں ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کی سابق حکومت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی تھی۔ خان صاحب جمہوریت کا علم تو بلند کیے ہوئے ہیں مگر وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کوئی انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دے۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ معاشی بحران نے انہیں عوام کی نظروں میں پھر سے مقبول بنا دیا ہے‘ اس لیے وہ اس مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر بات کر رہے ہیں تاکہ اپنی شرائط منوا سکیں؛ تاہم خان صاحب کے کچھ قریبی دوستوں نے شاید اب انہیں سمجھایا ہے کہ بات چیت کے بغیر حکومت کرنا آسان نہیں ہو گا‘ سو وہ پیشگی بندوبست کر رہے ہیں تاکہ اگر عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتی ہے تو انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیا یہ سب مگر اتنا آسان ہے جس قدر خان صاحب سمجھ رہے ہیں؟ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد خان صاحب نے جو سخت بیانیہ اپنایا اور ان کے حالیہ بیانیے میں کھلا تضاد سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ کیا ان کے سیاسی مخالفین اتنا جلدی سب کچھ بھول جائیں گے؟
سبکدوش ہونے والے آرمی چیف واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ سیاست میں فوج کی مداخلت غیر آئینی ہے‘ موجودہ آرمی چیف بھی اسی عزم کو دہرا چکے ہیں‘ پچھلے تین ماہ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ آرمی چیف سیاسی معاملات سے دور ہیں‘ ان حقائق کے باوجود اگر خان صاحب ملنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں تو ساری کہانی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ بقول میر تقی میرؔ ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved